تارا اقبال آپ بیتی کے پس پردہ جگ بیتی کی ترجمان

0
78

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


از قلم:عبدالسمیع
ملکزادہ جاوید کے لائیو شو میں محترمہ تارا اقبال کا انتخاب یقینا لائق تحسین اور لائق رشک بھی تھا. کیونکہ عہد حاضر میں بر صغیر کی چند ممتاز شاعرات میں عالمی سطح پر شہرت حاصل کرنے والی جو شاعرات ہیں ان میں تارا اقبال کا نام بھی بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا ہے
تارا اقبال جس تیزی سے اردو دنیا میں مقبول ہو رہی ہیں اور آج انکے مداح دنیا بھر میں ہیں انکی تخلیقات ان کے فن وکمال کو سراہتے ہوے نظر آتے ہیں. بہت کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ کوئ شاعرہ اتنے کم وقت میں دنیا بھر میں اتنی جلدی مقبول و معروف ہوگئ ہو. یہ تارا اقبال کی قسمت کے ساتھ ان کے فن وکمال انکے اخلاق و عادات کے ہی جو ہر ہیں جسکی وجہ سے وہ اردو دنیا میں مشہور ومعروف ہیں
تارا اقبال کا تعلق ایک متوسط اور تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے انکے خاندانی وصف نے انکے اخلاق وکردار کو آئینہ بنادیا ہے.
تارا اقبال کو میں اکثر. سوشل میڈیا پر دیکھتا انکی تخلیقات مجھے پسند بھی آتی تھیں. لیکن ایک دن جب یہ معلوم ہوا کہ وہ میرے عزیز دوست کلیم الدین عثمانی کی بہت خاص عزیز ہیں. تو میرا بھی اشتیاق بڑھا کہ اس شاعرہ سے نصف ملاقات ہو جائے. اسطرح فون پر گفتگو ہوئ اور یہ معلوم ہوکر حیرت بھی ہوئ اور افسوس بھی کہ یہ ممتاز شاعرہ ایک مدت تک میرے شہر بنارس میں رہیں اور بالکل میرے گھر سے دو سو گز دوری پر تھیں. مگر اس کا علم مجھے ان کے فون پر گفتگو کے دوران ہوا. تارا اقبال سے پہلی ہی گفتگو میں میں انکے اخلاق اور انکی علمی بصیرت سے بہت متاثر ہوا اور یہ سوچ لیا کہ اگر موقع کہیں ملا تو اس شاعرہ پر چند سطریں ضرور لکھونگا. اور وہ موقع ملکزادہ کے لاییو شو کو دیکھنے کے بعد مل ہی گیا. اور انکی شاعری کو سن کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ انکی قوت پرواز کا اعتراف اسطرح کیا جائے
اگرچہ انکی شاعری بام عروج پر ہے تو اسکا سبب کیا ہے. وہ یہ ہے کہ انکی شاعری کا کمال تو ہے لیکن لوگوں کے دلوں پر انکی نیک طبیعت داری کا بھی بہت اثر ہے وہ عام خواتین کی طرح نہیں. بلکہ ایک عورت کا لباس حیا کیا ہے یہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں. وہ اس زیور سے آراستہ تھیں. جس کی وجہ سے وہ آج اس مقام کو پہنچیں کہ ہر شخص انکی تعریف وتوصیف کرتا ہے
انکی شاعری کا میعار کوہ مشق استاد شعراء سے کہیں کم نظر نہیں آتا. انکا مطالعہ بہت وسیع ہے. وہ جس موضوع پر بھی شعر کہتی ہیں حق و صداقت سے کہتی ہیں بے جھجھک اور بے لاگ کہتی ہیں انکے مشاہدات بڑی اہمت رکھتے ہیں. انکی غزلیں ہوں یا نظمیں بڑی میعاری ہوتی ہیں انکی قوت پرواز اتنتی بلند ہے اکثر اسکا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ تارا اقبال اپنے
تجربات و مشاہدات کو بہت سادہ اور سہل انداز میں پیش کرتی ہیں اور عورت کے نازک احساسات کو پیش کرنے میں کامیاب نظر آتی ہیں ۔ یہ ان کے نسائی آواز کی کار فرمائی ہے جوبلا کسی رکاوٹ اور بندش کے دکھائی دیتی ہے وہ مردوں کی زبان میں اپنے احساس وفکر کی ترجمانی نہیں کرتیں بلکہ خود اپنی آواز کی انھوں نے اچھی شناخت بنا رکھی ان کی شاعری کو نسائی حسیت کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔مرد اساس معاشرے نے جو غیر مساوی اور غیر انسانی رویہ عورت کے لئے روا رکھا تھا انھوں نے اس کے خلاف بھی احتجاج اور مزاحمت کا انداز اختیار کیا ہے۔
’۔ اُن کی شاعری پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ محبتوں کی شاعرہ ہے جن کی نگاہ میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے۔انھوں نے جذباتی رشتوں پر بڑی فنکاری سے قلم اٹھایا اور ان کے دکھ درد کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں خود اعتمادی اور خود شناسی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظم نگاری میں بھی اپنے جذبات و احساسات اور تجربات کو الفاظ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
تارا اقبال نے نظم کے علاوہ غزل میں بھی اپنے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ غزل میں بھی وہ منفرد لب ولہجہ، آہنگ کے لئے پہچانی جاتی ہے۔ انھوں نے غزل میں بھی اپنے معمولی خیالات اور تجربات کو بڑی خوبصورتی سے بیاں کیا ہے جس سے شاعری کا حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ انھوں نے زندگی کی حقیقتوں کو اپنے غزلوں میں برتنے کی کوشش کی ہے
میں یہ جانتا ہوں کہ ہر اچھی شاعرہ اپنے تجربات اپنے جزبات و احساسات اور مشاہدات کو جب فکر میں لاتی ہے اور اسکو الفاظ کا پیرہن دیتی ہے تو وہ شاعری کتاب حیات بن جاتی ہے جس کا ہر مصرع ہر شعر آئنہ کی طرح شفاف ہوتا ہے اور رہنمائ کرتا ہے. اور یہ صلاحیت خدا داد ہوتی ہے. لیکن وہی شاعرہ اگر ایک ادب کی ڈاکٹر ہو تو اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی کہ اللہ کا یہ عطیہ اس کو میسر ہے .
