یوم پیدائش کے موقع پر
ممبئی ’اے میرے دل کہیں اور چل‘ جیسے متعدد گیتوں کو اپنی آواز سے لازوال بنا دینے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار و اداکار طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور محض پندرہ سال کی عمر میں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے فنی کریئر کا آغاز کردیا تھا۔
طلعت محمود کی پیدائش 24 فروری 1924میں لکھنؤکے منظور محمود کے ہاں ہوئی۔ ان کے والد بھی گلوکار تھے۔ یہ اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے۔طلعت نے چھوٹی سی عمر میں اپنی موسیقی کی صلاحیتیں دکھانا شروع کر دیں تھیں ۔انہوں نے موسیقی کی تعلیم ماریشس کالج سے حاصل کی تھی۔سولہ سال کی عمر میں طلعت کو کمل داس گپتا کا گیت ’سب دن ایک سمان نہیں ہوتے‘ گانے کا موقع ملا اور یہ نغمہ لکھنؤ میں کافی مشہور ہوا۔
سنہ 1944 میں ان کے ایک غیر فلمی گیت ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ چونکہ شکل و صورت سے بھی طلعت محمود ایک خوبصورت انسان تھے لہٰذا کئی فلمسازوں نے انہیں اپنی فلموں میں بطور ہیرو بھی سائن کیا۔
طلعت محمود نے بطور اداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
نیو تھیٹرس نے 1945 میں بنی فلم راج لکشمی نے طلعت کو ہیرو-گلوکار بنایا۔ سنگیت کار رابن چٹرجی کی ہدایت میں اس فلم میں ان کے گائے ’جاگو مسافر جاگو‘ گانے کو سراہا گیا۔ خوش ہوکر طلعت نے ممبئی کا رخ کیا اور انل بسواس سے جاکر ملے۔انل بسواس نے انہیں فلمستان اسٹوڈیو کی فلم آرزو میں پردے کے پیچھے سے گانے کا موقع دیا۔ دلیپ کمار کے اوپر فلمایا گیا نغمہ ‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’ ہٹ ہوگیا اور طلعت کی کپکپاتی آٓواز سنگیت کاروں کی نگاہ میں جم گئی۔