مکرمی!مرکزی وزیرمالیات نرملاسیتارمن نے ملک کے پارلیمان میںجو بجٹ پیش کیاہے وہ اکثریت عوام کیلئے مایوس کن ہے۔ عام آدمی اورگھریلوطبقے کو بجٹ میں ’کورونا‘دورکی پریشانیاں برداشت کرنے کے بعد حکومت سے راحت بھرابجٹ ہونے کی امید تھی لیکن حکومت نے درمیانی طبقہ کو بجٹ میں کوئی خاص راحت مہیا نہیںکی۔ اگر پورے بجٹ کا گہرائی سے جائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گا کہ اِس میں،منفی نکات زیادہ ہیں اورمثبت نکات کم ہیں ۔ بجٹ میں زرعی ٹیکس لگانے سے عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ پڑے گا۔ حکومتی کمپنیوں کو بند کیے جانے کے فیصلے سے ملک کے نوجوانوں کے سامنے روزگار کا بحران کھڑا ہوجائے گا۔علاوہ ازیں سرکاری ملازمین کو ٹیکس میںکوئی رعایت نہ ملنے سے سب سے زیادہ مایوسی ہوئی ہے کیوںکہ سرکاری ملازمین ہی سرکار کو اُصولی طور پر ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ پیٹرول وڈیژل پر نیا ٹیکس لگانے سے نہ صرف کسانوں کی پریشانی ہوگی بلکہ دیگر غریب ومتوسط طبقے کے سبھی لوگ مزید مہنگائی کی مار جھلیں گے۔ اِس بجٹ میںنجکاری کو فرو غ دینے کا اعلان کیاگیاہے۔ عوامی املاک نجی ہاتھوں میں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایاگیاہے۔حکومت نے سرمایہ دار طبقے پر بڑی عنایت کی ہے ۔جہاں تک مثبت نُکات کا تعلق ہے75سال سے زیادہ عمر کے سینئر شہریوں کو انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرنے سے مستثنیٰ قرار دیاگیاہے۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن اورلداخ میں مرکزی یونیورسٹی بنانے کااعلان کیاگیاہے۔ مرکزی بجٹ میں اقلیتوں کیلئے فنڈ میںاضافہ کیاگیاہے۔ آسام اورمغربی بنگال کے چائے کے باغات کے مزدوروں اورماہی گیروں کیلئے فلاحی پروگراموں اور اِس خطے کیلئے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کابھی اعلان کیاگیاہے۔ لب لباب یہ ہے کہ موجودہ بجٹ عام آدمی کی توقع کو جزوی طورپربھی پورا نہیںکرتاہے۔
عتیق احمدفاروقی
سبکدوش پرنسپل ,ممتازپی-جی-کالج لکھنؤ
9161484863