زمینی حقائق پر تانڈو،توپھر ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

0
102

غلام علی اخضر
ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کی جبلت میں یہ شامل ہے کہ وہ روز و شب نئی تحقیق سے آشنا ہونا اور پوشیدہ راز کی تہہ تک پہنچ کر اس کی حقیقت کو طشت از بام کرنااپنی زندگی کا عین حصہ سمجھتا ہے۔ نقدو تحقیق سے ہی انسان معظم ومکرم ہوتا ہے اور کوئی حیوان ضاحک اس فن اور خاصہ سے معرا نہیں، لیکن اگر اسے کسی سازش کے حصے یا کسی کی حقارت کے طور پربروئے کار لایاجائے تو پھر اس کی اہمیت و وقعت فرسودہ ہوکررہ جاتی ہے۔ انسان اپنی خامیوں پر تاک جھانک کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے، مگر دوسرے کے عیب کی گٹھڑی کو کھولنا باکمال کام تصور کرتا ہے۔ ایک چور کو اگر چور کہہ دیا جائے تو وہ آپے سے باہر آجاتا ہے۔یہ انسان اپنی بری خصلتوں سے سماج کو ہر آن پراگندہ کرتا رہتا ہے لیکن اگر اسے آئینہ دکھایا جائے تو پھر وہ آسمان سرپر اُٹھالیتا ہے۔طوائف معاشرے میں سب سے بدنام سمجھی جاتی ہیںجب کہ اسی معاشرے کا مہلک سسٹم اسے طائفہ بناتا ہے اور پھر اسی معاشرے کا فرد اس کے کوٹھے کا نہ جانے کتنی بار اپنے جسم کی گرمی کو ٹھنڈک پہنچانے اوراس کے تن کی لذت سے اپنی ہوس کے ناگ کو مست اور مدہوش کرنے کے لیے پھیرالگاتا ہے۔ نہ جانے کتنے شرفائے زمانہ جو اپنی پاک دامنی کی تشہیر میں لگے رہتے ہیں مگر ایک نفس ہے کہ فاحشہ کی داغ دار کُٹی کے گلی کوچوں کا چکرلگواکر ان کی اوقات اور منافقت کا چٹھاکھودیتا ہے۔
اردو ادب میں سچے قلم کار اور بے باک ادیبوں کی فہرست تیار کی جائے تو اس میں منٹو سرفہرست نظر آئے گا۔منٹو ہمارے ادب میں اس وجہ سے قدر نہیں رکھتے ہیں کہ وہ ترجمان نفسیات ہیں یا ان کی تحریریں انسان کی فطرت سے بہت قریب ہیں۔ منٹونے جب خون دل کی سیاہی میں انگشت بے ریا کوڈوبوکر لکھنا اور سماج کے دوغلے رویے کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو پھر نام نہادادبا اور زہدوورع کے ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے واویلامچانا شروع کردیا، مگرمنٹوکیوں کہ سچائی کا کڑوا تلچھٹ پینا تو سیکھا تھا مگر منافقت کا قند حلق سے نیچے اتارنا اپنے لیے زہر ہلاہل جانتا تھا۔ آخر اس نے ایک فحش، غیر اخلاقی،منافرت، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اورپردے کے پیچھے کی شطرنج کو ’ٹھنڈاگوشت‘بلاوز،کھول دو،بو،کالی شلوار،وغیرہ جیسی معرکہ آرا تحریر وں سے اس معاشرہ کی دوروخی پن کو اجاگر کردیا اور جب عصمت چغتائی نے بے باکی سے قلم اٹھایا تو لیڈی چنگیز خان کہلائی۔ یہ تو تحریر اً تصویر کشی کی بات تھی لیکن جب انسان نے ترقی کرکے فلمی دنیا کی تخلیق کی تو پھرترجمانی کا ایک نیا طریقۂ کار اسے ہاتھ لگا۔ بہتر ہوگا کہ یہاںاس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظرڈال لی جائے:
