آنسو- Tear

0
329

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

Tear
حُسین قریشی

آج راشد بھائی انکی اہلیہ کے ساتھ اپنے صاحبزادے حمید کے لئے دلہن دیکھنے رسولپور آئے ہوئے تھے۔ پچھلے کئی دنوں سے وہ مختلف شہری مقامات پر کئی لڑکیاں دیکھ چکے تھے۔ لیکن اب تک انھیں کوئی بھی لڑکی پسند نہیں آئی تھی۔ راشد ان کے عزیز دوست کے بیٹے کی شادی میں پہنچے۔ وہاں انھیں معلوم ہوا کہ چھوٹے گاؤں میں خوبصورت اچھی لڑکیاں مل جائیگی۔ آپ گاؤں، قصبے میں بھی جا کر دیکھے۔ وہی پر انہیں رسولپور کی ذاہدہ باجی کا پتہ ملا تھا۔ جو لڑکے لڑکیوں کے رشتے جوڑنے میں مدد کرتی ہے۔ وہ رسولپورذاہدہ باجی کے گھر پہنچے۔ باجی نے انکا خیرمقدم کیا۔
گاؤں میں باجی کا مکان کافی بڑا اور دلکش تھا۔ بڑا سا گیٹ، وسیع صحن اور پانچ بڑے کمرے تھے۔ چھوٹا سا گارڈن بھی بنا ہوا تھا۔ ایک تختی پر” سمعیہ گارڈن” لکھا ہوا تھا۔ وہ قدرتی رنگ برنگی پھولوں کے پودوں سے جگمگا رہا تھا۔ ذاہد باجی نے بہترین آؤ بھگت کرنے کے بعد انھیں ایک چھوٹے سے مکان میں لے گئی۔ جو انکے گھر سے تھوڑی ہی دوری پر تھا۔۔۔۔۔۔۔ ذاہدہ باجی نے کہا۔۔۔۔
یہ شمیم ہے۔ اس لڑکی کے والدین غریب ضرور ہیں۔ مگر غیور ہیں۔ دیندار ہیں۔ یہ لڑکی صلوات وصوم کی پابند ہے۔ شمیم شرم و حیا کی پیکر ہے۔ اسکا کئی باہر گھومنا پھرنا نہیں ہے۔ یہ گھر کے تمام امور کو بحسن و خوبی انجام دیتی ہیں۔ اسکے دو بھائی ہیں۔ جو زیرِ تعلیم ہیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد اسی نے انکی پرورش نہایت سلیقے سے کی ہے۔ شمیم کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔ ناک نقشہ، رنگ و روپ اور خوبصورتی آپ کے سامنے ہے۔ آپ مجھ پر یقین رکھے۔ جیسی اسکی صورت بھولی ہے ویسی ہی عمدہ سیرت ہے۔ اچھے اخلاق والی بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔ شمیم ۔۔۔۔۔۔
بس آپ اسکی مفلسی و غربت کی خاطر اسے ‘نا پسند’ نہ کریں۔ جہیز جتنا ذیادہ ہو سکے گا میں خود اسکا انتظام کردونگی ۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو صاحبِ استطاعت بنایا ہے۔ آپ کافی سمجھدار ہے۔ مکان میں خوشیاں جہیز سے نہیں آتی ہے۔۔۔۔۔ گھر تو بااخلاق ، خوب سیرت اور اچھی بہو، بیٹیوں سے خوشیوں کا گہوارہ بنتا ہے۔ دیکھنا یہ لڑکی آپ کے گھر کو خوشیوں سے بھر دے گی۔ آپ کواسکا دوہرا اجر ملے گا۔ بڑے ہی پیار و خلوص سے زاہدہ باجی ، راشد بھائی کو اپنے فرزند حمید کے لئے شمیم کا رشتہ پکا کرنے کے لئے منانے کی کوشش کررہی تھی۔ اسکی آواز و لہجے میں تڑپ تھی۔ ذاہدہ باجی کی آواز دل سے نکل رہی تھی۔ اس لئے مؤثر تھی۔ راشد بھائی نے کہا ” ذاہدہ باجی، شمیم سے آپ کا رشتہ کیا ہے؟” ذاہدہ باجی نے کہا “دور کا رشتہ ہے میری نند کی بیٹی ہے۔ مگرمیری بیٹی جیسی ہے۔” یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھیں نم ہوگئیں۔ راشد بھائی شمیم خاندانی لڑکی ہے۔ آپ کے تعلقات بیشتر لوگوں سے ہیں۔ آپ تصدیق کر لیجئے۔”
