ساحرؔ لدھیانوی، یومِ پیدائش پر ہے خاص۔ کیونکہ

0
135

غزل-1

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی

نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے

نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے

مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں

مرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی

تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

********************

غزل-2

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں

گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے

تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانۂ الم ہو کر

ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا

ترا گداز بدن تیری نیم باز آنکھیں

انہی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی

ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں

گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے

کہ تو نہیں ترا غم تیری جستجو بھی نہیں

گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے

اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے

گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے

مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں

حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا سراغ

بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری

انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر

میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یوں ہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

********************

غزل-3

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے

فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے

تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں

خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ

سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب

لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو

جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو

محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو

خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے

شعلۂ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا

آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے

کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر

خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے

سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے

ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا

ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک

خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے

ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے

ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے

ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

********************

غزل-4

وہ صبح کبھی تو آئے گی

ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا

جب دکھ کے بادل پگھلیں گے جب سکھ کا ساگر چھلکے گا

جب امبر جھوم کے ناچے گا جب دھرتی نغمے گائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

جس صبح کی خاطر جگ جگ سے ہم سب مر مر کر جیتے ہیں

جس صبح کے امرت کی دھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں

ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں

مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں

انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا

چاہت کو نہ کچلا جائے گا غیرت کو نہ بیچا جائے گا

اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی

وو صبح کبھی تو آئے گی

بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بیکاری کے

ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے

جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا

معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا

حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انساں نہ جلائے جائیں گے

سینوں کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے

یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بنائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

2

وہ صبح ہمیں سے آئے گی

جب دھرتی کروٹ بدلے گی جب قید سے قیدی چھوٹیں گے

جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے

اس صبح کو ہم ہی لائیں گے وہ صبح ہمیں سے آئے گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی

منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے

جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے جب سر نہ اچھالے جائیں گے

جیلوں کے بنا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی

سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے ملوں سے نکلیں گے

بے گھر بے در بے بس انساں تاریک بلوں سے نکلیں گے

دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی

وہ صبح ہمیں سے آئے گی

********************

غزل-5

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا

انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

اچھا ہے ابھی تک تیرا کچھ نام نہیں ہے

تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے

جس علم نے انسانوں کو تقسیم کیا ہے

اس علم کا تجھ پر کوئی الزام نہیں ہے

تو بدلے ہوئے وقت کی پہچان بنے گا

انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا

ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا

قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی

ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا

جو توڑ دے ہر بند وہ طوفان بنے گا

انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے

انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے

قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا

گیتا نہ ہو جس میں وہ حرم تیرا نہیں ہے

تو امن کا اور صلح کا ارمان بنے گا

انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here