بنگال پرکس کا’ جادو‘ چلے گا ، مودی کا یا دیدی کا – The Bengal Magic’s ‘magic’ will work, Modi’s or Didi’s

0
121

 The Bengal Magic's 'magic' will work, Modi's or Didi'sاختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی
ممتا بنرجی کے نندی گرام میں کچھ لوگوں کے دھکے سے گر کر زخمی ہونے اور کسان لیڈروں کے اس اعلان کے بعد کہ وہ بنگال میں بی جے پی کے خلاف عوام کو بیدار کریں گے ۔ الیکشن کافی دلچسپ ہو گیا ہے۔ ممتا بنرجی کے زخمی ہونے کو بی جے پی ڈرامہ قرار دے رہی ہے امکان ہے کہ اس موقع کو ٹی ایم سی عوام کی ہمدردی حاصل کرنے میں استعمال کرے گی ۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ پچھلے دنوں بی جے پی صدر کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جس کو لیکر بی جے پی نے کافی واویلا کیا تھا۔ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو گیا ہے بنگال کی 294 نشستوں والی اسمبلی کے لئے آٹھ مرحلوں میں انتخاب ہونا ہے۔27 مارچ سے 29 اپریل تک الیکشن ہونے ہیں اور 02 مئی کو نتائج کا اعلان ہو گا۔ ویسے بھی پانچ ریاستوں کے الیکشن میں بنگال کا الیکشن سب سے اہم مانا جارہاہے۔ سارے ملک کی نگاہیں اس الیکشن کے نتائج پر مرکوز رہیں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس الیکشن میں مقابلہ سیاسی پارٹیوں کے بیچ ہونے کے بجائے وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بیچ ہے۔ الیکشن کے اعلان سے کافی پہلے بی جے پی بنگال میں الیکشن کی مہم شروع کر چکی تھی۔اس الیکشن سے بی جے پی کافی پر امید ہے ۔بی جے پی کا ووٹ شیئر پچھلے کچھ انتخابات میں کافی بڑھ گیا ہے۔ جنوری میں وزیر داخلہ امت شاہ کے دورے کی شروعات ہی ’جے شری رام ‘کے نارے کے ساتھ ہوئی۔ انہوں نے ممتا بنرجی پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ بنگال کا ماحول ایسا کر دیا گیا ہے کہ جے شری رام کہنا گناہ بن گیا ہے۔ آگے پاکستان کو بھی شامل کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بنگال میں نہیں تو کیا پاکستان میں جے شری رام بولا جائے گا۔ ممتا دیدی کو جے شری رام کہنے میں بے عزتی کا احساس ہوتا ہے جب کہ کروڑوں لوگ فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ان کو تکلیف ہوتی ہے کیوں کہ وہ ایک طبقہ کو خوش کر کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں حالانکہ وزیر موصوف کا جس طبقہ کی طرف اشارہ تھا وہ ہندو مذہب کی ایک برگذیدہ شخصیت ہونے کے ناتے رام چندر جی کا بے حد احترام کرتا ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک زمانے سے بی جے پی جے شری رام کے نارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے۔مرکز اور بہت سی ریاستوں میں حکومت بنانے کے باوجود بی جے پی کی سیاست کا انحصار ابھی تک فرقہ وارانہ منافرت پر ہی نظر آتا ہے۔ اس کے الیکشن کے مدعے درگا پوجا، سرسوتی پوجا۔ جے شری رام کے نارے اور گئو کشی کے ارد گرد ہی گھومتے دکھ رہے ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بنگال کے دورے کے دوران دئے گئے بیانات ہیں، جہاں وہ بی جے پی کے حق میں ماہول سازکار کرنے کی نییت سے وارد ہوئے تھے۔ انہوں نے ممتا کو مسلمانوں کا طرف دار اور ہندئوں کا مخالف ثابت کرنے میں پورا زور سرف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ بنگال میں درگا پوجا پر پابندی عائد کی جاتی ہے جب کہ محرم کے جلوسوں کو نکالنے کی اجازت ہوتی ہے۔گئو کشی کا مدعا بھی اٹھایا۔ یہاں تک کہ یو پی میں امن و قانون کی حا لت سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہوں نے بنگال کی صورت حال پر سخت تنقید کی۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو بی جے پی کی امیدیں اکثریتی ووٹوں کے پولرائیزیشن سے وابستہ ہیں۔ اور الیکشن کی مہم جس نہج پر چل رہی ہے اس سے زبر دست پولیرائیزیشن کا امکان بھی نظر آتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے نہ صرف ان کے مقامی لیڈروں نے ہندتوا کو بڑھا وا دیا ہے بلکہ پارٹی کے صدر نڈا، یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، وزیرِ داخلہ امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی تک نے ممتا حکومت کی تنقید میں وہی روش اختیار کئے رکھی ہے،۔ وزیر اعظم نے انتخابات کے لئے مہم کا آغاز کرتے ہوئے ممتا بنرجی پر تنقید کی اور کہا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو ہم’ سونار بنگلہ ‘ کی تعمیر کریں گے۔سونار بنگلہ کے معنی سونے کا بنگال یا سونے جیسا بنگال۔ یہ لفظ رویندر ناتھ ٹیگور کے ایک گیت سے مستعار ہے جو کہ بنگلا دیش کا قومی ترانہ ہے۔ اب بی جے پی بنگال کو سونے کا بنا نے میں کہاں تک کامیاب ہو گی جب کی اس کے زیرِ حکومت صوبوں اتر پردیش، مد ھیہ پردیش، کرناٹک وغیرہ کا حال دنیا کے سامنے ہے۔ انہوں نے ممتا پر اقرباء پروری کا بھی الزام لگایا۔ان کے نندی گرام سے الیکشن لڑنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ممتا دیدی نے اپنی اسکوٹی بھوانی پور سے نندی گرام کی طرف موڑ دی ہے اگر ان کی اسکوٹی نندی گرام میں ہی گرتی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ واضح رہے کہ پیڑول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر احتجاجاََ ممتا بنرجی اسکوٹی سے آفس جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے بڑھتی ہوئی مہنگائی ، پیٹرولیم مثنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، کسانوں کے طویل احتجاج اور سرکاری املاک کی فروخت کے ذکر سے اجتناب کیا۔ابھی وزیر اعظم کی درجنوں ریلیاں ہونی ہیں۔اب یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ بنگال کے با شعور سمجھی جانے والے ووٹر وزیر اعظم کی تقاریر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں یا لنترانی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔بی جے پی کے حوصلے ٹی ایم سی میں ہو رہی بغاوت کی وجہ سے بھی بلند ہیں۔ مکل رائے۔ شبیندر ادھیکاری سے لیکر درجنوں ایم ایل اے اور دیگر ممبران ٹی ایم سی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ کانگریس ۔ لیفٹ اور اویسی کی پارٹی کے زریعہ ہونے والی ووٹوں کی تقسیم سے بھی بی جے پی پر امید ہے۔
اب آتے ہیں ترنمول کانگریس کے امکانات کی طرف، یہ پارٹی پچھلے دو انتخابات میں اکثریت حاصل کر چکی ہے۔ لیکن پچھلے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے اچانک بڑھے ووٹ فیصد نے پارٹی کی فکر بڑھا دی ہے۔لیکن ممتا بنرجی اب بھی سب سے زیادہ پر اعتماد نظر آتی ہیں،ان کی پارٹی نے الیکشن کا اعلان ہوتے ہی نہ صرف 294 سیٹوں میں سے 291سیٹوں کے لئے امید واروں کی لسٹ جاری کر دی۔بلکہ ممتا بنرجی نے خود نندی گرام سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔ نندی گرام وہی سیٹ ہے جہاں سے پچھلے الیکشن میں شوبیندو ادھیکاری جیتے تھے جو اس بار بی جے پی میں شامل ہو کر ان کے حریف ہیں۔ اس طرح موجودہ الیکشن میںیہ سیٹ سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہو گئی ہے۔ ٹی ایم سی نے اس بار50 خواتین، 42 مسلمان ، 79 شیڈول کاسٹ اور 17 ایس ٹی امید واروں کو ٹکٹ دیا ہے ، جب کہ بی جے پی ابھی تک کچھ ہی سیٹوں پر ہی امید واروں کا فیصلہ کر پائی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ ترنمول کانگریس چھوڑ کر آئے لوگوں کو مطمعن کر پانا ہے۔ جہاں تک مسلم ووٹوں کا سوال ہے مغربی بنگال میں تقریباََ تیس فیصدی مسلم ووٹ ہیں۔ جن کی بڑی تعداد ٹی ایم سی کے ساتھ ہے ۔ انجمن اتحادالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے جس جوش و خروش سے بنگال کے الیکشن میں شمولیت کا اعلان کیا تھا وہ کافی حد تک خانقاہ فرفرہ شریف کے پیرزادہ عباس صدیقی کی حمایت نہ ملنے سے سرد پڑ گیا ہے۔ اب اویسی نے صرف دس نشستوں پر الیکشن لڑنے کا اندیہ دیا ہے۔ کل ملا کر اویسی کی وجہ سے ممتا بنرجی کو ا نتخاب میں زیادہ نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بی جے پی کے زریعہ بنائی جا ریہ اپنی ہندو مخالف امیج توڑنے کے مقصد سے انہوں نے مندروں میں درشن کرنے اور اور منتروں اور شلوکوں کے پاٹھ کرنے کی بھی شروعات کر دی ہے۔