ذاہدہ باجی گاؤں کی غزت دار، شریف اور عمدہ اخلاق کی پیکر خاتون تھی۔ جو گاؤں کی لڑکیوں اور خواتین کو دینی تعلیم دیا کرتی تھی۔ دینی اجلاس کا انعقاد کیا کرتی تھی۔ وہ گاؤں و مُحلے کی سب ہی برادری کی بیٹوں اور بیٹیوں کے رشتے جوڑنے میں دل سے بھرپور مدد فی سبیل اللہ کرتی تھیں۔ اس کام کے لئے باجی نے کبھی کسی سے کوئی رقم کی یا کسی اور چیز طلب نہیں کی تھی۔ ذاہدہ باجی کی شرافت و اخلاق اور انکے کام کی خبر گاؤں گاؤں میں دور دور تک پہنچی تھی۔ اس لئے لوگ انکے پاس خاص طور پر اپنے بیٹوں و بیٹیوں کے رشتے جوڑنے کی غرض سے تشریف لاتے تھے۔ اللہ نے ان کے ذریعے سے بہت سی لڑکیوں کے کامیاب رشتے پائے تکمیل پہنچائے تھے۔ گاؤں میں لوگ انکے مشورے کو دل سے قبول کرتے تھے۔
راشد بھائی نے کہا “ذاہدہ باجی ہم دونوں کو شمیم پسند ہے۔ جہیز کی آپ فکر نہ کریں۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔ بس بہو چاہئے ۔ حمید کی والدہ نے کہا “باجی آپ نے میری سوچ ہی بدل دی۔ میں نے تو بڑے خواب دیکھے تھے۔۔۔۔۔ میرے بیٹے کے لئے ۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ کی باتوں نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدار کردیا ہے۔ ہم آپ کو گھر جا کر مشورہ کرنے کے بعد اطلاع دیتے ہیں ۔ آخر حمید ۔۔۔۔۔ کی رضامندی بھی تو ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ہمارا بیٹا ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔۔۔۔ پھر بھی پوچھنا بہتر ہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ قوم وملت کی بیٹیوں کے لئے مسیحا ہے۔ ” ذاہدہ باجی نے کہا جی بالکل درست کہا۔۔۔۔۔ آپ نے ۔۔۔۔۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کی رضامندی ضروری ہیں۔۔”
راشد بھائی نے اپنے گھر پر سب سے مشورہ کیا۔ تمام حالات سے واقف کرایا۔ اپنے فرزند حمید سے گفتگو کی اور دو دنوں کے بعد ذاہدہ باجی کو شمیم کے رشتے کے لئے’ ہاں’ کہا۔ جس سے انھیں بہت خوشی ہوئی۔ یہ خوشخبری انھوں نے شمیم کے والد کو سنائی۔۔۔ جسے سن کر انکی آنکھیں آنسوؤں سے جھلک پڑی۔۔۔۔۔۔ انھوں نے ہاتھ جوڑکر بے اختیار کہا۔۔۔۔ باجی آپ نے مجھ غریب کو خرید لیا۔۔۔۔۔۔۔ باجی نے کہا ایسا نہیں ہے…. بھائی”۔ مجھے رشتے جوڑکر خوشی ملتی ہیں۔ ‘سمعیہ’ میری بیٹی جس کی شادی نہیں ہوپائی تھی اور علاج کے دوران اسکی موت ہوگئی تھی۔ اسکی روح کو خوشی ملتی ہے۔ بس اور کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ ذاہدہ باجی نے آنسو پوچھتے ہوتا کہا۔۔۔۔
بلڈانہ (مہاراشٹر)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here