انیس درانی
بھارت میں پولس ایک ایسی مقدس گائیں بن چکی ہے جس کی طرف غصہ سے دیکھنا یا اس کا کسی راہ چلتے راہ گیر پر سنگھ سے حملہ کرنے پر آوازیں نکال کر اسے بھگانے کی کوشش کرنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے اور اگر آپ مسلمان ہیں تو یہ معمولی سی حرکت ایک سنگین سازش بن جاتی ہے جس کا بھانڈا پھوڑنے پر پولس کو شاباشی اور کارہائے نمایاں کے میڈل دیئے جاتے ہیں۔ بھارت میں ابھی تک وہی پولس کا نظام زیر استعمال ہے جسے فرنگیوںنے بھارتیوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کی ہمتیں پست کرنے کیلئے بنایاتھا۔ پہلے پولس ان کا حکم بجاتی تھی، امن وقانون کو قائم اور بالاتر رکھنے کیلئے لیکن آزادی کے بعد جب حکومت بھارتیوں کے ہاتھ میں آئی تویہ نظام پولس بھی سیاسی لیڈروںکے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن گیااور پہلے سے بھی زیادہ ظالمانہ طریقوںسے عوامی مخالفت کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔حکومت خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو،مگر اسے ہمیشہ پولس کے منوبل (خود اعتمادی)نہ گرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ عوام جائے بھاڑ میں پولس کا منوبل نہیں گرنا چاہئے۔ گزشتہ 70سالوںمیں کئی سرکاروںنے کئی مرتبہ کمیشن بنائے، تاکہ بدلتی دنیا کے حساب سے پولس کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے مگر ان کمیشنوںکی رپورٹوں کو کبھی عملی جامہ نہیں پہنایاگیا۔کیوںکہ بیشتر پولس اصلاحات کی رپورٹوںمیں پولس کو کام کرنے کی آزادی دینے کی بات کہی گئی تھی، جو حکومت میں بیٹھی کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں چاہتی۔ اس لئے پولس نظام میں نا توماضی میں کوئی اصلاح ہوسکی اورنا مستقبل میںایسا ہونے کے آثار ہیں۔ اسی لئے پولس دن بہ دن زیادہ جابراور متشدد ہوتی جارہی ہے۔ کیوںکہ وہ ’’منوبل‘‘کی آڑ میں کسی بھی قسم کی باز پرس سے محفوظ ہے۔ خاص طور پر ان دنوں جب موجودہ حکمراں جس کو چاہیں اس پر غداروطن اور ملک دشمن کا ٹھپہ لگاکرگرفتار کرسکتے ہوں۔
چند روز قبل دہلی کی ایک سیشن عدالت نے عارض خاں عرف جنید کو مشہور زمانہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں دہشت گردی کامجرم قرار دیا ہے۔فاضل عدالت کیا سزا طے کرے گی ابھی اس کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ یقینا دہشت گردی کی جو سخت سے سخت سزاہوسکتی ہے وہ مجرم کو ملنی چاہئے۔ کیوںکہ میں بھی دہشت گردی کو بنیادی انسانی حقوق کو تباہ کرنے کی کوشش کو ایک سنگین جرم سمجھتا ہوں۔تاہم میرا بھی یہ خیال ہے کہ موجودہ سیشن عدالت نے جن چشم دید گواہوںکی بنیاد پر چند تفتیشی اور سائنٹفک ثبوتوں کی بنیادپر جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی چھان بین میں رد ہوجائیںگے۔