۲۸؍دسمبر ۱۸۸۵ء کو لومیئربرادرس نے اپنے سینی میٹو گراف سے فلم دکھانے کی شروعات کی۔ اس کی نقاب کشائی انھوں نے ایک تہہ خانے میں کیا ۔ تہہ خانے میں نقاب کشائی سے متعلق مورخین لکھتے ہیں کہ اصل وجہ یہ تھی کہ لومیئر برادرس کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں یہ فارمولہ فاش ہوا تو ہماری ایجاد سے پہلے دوسری اور بھی جو کمپنیاں ایجاد میں کوشاں ہیں بازی نہ مار لے جائیں۔ نقاب کشائی پرواگرام کے بعد ہی اس نے اپنی ٹیم کو مختلف ممالک اور جگہوں پر بھیجنے کا فیصلہ کیاتاکہ وہ اس کی ترویج کرے۔ اسی منشا کے تحت لومیئر برادرس کے ایجنٹوں کی ٹیم انڈیا آئی اور ۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو ممبئی کے واٹسن ہوٹل کے ہال روم میں اپنے ایجاد کردہ آلے کے ذریعے فلم دکھائی۔ ۱۹۰۷ء کے دور سے فلم نے مزید اپنے وجودکو مضبوط کرنا شروع کردیا ۔جگہ جگہ سنیما ہال کھلے۔ ۱۹۱۳ء میں دادا صاحب پھالکے نے اپنی پہلی فلم مکمل کی۔یہ اس وقت کی سب سے لمبی فلم تھی جس کی لمبائی ۳۷۰؍فٹ کی تھی۔سب سے پہلی فلم جو تکلم آرا دکھائی گئی تھی وہ ۱۹۳۱ء میںفلم’’عالم آرا ‘‘ہے،پھراس کے بعد تو فلم کی دنیا میں ترقی کی باڑھ آگئی اور آج یہ بڑے پیمانے پر تجارت کا ذریعہ ہے۔
فلموں کے اچھے بُرے دونوں اثرات سماج پر مرتب ہوے ہیں۔ خاص کر عورتوں کے تئیں مضراور سموم فضا بنی کہ لڑکیاں انٹرٹینمنٹ کے سامان ہیں۔لڑکیوں کوشرارتی فنڈے سے اپنی طرف اِ مپریس (Impress)کرنا ایک بہتر ین نسخہ کی ذہنیت کو پھلنے پھولنے کا پلیٹ فارم مل گیا،مگر سوال ہے کہ فلم میں کام کرنے والے انسان کسی تیسری دنیا کے نہیں؟ بلکہ اسی دنیا کے ہیں جو اسی دنیا سے کہانی اور حالات کو یکجا کرکے اسے فلمی روپ دیتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے عورتوں کو عیش و عشرت کا سامان سمجھاجاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ فاتح قوم مفتوح قوم کی عورتوں اور لڑکیوں کو اپناحصہ سمجھ کراس کے ساتھ بُری طرح سے ریپ کرتی،بعدہ قتل اور اس علاقے کوتباہ و بربادکردیتی؛جس پر قابض ہوتی۔لیکن اسلام نے جنگ کے لیے سخت قوانین بنائے۔ شام کی طرف حضرت ابوبکر صدیق نے فوج روانہ کیاتوسخت ہدایتیں مرتب کیں جیسے کہ عورت ،بچے،بوڑھے کو قتل نہ کرنا-پھل دار درخت کو نہ کاٹنااور آبادی کو ویران نہ کرنا۔ اسلام نے ہر مذہب کی عورتوں کی عصمت کی حفاظت کے لیے ضابطہ بنایا۔
فلمیں ،سریلز،اور ویب سیزز کئی بار غلطیوںاور کئی بار کچھ زیادہ حقیقت کی عکاسی کی وجہ سے متنازع بن کررہ جاتی ہیں۔ ان دنوںایسا ہی معاملہ ویب سیز تانڈو کے ساتھ درپیش ہے۔ اترپردیش سرکار اورپولیس سخت رخ اپنا لی ہے، یہاں تک کہ معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکاہے۔ ویب سریز کو لے کر جہاں ایک جماعت اس کی مخالفت میں ہے انھیں وکلا کی ایک بڑی جماعت ویب سیریز کے حق میں کھڑی ہے،وکلا عدالت کو کئی گزرے گیسز کی بھی یاددہانی کرائی۔
