سہیل انجم
مشہور شاعر آنند نرائن ملا کا ایک شعر ہے:
رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں
اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے؟
لیکن دنیا کی آنکھوں نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں ایک منظر دیکھا کہ سربراہ حکومت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور اس انداز میں آئے کہ متعدد افراد جذباتی ہو گئے۔ معاملہ تھا راجیہ سبھا میں کسانوں کے احتجاج پر ہونے والی بحث کا۔ دو تین روز تک بحث کا دروازہ کھلا رہا اور معزز ارکان اپنی اپنی پارٹیوں کے حساب سے تقریر کر رہے تھے۔ اسی درمیان راجیہ سبھا سے چار ارکان کی مدت رکنیت ختم ہونے کو آئی۔ انھی میں ایک کانگریس کے سینئر رہنما اور قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد بھی تھے۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور ہر موقع پر کانگریس کی پالیسیوں کے مطابق اپنی بات رکھی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی تقریر کی اور ایسی کی کہ سب پر چھا گئے۔ بہت سے لوگ انھیں ایک منجھا ہوا مقرر کہتے ہیں۔ ایک ایسا مقرر جو یہ جانتا ہے کہ کس موقع پر کیسے اظہار خیال کیا جائے اور کیسے اپنے چہرے کے تاثرات کو بدلا جائے کہ اس کا اثر سامعین و حاضرین پر گہرے انداز میں پڑے۔ بارہا ایسے مواقع آئے ہیں جب انھوں نے اپنی اس فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب انھوں نے نوٹ بندی کی تھی اور اس پر چاروں جانب سے تنقید ہو رہی تھی۔ لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی جانیں گنوا رہے تھے اور تمام ماہرین معیشت ان کے اس قدم پر سخت نکتہ چینی کر رہے تھے تو انھوں نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ بھائیو اور بہنو! پچاس روز دے دیجیے، صرف پچاس روز۔ اس کے بعد اگر ان کی کوئی غلطی نکل آئے تو عوام جس چوراہے پر کھڑا کرکے ان کو جو سزا دیں گے وہ انھیں قبول ہوگی۔ عوام اس جذبات نگاری میں بہہ گئے اور انھوں نے پچاس روز کو کون کہے پچاس مہینے کا وقت دے دیا۔ لیکن پھر عوام نے بھی اس وعدے کو فراموش کر دیا اور خود مودی جی نے بھی۔
ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب انھوں نے اپنی آنکھیں نم کیں، اپنی آواز گلوگیر کی، بولتے بولتے تھوڑا رکے، گلا صاف کیا، ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر آواز میں لرزش پیدا کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھایا۔ اسی طرح جب انھوں نے پارلیمنٹ میں غلام نبی آزاد کو جذباتی انداز میں رخصت کرنے یا ان کی خدمات کو یاد کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر عوام نے ان کی اس فنکاری کا ایک بہترین نمونہ دیکھا۔ وزیر اعظم بولتے بولتے تھوڑا رکے۔ آواز بھاری ہوئی۔ گلا صاف کیا۔ گلاس سے پانی پیا۔ پھر بولنے کی کوشش کی مگر ایسا لگا کہ وہ جذبات سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بول نہیں پا رہے ہیں۔ دو ایک لمحے کو رکے، انگوٹھے سے آنسو خشک کیا اور اس کے بعد پھر انھوں نے اپنی بات آگے بڑھائی۔
انھوں نے غلام نبی آزاد کے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے وقت کشمیر میں گجرات کے سیاحوں کی ایک بس پر دہشت گردانہ حملے کا ذکر کیا اور اس موقع پر غلام نبی آزاد کی جانب سے ان کو کی جانے والی فون کالس کا حوالہ دیا اور بتایا کہ کس طرح آزاد صاحب نے اس واقعہ پر رو رو کر باتیں کی تھیں اور اپنے دکھ درد کا اظہار کیا تھا۔