مشہور زمانہ یا بدنام زمانہ’بٹلہ ہائوس انکائونٹر کیس‘19ستمبر2008کو انجام دیاگیا تھا۔ اس انکائونٹرسے قبل 13؍ستمبر2008کو دہلی میں سیریل بم دھماکے ہوئے تھے جن میں تقریباً30افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دہلی میں بڑے خوف وہراس کا ماحول تھا،پولس پر زبردست دبائو تھا،ہمیشہ کی طرح پولس مسلم نوجوانوںکی دھڑپکڑ کررہی تھی۔پولس کے مطابق انہیں اپنے ذرائع سے اطلاع ملی کہ بٹلہ ہائوس جامعہ نگر کے ایک فلیٹ L-18میں کچھ شرپسندوںنے اپنی ایک میٹنگ رکھی ہے۔ صبح 10:45بجے اسپیشل سیل کی ایک مسلح ٹیم اس فلیٹ میں گھسی جس کی رہنمائی دہلی پولس کے ایک تجربہ کار انسپکٹرموہن چند شرما کررہے تھے جو گولیوںسے شدید زخمی ہوگئے۔ اسی اثناء میں اے سی پی سنجیویادو بھی اپنی ٹیم کے ساتھ فوراً پہنچ گئے اورانہوںنے دودہشت گردوںکو گولی مار دی اور ایک کو گرفتار کرلیا۔جبکہ عارض خان اور ایک دہشت گرد وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بلونت سنگھ ہیڈ کانسٹیبل بھی اسی کمرے میں شہید ہوگیا۔ دوسرا سپاہی راجویر جس نے بلٹ پرف پہناہوا تھا بچ گیا۔ پولس کی کہانی کے مطابق عارض خان اس وقت سے چھپے پھر رہے تھے اورانہیں باضابطہ طور پر جرائم پیشہ قراردے دیاگیاتھا۔14فروری2018کو پولس نے عارض خان کو بھی گرفتار کرلیا اوران پربھی وہی تمام الزام لگائے گئے جو بٹلہ ہائوس کے اس فلیٹ سے گرفتار مجرمین پر لگائے گئے تھے۔یعنی سرکاری عملے کے اپنے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا،سرکاری عملے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے انہیں زخمی کرنا اور تشدد کرنا،قتل عمد کرنا اور غیر قانونی ہتھیاروںکا استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ۔سیشن جج سندیپ یادو نے 105صفحات کا طویل فیصلہ لکھا، اس کیلئے انہوںنے 100گواہوں کی شہادت لی،(گواہان میں عام شہری، پولس کے افسران اورپولس کے مخبر سبھی شامل تھے)تب انہوںنے یہ فیصلہ تحریر کیا۔
دراصل انسپکٹر چندرموہن شرما پولس کے حلقوںمیں انکائونٹر اسپیشلسٹ سمجھے جاتے تھے، انہوںنے بہت سے نامی گرامی مجرموںکو انکائونٹرس کے دوران موت کے گھاٹ اتاراتھا۔ وہ ایک ایسے بہادر پولس افسر تھے جسے اپنے ہتھیار کا ٹریگر دبانے میں کبھی جھجھک محسو س نہیں ہوئی۔ لیکن اس بٹلہ ہائوس انکائونٹر نے اس کی شبیہ بہت خراب کردی۔2008میں مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی، منموہن سنگھ وزیراعظم تھے،اس وقت گودی میڈیا نام کی کوئی شے نہیں تھی۔پریس بالکل آزاد تھا اور ٹیلی ویژن بھی پوری طرح آزاد تھا۔گودی میڈیا زبردستی ایک کیسری رنگ میں رنگے جانے کیلئے مجبورنہیں تھا۔حکومت کی پالیسیوںکے خلاف آواز بلندکرنے والے لوگوںکو بھی ٹیلی ویژن کے مباحثوںمیں بلایاجاتاتھا اور ان کے لکھے مضامین کو اخبارات میں جگہ دی جاتی تھی۔ بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں شہریوںکے حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد اوراداروںکے ہاتھ میں ہتھیار دے دیا، ان دنوں بٹلہ ہائوس اور جامعہ نگر کا تمام علاقہ فریلانس صحافیوں، بڑے اخبارات اور ٹیلی ویژن کمپنیوںکے نمائندوںسے بھرا رہتا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے اس انکائونٹر کوفرضی قرار دیاتھا اوراس کے خلاف طلباء اور اساتذہ نے مشترکہ جلوس بھی نکالے تھے۔