جب کوئ شاعر یا شاعرہ اپنی وسعت پرواز کو پہنچے تو اسکے سامنے کا ئینات کی ہر شے جس پر اسکی نظر جاتی ہے اسکو صداقت سے بیان کر نے میں کوئ جھجھک نہیں ہوتی . جب کوئ شاعرہ
بہار وخزاں کی بات کرتی ہے تو چمن کی زندگی کی داستان بیان کردیتی ہے جہاں بلبلوں کی صد ائیں گونجتی ہیں تو گلوں کے رنگ ونکہت اور باد نسیم اور باد صبا کا بھی ذکر چھوٹتا نہیں ہے جب آب وہوا کا ذکر کرتی ہے تو اسکے موسم و فضا کی حیثیت وپیمانہ بھی بیان کردیتی ہے جب سماج و معاشرے کا خیال کرتی ہے تو اصلاح معاشرے کیلئے اپنے دل کی تڑپ بھی بیان کردیتی ہے ہر نظارے کو منظر بنادکر پیش کردیتی ہے اور یہ تمام خصوصیات و خوبی تارا اقبال میں ہے . تارا اقبال کی شاعری ریاکاری اور تصنع سے پاک ہے ۔ نہایت شریف النفس ، مخلص ، خوددار اور وضعدار وہ خاتون ہیں :
ان کا سب سے بڑا کمال یہی شاعری ہے ، جس کے لئے انھوں نے اپنی زندگی اور دماغی صلاحیت وقف کررکھی ہے ۔ ان کی صلاحیت شعری میں ایسی پختگی اور موزونیت پیدا کردی ہے ، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوا کرتی ہے ۔ موزوں طبیعت ، تخلیقی دماغ اور زندہ دلی نے ان کی شاعری کو زندہ شاعری بنا رکھاہے ۔ یہ کوئ نہ مبالغہ ہے نہ رنگ آمیزی ۔ ایک حقیقت ہے جس کے گواہ قارئیں اور سامعین ہیں
ان کی شاعری میں یوں تو زندگی کے بہت سے مسائل اور موضوعات جگہ پاتے ہیں ۔ ان کی ہر غزلوں میں کسک غم رنج والم کے موضوعات بہت ملتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی زندگی ، آزمائش ، مشکلات اور غم و الم سے نبرد آزمارہی ۔ غم وہ کیفیت ہے جو ہر شخص اپنی زندگی میں کم و بیش ضرور محسوس کرتا ہے ، لیکن غم کی جہتیں الگ الگ ہوتی ہیں ۔ کسی کو غم خوشی دے جاتا ہے جیسے محبوب کی جدائی کا غم یا کسی کو غم ہلاکر رکھ دیتا ہے جیسے کسی اپنے کے بچھڑنے کا غم ، تاہم غم کی کیفیت کا اظہار انسان کے چہرے سے ہو ہی جاتا ہے یہ سب انکے تجربات اور مشاہدات پر منحصر ہے ۔
روایت کی پاسداری اور اخلاقی اقدار کی پاکیزگی کے عناصر بھی ان کی شاعری میں اکثر مقامات پر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہ بات بھی درست ہے کہ ان کی شاعری خالص روایتی شاعری کی خصوصیات سے مزین ہے ، تاہم کچھ ایسے موضوعات بھی ان کی شاعری میں جگہ پاتے ہیں ، جو روایتی شاعری سے بالکل الگ ہیں ۔
تارا اقبال کے اشعار پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اس شاعرہ نے آپ بیتی کے پس پردہ جگ بیتی کے جذبات و احساسات کی بہترین ترجمانی کی ہے. کہیں کہیں لگتا ہے جیسے انہوں نے آنسوؤں کو بھی زبان دے دی ہے وہ ان سے ہم کلام نظر آتی ہیں اور انکی خود داری بھی ان کے اشعار میں صاف نظر آتی وہ لڑکھڑانا مجبور ہونا. لا چار ہونا پسند نہیں کرتیں بلکہ ہمت وحوصلہ سے کام لیتی ہیں یہی شعر دیکھیں
ہم نے زمیں پہ خود ہی اتاری ہے کہکشاں
اےُ چاند آ ج تیری ضرورت نہیں ہمیں..