جب غلام نبی آزاد کا بولنے کا نمبر آیا تو انھوں نے بھی اس واقعہ کی تفصیل پیش کی اور بتایا کہ کس طرح اس حادثے پر وہ چیخ چیخ کر روئے تھے۔ وہ بھی آبدیدہ ہو گئے۔ جس طرح نریندر مودی نے آزاد صاحب سے اپنے تعلقات کا ذکر کیا تھا آزاد صاحب نے بھی ان سے اپنے دیرینہ رشتوں کا ذکر کیا۔ اس طرح ملک کے دو اہم سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے تعلق سے جس جذباتی اندا زمیں اپنی باتیں رکھیں اس نے سب کو متاثر کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ اگر کسی کو وداع کیا جا رہا ہے تو اس کی اچھی باتیں یاد کی جائیں۔
سوشل میڈیا پر اس منظر پر خوب بحث ہوئی۔ لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اس پر تبصرہ کیا۔ متعدد افراد نے نریندر مودی کی چرب زبانی اور ان کی ادائے خطابت کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وہ ایک منجھے ہوئے مقرر اور سیاست داں ہیں۔ لیکن متعدد افراد نے ان کی اس ادا کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔ کچھ نے اسے اداکاری قرار دیا اور کچھ نے فنکاری۔ ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ ان کی اداکاری تھی یا حقیقت بیانی لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نریندر مودی کو حاضرین و سامعین کو باندھ لینے کا فن آتا ہے۔
معروف صحافی راج دیپ سردیسائی کی 2014 کے عام انتخابات کے بعد ایک کتاب آئی تھی جس میں انھوں نے ملک کی اور خاص طور پر گجرات کی سیاست پر خاصی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے نریندر مودی کی خوبیوں پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ذ ان کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سامعین کی نبض کو کیسے پکڑا جائے اور کیا بات کہی جائے جو ان کے دلوں کو چھو جائے۔ ان کے بقول وہ اس خوبی کا مظاہرہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ پہلے اہل گجرات نے ان کی اس خوبی کا مشاہدہ کیا تھا اور اب پورا ملک کر رہا ہے۔
لیکن یہاں بہت سے لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ مودی جی اکثر مواقع پر بولتے بولتے جذباتی ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں لیکن وہ ایک بار بھی گجرات کے 2002 کے فساد پر جذباتی نہیں ہوئے۔ جب بھی کسی صحافی نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے یہی کہا کہ وہ عدالت سے بری ہو چکے ہیں۔ ان کا کوئی جرم عدالت میں ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس سے زیادہ انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ وہ گجرات فساد پر گفتگو کرنے سے کتراتے ہیں لیکن ایسے خوبصورت انداز میں کتراتے ہیں کہ سامنے والا یہی سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔
سابق نائب صدر حامد انصاری کی خود نوشت سوانح حیات آجکل موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ لوگ الگ الگ انداز میں رائے زنی کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ نریندر مودی سے ان کے اس وقت سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی ایک بار ان سے اس سلسلے میں پوچھا تھا تو ان کو انھوں نے کچھ اسی قسم کا جواب دیا تھا۔ لیکن یہ بھی کہا تھا کہ وہ غریب مسلمانوں کے لیے بہت سی اسکیمیں بھی چلاتے ہیں۔ جب حامد انصاری نے ان سے کہا کہ وہ اس بارے میں لوگوں کو بتاتے کیوں نہیں تو انھوں نے کہا تھا کہ یہ بات ان کی سیاست کو سوٹ نہیں کرتی۔
تو نریندر مودی ایک ایسے سیاست داں ہیں جو یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سی بات ان کی سیاست کو سوٹ کرتی ہے اور کون سی نہیں۔ اسی کے پیش نظر وہ تقاریر بھی کرتے ہیں اور اسی کے پیش نظر اپنے ہاؤ بھاؤ میں تبدیلی یا اپنی آواز میں زیر و بم پیدا کرتے ہیں۔ اپنی آنکھیں نم کرتے ہیں اور اپنی آواز میں درد اور کسک پیدا کرتے ہیں۔ کیا غلام نبی آزاد کے تعلق سے کی گئی ان کی تقریر کو بھی اسی پیمانے پر جانچا پرکھا جانا چاہیے؟ قارئین اس کا جواب خود تلاش کریں۔
ضضض
Also read