اس بار اسمبلی انتخابات میں کچھ دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی ممتا بنرجی کی حمایت کا اعلان کیا ہے جیسے کی مہا ر ا شٹر کی پارٹی شیو سینا، بہار کی آر جے ڈی اور اتر پردیش کی سماجوادی پارٹی وغیرہ۔شیو سینا کے سنجئے رائوت نے ممتا کو بنگال کی شیرنی قرار دیا اور کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ وہ گرجتے ہوئے کامیاب ہوں۔ آر جے ڈی کے تیجسوی یادو نے کہا کہ ان کا مقصد بی جے پی کو روکنا ہے اس لئے وہ ممتا دیدی کی حمایت کر رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی ممتا بنرجی کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کے پروپگنڈے کا مقابلہ صرف ممتا بنرجی ہی کر سکتی ہیں اس لئے ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اگرچہ بنگال میں ان پارٹیوں کا اثر و نفوس زیادہ نہیں ہے اس لئے ان کی حمایت اخلاقی حمایت ہی مانی جانی چاہئے۔ٹی ایم سی کے حق میں ایک نیا فیکٹر اور سامنے آ رہا ہے ۔ کسان تحریک جس کو سو دن سے اوپر گذر چکے ہیں۔ سردیوں کا سارا موسم انہوں دھرنا دیتے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے گذارا ہے۔ زرعی قوانین جو کہ کسان رہنمائوں کے مطابق کالے قوانین ہیں اور کسانوں کی تباہی کا پیش خیمہ ہیں ان کی واپسی کے لئے چلائی جا رہی طویل تحریک پر بی جے پی کی مرکزی حکومت نے مطلقاََ توجہ نہیں دی۔اس لئے اب کسان تحریک کے لیڈروں نے بی جے پی کے مشن بنگال کی ہوا نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ فیصلہ بنگال کے علاوہ دیگر ریاستوں کے لئے بھی ہے جہاں جہاں انتخابات ہو رہے ہیں۔مغربی بنگال میں ہونے والے انتخابات کی گونج پنجاب۔ ہریانہ راجستھان اور اتر پردیش میں ہونے والی کسان مہا پنچائیتوں میں لگاتار سنائی دے رہی ہے۔ بنگال چلو کا نارہ سنائی دے رہا ہے۔کسان تنظیموں نے آئیند ہ چند روز میں بنگال میں بھی کسان تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کسان تحریک کے دوران اپنی اشک فشانی کو لے کر سرخیوں میں آئے کسان لیڈر راکیش ٹکیٹ کے مطابق بہت جلد مغربی بنگال میں بھی کسان مہا پنچائیتیں کی جائینگی۔ مطلب صاف ہے ۔ کسانوں کے مسائل کو لیکے بی جے پی حکومت کی بے حسی کو اجاگر کرنے کا مسمم ارادہ کر لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کسان لیڈر گرنام سنگھ چڑھونی کا بیان اور بھی واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی بنگال میں بھی کسان ہیں۔ وہاں بھی زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے ہم لوگوں کے درمیان یہ پیغام پہونچائیں گے کہ جو لوگ ہمارا ذریعہ معاش چھین لینے پے آمادہ ہیں انھیں قطعی ووٹ نہ دیں۔ اب اگر ان لیڈروں نے بنگال میں کسان پنچائیتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تو انتخابات میں بی جے پی کا نقصان یقینی ہے۔
اس طرح سے الیکشن کے نتائج کو لیکر ایک بے یقینی کی کیفیت ہے حالانکہ بی جے پی نے وزیر اعظم ، مرکزی کابینہ ،کئی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور پارٹی کے سارے بڑے لیڈران کو الیکشن میں لگایا ہوا ہے غرض یہ کہ پوری طاقت لگا رکھی ہے۔ لیکن پھر بھی سارا دار و مدار ووٹوں کی تقسیم اور ووٹوں کے پولرائیزیشن پر ہے۔ ممتا بنرجی کی پارٹی ٹی ایم سی کا دا ر و مدار ان کی پچھلے دس برسوں کی کارکردگی اقلیتوں اور کسان لیڈروں اور کچھ دیگر پارٹیو کی حمایت اور خود ان کی آئرن لیڈی کی امیج پر ہے۔ اب دیکھئے ،جادو کے لئے مشہور بنگال پر کس کا جادو چلتا ہے مودی کا یا دیدی کا۔
+919450191754

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here