آہستہ آہستہ میڈیا کی زبردست کھوج سے چند چیزیں نمایاں ہونے لگیں۔ میڈیا نے اپنے ذرائع سے ہلاک شدگان کی پوسٹ مارٹم رپورٹیں حاصل کرلیں۔ اسی طرح سے نعشوں کے دوفوٹوبھی حاصل کرلئے جن سے صاف پتہ چلتا تھاکہ دونوں ہلاک شدہ نوجوانوں کو بہت ہی قریب سے گولی ماری گئی تھی۔ اہم بات یہ پتہ لگی کہ گولیوںکے نشان سر کے اوپر دونوںکانوںکی درمیانی جگہ پر تھے۔اس لئے کھڑے شخص پر گولیاں دائیں سے لگیں یا بائیں سے کبھی کھوپڑی کے وسط میں نہیں لگ سکتی۔ ماسوائے اس کے کہ بیٹھے ہوئے شخص کو برابرمیں کھڑا ہوا شخص کو گولی مارے۔ان فوٹوئوں نے ملک بھر میں آگ لگا دی۔ بائیں بازو کی جماعتوںکے ممبران، یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان اور طلباء سب نے جلوس نکال کر لوگوں میں دلوںمیں سلگ رہے شکوک کو اور ہوا دے دی۔ سبھی طرف سے ایک ہی آواز بلند ہورہی تھی کہ اس انکائونٹر کی تحقیقات کوئی عدالتی کمیشن کرے، تاکہ انصاف ہوسکے۔مگر وزارت داخلہ کے دبائو میں یہ کبھی نہیں ہوسکا۔ دریں اثناء کچھ فوٹواخبارات میں ایسے بھی شائع ہوئے جن میں انکائونٹر کے بعد انسپکٹر شرما کو اپنی ٹیم کے ممبران کے ساتھ بٹلہ ہاوئس سے باہر آتے ہوئے دکھایاگیا۔ ان کے پیٹ سے گولی لگنے کے سبب خون بہہ رہا تھا۔ مگر وہ پیدل چل رہے تھے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ سامنے سے چلی گولیوںکے باوجود ان میں چلنے کی طاقت تھی۔ ان کی کمر پر بھی دوگولیوںکے نشان تھے،اس پرسوال اٹھے کہ جب وہ فلیٹ میں داخل ہوئے اوردہشت گردوں پر گولی چلائی تو اس وقت ان کی پشت پر گولیاں کس نے ماریں؟۔میڈیا نے سوال کی عجیب وغریب تاویلات پیش کیں۔میڈیا میں کہا گیاکہ انسپکٹر چندرموہن شرما کی پشت پر لگی گولیاں دہلی پولس کے باہمی تنازع کا نتیجہ ہے۔چندرموہن شرما کا اسپیشل سیل کے دوسرے اعلیٰ افسران سے رقم کی تقسیم پر جھگڑا چل رہا تھاجنہوںنے اس موقع کا فائدہ اٹھایاتاکہ ساراالزام دہشت گردوںکے سر آئے اور چندرموہن شرما کو سزا بھی مل جائے۔یہ سب میڈیا کی اپنی تفتیش اور تجزیے تھے،عملی طورپر عدالت میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب میڈیا نے سنسنی پھیلانے کیلئے کیا ہو۔ایک اوراہم سوال کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکاکہ فلیٹ بلڈنگ کی بالائی منزل پر واقع ہے،لیفٹ بھی نہیں ہے پھر کیسے فائرنگ کے بعد کیسے کچھمجرم فرار ہوسکے؟اڑکر آسمان میں جا نہیں سکتے تھے، سیڑھیوںپر مسلح پولس موجود تھی، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