ایک شعر میں اپنے وجود کی حقیقت اسطرح بیان کرتی ہیں. شعر ملاحظہ ہو
شاید کہ ہم بھی ریت پہ لکھے حروف تھے
ہلکی ہوا کے ایک ہی جھونکے سے مٹ گیے۔۔۔۔
تارا اقبال چھوٹی بحر میں بھی بہت خوبصورت شعر کہتی ہیں اور اس میں بڑی معنویت اور وسعت ہوتی ہے. زیر نظر یہ شعر
نام لکھا , تھا تیرا کاغذ پر
سر جھکائے غزل چلی آی۔۔
اور یادوں کے سلسلے سے ایک بہترین مضمون جس میں جذبات کا طوفان اور احساسات کی آندھی بل کھاتی نظر آتی ہے اور وہ شعر اسطرح کہتی ہیں
جس سمت وہ گیا ہے بہت سخت دھوپ ہے
اے اشک بے بہا مرے اس سمت جا برس۔۔۔
اور اسی انداز میں ایک شعر یہ بھی ہے. ملاحظہ کرلیں
بنا جواز بھی اسکو سلام لکھتے ہیں
کوئی تو ربط رہے اس سے ہمنوائی کا۔۔
ایک شعر انہوں نے اسطرح بھی کہا ہے جس میں نقش قدم کو اپنی زندگی کا حاصل مقصد بنالیا وہ شعر یہ ہے
چل تو سکتی تھی ترے شانہ بشانہ لیکن۔
کیا کروں دل کو ترا نقش قدم راس آیا۔‌
تارا اقبال کے کچھ اور متفرق اشعار ملاحظہ کرلیں. اور فیصلہ کریں کہ اس شاعرہ پر جو خاکسار نے خامہ فرسائ کی ہے وہ کس حد تک درست اور صحیح ہے یا کہیں مبالغہ آرائ کی گنجائش چھوڑی ہے اور وہ اشعار حسب ذیل ہیں..
کچھ دور تلک تو مرے ہمراہ چلو تم
کچھ دیر تلک تو مجھے ہونے کا گماں ہو
باقی ہر شیے تو آنی جانی ہے
بس ترا ہجر جاویدانی ہے
تری تصویر کی نہیں حاجت
تو مجھے یاد منھ زبانی ہے
کچھ اس لیے بھی مجھے آنسوؤں سے رغبت ہے،
گراں دنوں میں مسلسل یہ میرے ساتھ رہے
میری آنکھوں کی نمی کا ہے تعلق تجھ سے
ہو کہیں ذکر ترا آنکھ میں پانی آے۔
سمجھنا اشک ہیں بکھرے یہ جا بجا میرے
نظر جو بوند تمہیں کوئ شبنمی آ ۓ
ہمارے درد کی شدت کو تم سمجھ لینا
سسکتی سرد ہواوں میں جب نمی آ ۓ
تارا ربط دیرینہ کی پھر سے ذرا تفہیم توکر
چاہے اپنا نہ سمجھ تو مجھے تسلیم تو کر
میں نے سیکھا ہے بہت اشکوں کو گوہر کرنا
اپنی آنکھوں کے یہ آنسو مجھے تقسیم تو کر
کبھی دریا کبھی صحرا رہی ہوں
تمہاری ذات کا حصہ رہی ہوں
اکیلے ہوں تو ہیں یادیں تمہاری
تمہارے ساتھ تو تنہا رہی ہوں
نہ سہل جان وہی صبر آزما ہے مرا
براہ راست خدا سے مکالمہ ہے مرا
زمانے بعد کھلے مجھ پہ در سماعت کے
زمانے بعد کہیں خود سے رابطہ ہے مرا۔۔
میں سمجھتا ہوں ان اشعار کو دیکھنے کے بعد قارئین کی نظر میں تارا اقبال کا مقام ممتاز شاعرہ ہونے کے منافی نہیں ہوگا. اور وہ جس شہرت کو پہنچی ہیں حقیقتاً وہ اسکی حقدار ہیں. انکے تعارف کے سلسلے سے جو معلوم ملکزادہ جاوید کے ذریعہ قارئین تک اور اردو دنیا تک پہنچی ہیں اس میں پوری صداقت ہے. میں تارا اقبال کو ان کے فن وکمال اور شاہکار تخلیقات کیلئے تہے دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں.
ضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here