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ سیاست میں ذاتی رشتے اور دوستی اپنے مقصد حاصل کرنے کے لیے بالائے طاق رکھ کر کسی بھی حد تک جایا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی کاقتل کرنا یاقتل کروانا اس بھول بھلیاں میںایک معمولی بات ہے۔ جس کی وجہ سے چلنا سیکھا اسی کو سائڈ لگاکر اس کے مقام کو حاصل کرلینا کو ئی تعجب کی بات نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے سایے میں ہی ملک کی حفاظت کے لیے ایک ٹیم کام کرتی ہے جو پولیس کہلاتی ہے۔ پولیس بھی کیوں کہ انسان ہے جس میں اچھے بُرے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، کچھ تو اس عہدے کا برابر ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں اور کچھ اچھی ہوتی ہوئی بھی حکومت وقت کے دبائوں میں آکر بُرے قدم اٹھانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ستم یہ ہے کہ موجودہ وقت میں ایسی مذہبی نفرت کی سیاسی فضاتیاری کی گئی ہے کہ جس کے ہاتھ میں ملک میں امن بحال رکھنے کی طاقت ہے وہی رات دن امن میں زہر کھول رہا ہے۔ فرضی انکائونٹر عام طور سے سیاسی گرم بازاری کے لیے ہوتا ہے جس کی ایک تاریخ ہے۔ ۱۹۹۲ء میں پنجاب پولیس نے ایک۱۵؍سالہ لڑکے کاانکاؤنٹرکردیا اور کہانی یہ بنائی کہ بچوں نے پولیس پر ۲۰؍منٹ تک فائرنگ کی؛۲۰۱۸میں سی بی آئی کی عدالت نے اسے فرضی انکاؤنٹر قراردیاجس پر دوسپاہی کوعمرقید کی سزا سنائی گئی-نومبر۱۹۹۶ء میں یوپی پولیس نے جلال الدین، جسبیر، آشوک،پرویش کاانکائونٹر کردیا؛۲۰۱۷؍تک ان کے گھروالوں نے ان کا کیس لڑا جو کہ بہت غریب تھے۔ آخرسی بی آئی کورٹ نے ۴؍پولیس کوقصوروارپایا-۲۰۰۹؍میں غازی آباد کے ایم بی اے کے اسٹوڈینڈ رڑنویرسنگھ کو دہرادون کے جنگلوں میں لے جاکراتراکھنڈ کی پولیس نے ۲۹گولیاں ماری، شک تھاکہ فیروتی کا دھندا کرتا ہے۔۹؍سال بعد دہلی ہائی کوٹ نے۲۰۱۸میں۷؍پولیس کو عمرقیدکی سزا سنائی-چھتیس گڑھ ریٹائر جسٹس اگروال کی رپورٹ کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ۲۰۱۲؍میں بَسْتَر میں پولیس اور سی آر ایف نے۱۷؍لوگوں کو فرضی طریقے سے نکسل کہہ انکائونٹر کردیا جس میں ۶؍بچے بھی تھے-قومی حقوق انسانی کمیشن کے مطابق اترپردیش میںفرضی انکاؤ نٹر کے معاملے سب سے زیادہ ۲۰۱۵سے ۲۰۱۸ کے درمیان ہوے۔ اتر پردیش پولیس کی شبیہ داغ دارحالیہ دنوں میںکچھ زیادہ ہوئی ہے۔ ملک میں جب این آر سی اور سی اے اے پر احتجاج چل رہا تھا اس وقت یوپی یولیس حکومت کے اشارے پر کس طرح مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ، مارپیٹ ، لوٹ مچائی، سخت سخت دفعے اور جرمانے لگائے، وہ اظہر من الشمس ہیں۔ اسی طرح دہلی پولیس جامعہ میں گھس کر اسٹوڈینس پرایک سوچی سمجھی سازش اور اشارے پر خون خوار درندوں کی طرح ٹوٹ پڑی اور یہی دہلی پولیس جے این یو میں کھڑی دیکھتی رہی اور غنڈے ان کے سامنے سے شان وشوکت سے اسٹوڈینس کو مارپیٹ اورتوڑ پھوڑ کر نکل گئے۔ دہلی میں تین دن تک فساد ہونے دیا گیا۔ایسا کیوں کر ہوا ؟تو صاف جواب ہے کہ حاکم وقت کی نااہلی کی وجہ سے۔ پھر حکومت پر کیسے لوگ قابض ہیں؟ کوئی گجرات فسادا ت کراکر ملک کا باگ ڈور تھاما ہوا ہے تو کوئی تڑی پار ہوکر پولیس کا سرداربنابیٹھاہے۔ایسے لوگوں کی سرپرستی میں ہم ملک میں امن کی امید کرتے ہیں؟ ملک کی آزادی سے لے کرآج تک نہ جانے کتنے بے قصور مسلمانوں کو آتنک کا لیبل لگا کر جیل کی سلاخوں میں ٹھونس دیا گیاجس میں بہت سے لوگ ۳۰/۴۰ سال میں بے قصور ثابت ہو کرباہر نکلے۔ حکومت جن کمپنیوں کے چندے کے دم پر بنتی ہے حکومت اس کے در کا غلام ہوتی ہے۔ جن کی ہر مانگ کو پوری کرنا سرکاراپنے لیے باعث نعمت سمجھتی ہے۔ غریبوں کی زمینوں کو مافیائوں کے ذریعے کمپنیوں کے ہاتھ میں فروخت کروانا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ آج وہی کام بی جے پی کررہی ہے کہ اڈانی امبانی اوران جیسی کمپنیوں کے مالکان کے خزانے کو بھرنے کے لیے ہر چیز ان کے ہاتھوں فروخت کررہی ہے۔
کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ہے کہ لڑکیوں کو کسی بڑے عہدے تک پہنچنے کے لیے مردوں کے اکثر بستر گرم کرنے ہوتے ہیں؟ تعلیم گاہوں سے لے کر ایوان بالا اور حکومت کے گلیاروں تک دنیا کا کوئی شعبہ خالی نہیں جوجسم فروشی اورجنس پرستی سے خالی ہو؛صرف حالات کے تحت نوعیت بدل جاتی ہے۔ جس کے خلاف کئی بار آوازیں ضرور اٹھتی ہیں مگر پھر دب جاتی ہیں، کیوں کہ انصاف گاہوں پر تو قبضہ آخر مردوں کا ہی ہے۔ ڈاکٹر نرس کا جوبن کھولتاہے، تو نیتا کسی مہیلا نیتا کی شلوار اتارتاہے۔ پولیس کسی لڑکی پولیس یاکانسٹیبل کاچین کھولتا ہے۔ کوئی مرد کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اس کے جسم کواپنے عیش کے حصے کا سامان بنا لیتا ہے۔ ٹیچرز اپنی فی میل اسٹوڈنیس کے ساتھ غلط رشتہ بناکرمتعدد قسم کی لذت حاصل کرنا اپنی سرشت میں شامل کرلیتا ہے۔دفتر کا بوس( Boss) اپنی ملازمہ کو نئی خواب دکھا کر پے درپے بیلٹ کھولتا ہے۔ ۸۵؍فی صدی اسکالز لڑکیاں اپنے سوپروائز کے بستر کی زینت بن جاتی ہیں یعنی ریسرچ کے درمیان کئی بار جسم پر ہی ریسرچ ہوچکا ہوتا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو شمویل احمد کے قلم سے’ لنگی‘ افسانہ وجودمیں نہ آتا۔جس کے جسم تک رسائی کے لیے نہ جانے مرد کیا کیا کرتا ہے مگر اسی کے سایے تلے کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے،یہ توالمیہ ہے۔
آج کی نئی نسل اور خاص کر تعلیم یافتہ افراد جنس پرستی کو اپنی آزادی اور اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ ایک مکمل نظریہ ہے جویہ کہتا ہے کہ ’’ہمارا جسم ہماری مرضی‘‘،یہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پوری دنیا اس کی زد میں ہے۔ خاص کر یونی ورسٹیز اس بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے کئی یونیورسٹیاں بدنام بھی ہیں۔