کانگریس کی سرکار تھی اس کی مسلم قیادت بھی صورت حال سے کافی متفکر تھی اور عدالتی انکوائری کرانے کے حق میں تھی۔ اقلیتی شعبہ کے چیئرمین عمران قدوائی اور کانگریس کے نیشنل سکریٹری انیس درانی کے دوران میٹنگ ہوئی جس میں یہ طے ہوا کہ اہم مسلم لیڈروںکا ایک وفد کانگریس کی صدر محترمہ سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کرے۔ اس خیال کو احمد پٹیل مرحوم نے بھی پسند فرمایا۔چند ہی روز میں محترمہ سونیاگاندھی سے ملاقات کا وقت بھی مل گیا۔ بٹلہ ہائوس واقعہ کی وضاحت اور پولس کی گمراہ کرنے کی کوششوںکا پردہ فاش کرنے والے اس وفد میں مسز سونیاگاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل مرحوم ،مرکزی وزیرغلام نبی آزاد ، محترمہ محسنہ قدوائی،ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا رحمن خان،مرکزی وزیرسلمان خورشید،اقلیتی شعبہ کے چیئرمین عمران قدوائی اورنیشنل سکریٹری انیس درانی(راقم السطور)شامل تھے۔ ہم سب نے اپنی اپنی معلومات کا نچوڑ ان کے سامنے رکھا اوردرخواست کی کہ سارے معاملے کی عدالتی انکوائری کرائی جائے۔ مسز سونیا گاندھی نے صبروسکون کے ساتھ سارے معاملے کو سنا ۔ کئی امور کی وضاحت بھی چاہی۔ مجموعی طورپر وہ ہم سب کے موقف سے متفق تھیں۔ انہوںنے اس وفد کو وزیراعظم سے بھی ملنے کیلئے کہاتاکہ سرکاری اطلاعات کے ساتھ ساتھ کانگریس کے اہم لیڈروںکی رائے سے بھی وزیراعظم واقف ہوسکیں۔ انہوںنے احمد پٹیل مرحوم سے کہا کہ اس وفد کی ملاقات وزیراعظم سے کرائیں۔ مسز سونیا گاندھی سے ملاقات کے آٹھ دس دن بعد ہی اس وفد کی ملاقات وزیراعظم منموہن سنگھ سے ہوئی۔ وزیراعظم ہم سب کو بخوبی جانتے پہچانتے تھے، اس لئے بہت کھلے انداز میں گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم سے جب کوئی وفد ملتا ہے توکسی نہ کسی مسئلہ کوہی لیکر آتا ہے۔وزیراعظم ہائوس کے کارپرداز اس مسئلہ کا مختصر بریف (نوٹس)بناکر وزیراعظم کو اس مسئلہ کے مختلف پہلوئوںسے آگاہ کرتے ہیں تاکہ جب وزیراعظم وفد سے ملیں تو اس مسئلہ کے مثبت اور منفی نکات ان کے سامنے ہوں اور اب تک کے سرکاری موقف سے بھی باخبر رہیں۔ چنانچہ جب ہمارے وفد کی ان سے ملاقات ہوئی تو وزیراعظم منموہن سنگھ مسئلہ کے مختلف پہلوئوںسے واقف تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی اس میٹنگ میں کیا کیا گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات بتانا مناسب نہیں ہوگا مگر انہوںنے آخر میں یہ ضرور کہا وہ اس معاملے کی عدالتی انکوائری کرانے پر غور کریںگے۔ لیکن دوران گفتگواندازہ ہوگیاتھاکہ وہ پولس کے موقف کوبھی خارج نہیں کررہے ہیں۔ چنانچہ یہی ہواکہ اس معاملہ کی عدالتی انکوائری نہیں ہوسکی اور پولس کے منوبل کو ٹوٹنے سے بچانے کی سرکاری کوششیں کامیاب رہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ مسلم قیادت کا ایسا وفد وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملا ہوگا۔ لیکن ایک بات کا مجھے یقین ہے کہ اگر آنجہانی مسز اندرا گاندھی سے ان کے دور حکومت میں کوئی ایسا وفد ملا ہوتا تو وہ یقینا عدالتی انکوائری کرانے کو ترجیح دیتیں؎
ہر طرف قینچیاں تیار ہیں پرکاٹنے کو
پھریہ اعلان کہ اڑنے کی اجازت ہے ہمیں
٭٭٭
9868206786
پھریہ اعلان کہ اڑنے کی اجازت ہے ہمیں- The announcement that we are allowed to fly
Also read