الیکشن کے دوران کس طرح شراب کی کالابازاری ہوتی ہے یہاں اس پر بات کرنا فضول ہے ، رہا کالج تو وہ بھی اس سے پاک نہیں۔ آج کل کالج الیکشن میںجس طرح ملکی سیاست کی گھس پیٹھی ہوئی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اپنی سیاست کو زمینی سطح پر مضبوط کرنے کے لیے سیاسی پارٹیاں ایک اچھی خاصی رقم کالجزکے الیکشن میں خرچ کرتی ہیں۔ اپنے مفاد کے لیے گروپوں کے درمیان لڑائیاں جھگڑے کرواتی ہیں، کئی بار کسی اسٹوڈینٹ کو اپنے مفاد کے لیے گرفتار ،ملک سے غداری جیسے دھارائیں بھی لگواتی ہیں، یہیں تک بس نہیں ضرورت پڑے تو دنیا سے فراغت بھی کراتی ہیںاور پھر ہم اسی کے دروازے پر انصاف اور صحیح جانچ پڑتال کی سفارش کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
ویب سریز تانڈو میں 96؍اداکاروںنے کام کیا ہے جس کی 9؍قسطیں منظر عام پر آچکی ہیں مگر صرف غصہ اور ہنگامہ 6؍ ناموں پر جو کہ مسلمان ہیں؟ اس ملک میں آرایس ایس کے بینرتلے موجودہ سرکارنے مسلمانوں کے تئیں ایسی ذہنیت تعمیر کی ہے کہ داخلی اور خارضی سبھی سسٹمز ناسوروبا میں مبتلا ہیں۔ اس ملک میں ٹھاکر فٹ وئیر کمپنی کا جوتا بیچنا ایک مسلمان غریب کے لیے گناہ ہوجاتا ۔ اور حالت یہ ہے کہ بجرنگ دل کے اشارے پر اس غریب کو گرفتار بھی کرلیا جاتاہے ،مگر کمپنی پر کوئی آنچ تک نہیں آتی۔اسی طرح اجین میں دہشت گرد بھگواتنظیمیں مسلمان علاقوںمیں گھس کر زبردستی رام مندر کے نام پر چندہ اصول کر رہی تھیں اور معاملہ خراب ہونے پر پتھرائو کی صورت پیداہوگئی تو دوسرے دن ہی مسلمانوں کے گھروں پر بولڈوزر چلوادیاگیا۔ایسا ہی دل خراش واقعہ مندسور میں بھی واقع ہوا۔ حال میں ہی میرٹھ چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی کے آنگن میںمنعقدہ’ہندوپنجایت‘ میں آنندسوروپ نے مسلمانوں کے خلاف زبردست زہر افشانی کی۔ مگر جب ان ظالم رویوں کے خلاف مسلمان نوجوان یا حق پسند لوگ آواز بلند کرتے ہیںتو انھیں یواے۔پی اے جیسی بدنام زمانہ دھارا کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ یواے پی اے ایک سیکولرملک کی پیشانی پر بدنماداغ ہے۔موجودہ وقت میں کسان احتجاج کو کس طرح بدنام کرنے کی سازش رچی جارہی ہے اور حکومت کس طرح یواے پی اے جیسی دھارا نوجوانوں پر لگا کر پر امن احتجاج کو ناکام کرنا چاہتی ہے؛ جگ ظاہر ہے۔ سوال تویہ ہے کہ لال قلعہ پر کھڑی پولس آخر لال قلعہ تک ہردھنگ مچانے والوں کوکیسے پہنچنے دی ، پولس اور سرکار پر ایک بڑا سوال ہے؟ کیا یہ جان بوجھ کرہونے نہیں دیا گیاتاکہ کسان احتجاج کو بدنام کردیاجائے اور عوام اس سے نفرت کرنے لگے؟
یہ بات ضرور ہے کہ تانڈو کے بعض سین سے ہمیں بھی اختلاف ہے مگر اس کے باوجود ہنگامہ کرنے والے سے درخواست ہے کہ شورو غل کرنے سے پہلے خود زمینی حقائق پر نظر ڈالے۔ ہم صرف اپنی انا کی مٹی پلید ہوتے دیکھ کر مخالفت کررہے ہیں یا واقعی تانڈو آج کے دوروخی سماج کا حقیقی ترجمان ہے۔ اس دنیا کی ایک عجیب روش اور چال ڈھال ہے کہ سچ حلق سے نیچے نہیں اترتا، حق بات اسے کڑوی لگتی ہے۔یہ توسچ ہے کہ کیا عوام کیا رہبرانِ ملک سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں، مگر اس کے باوجود اپنی نالائقی اور بے غیرتی پر شرم نہیں آتی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here