تغزل اور مرثیت کے امتزاج کا شاعر: تعشق لکھنوی

0
678

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: رویدا ضمیر

مرثیہ شاعری کی قدیم ترین اور اہم اصناف میں سے ایک ہے۔ اردو مرثیہ نگاری کے ابتدائی خدو خال مثنویوں اور غزلوں کی ہی طرح دکن میں ضرور ملتے ہیں لیکن اس کے ارتقا کے لیے اودھ کا ماحول جس طرح ساز گار ثابت ہوا وہ وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ نوابین اور ھ نے باعث عقیدت فن مرثیہ نگاری کی نہ صرف آبیاری کی بلکہ اسے بام عروج تک پہنچانے کی بھر پور کوشش بھی کی۔ اور ھ اور خصوصا لکھنؤ کے مرثیے کی ایک سب سے نمایاں اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب کے اعلیٰ عناصر نظر آتے ہیں۔ خالص ہندوستانی اصلاحات اور خیالات سے مسجع فن مرثیہ نگاری کے اعلی نمونے دبستان لکھنؤ کی ہی شناخت ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

شخصیت شکن ناقد و محقق سید شاہ حسین احمد

یہ لکھنو کے مرثیہ نگاروں کا ہی کا کمال ہو سکتا ہے کہ صحرائے عرب اور میدان کربلا کے ریگ زاروں سے ہوتے ہوئے سرزمین اور ھ اور لکھنو کی گلیوں اور کوچوں تک فن مرثیہ گوئی کا جو پھیلاؤ ہمیں دیکھنے کو ملتاہے وہ اپنے آپ میں ایک عمدہ مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔

مراثی انیس ودبیر کی سلاست اور فصاحت پورے برصغیر میں مانند مثال ہے۔ ان کی تقلید و پیروی میں دیگر مرثیہ گو شعرا نے عمریں صرف کیں لیکن وہ شہرت اور مقبولیت حصے میں نہ آئی جو کے وہ متقاضی تھے۔ لیکن اْس دور میں چند ایسے مرثیہ گو بھی گزرے ہیں جنہوں نے فن مرثیہ نگاری میں اپنی فصاحت اور بلاغت کے دم پر انیس ودبیر کی رٹائی شاعری کے مضامین اور اس کے انداز بیان سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک نیا انداز پیدا کیا ہے۔ جس میں عصر رواں کے معاشرتی مسائل اور فلسفیانہ موضوعات داخل کر کے مریعے کی شان میں اضافہ کیا ہے۔

سید مرز آتشق لکھنوی چونکہ دبستان عشق سے تعلق رکھتے ہیں اور جس کے بنیاد گذار ان کے بڑے بھائی اور شیخ امام بخش ناسخ کے شاگرد عزیز سید حسین مرزا عشق تھے۔ مرزا عشق لکھنوی، جنہوں نے مرثیے میں روایتی مضامین سے الگ ہٹ کر جدت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے مرثیہ نگاری کے نئے انداز اور طرز کی شروعات کی۔ ان کے چھوٹے بھائی سید مرزتعشق لکھنوی جنہوں نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں غزلیں کہیں جو اپنی انفرادیت کے لحاظ سے اہم ہیں۔ ان کی غزلوں میں نزاکت احساس اور مضامین کی جدت نے ایک نیا آہنگ پیدا کیا ہے جو تغزل کے اعتبار سے بے حد اہم ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں کے اکثر مضامین ان مرثیوں میں بھی استعمال کیے میں جن کی مقبولیت دبستان عشق کی پہچان بن گئی۔ مرزا تعشق لکھنوی کی غزلوں کے یہ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں:

ہم وہ عریاں ہیں کہ واقف نہیں اے جوش جنوں
نام کس شے کا گریباں ہے، دامن کیسا
کہہ دیا بس کہ تری آہ میں تاثیر نہیں
یہ نہ دیکھا کہ سینے میں روزن کیسا

یقینا تعشق کی غزل انفرادیت اور نفاست کا پیکر ہے۔ اس کے تغزل میں احساس اور مضامین کیجدت ہی اس میں انفرادی شان پیدا کرتی ہے۔

بلا شبہ ان کی غزلوں میں جدید رنگ و آہنگ موجود ہے لیکن مرزا تعشق کی شناخت اپنے معاصر مرثیہ گو میرانیس ، مرزاد بیر، مرمونس اور مرزا عشق جیسے اہم مرثیہ نگاروں میں ایک منفر د مرثیہ گوئی ہے جس نے لکھنؤ کی مرثیہ نگاری کو بلند مرتبہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مرزا تعشق لکھنوی کی مرثیہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر جعفر رضا اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا:

تعشق لکھنوی کے مراثی کا تغزل آمیز پہلو بہت ہی دل چسپ ہے۔ ان کے مضامین میں تنوع بھی ہے اور ندرت بھی۔ یہ ندرت اس وقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے جب مرثیہ اور غزل کے باہمی تضاد پر نظر ڈالی جائے۔ مرثیہ کے مضامین ایک طرح کی مقدس فضا میں پرورش پاتے ہیں جس میں عقیدہ اور روحانیت کی اہمیت ہے۔ دوسری طرف غزل کے محرک مادری جذبات ہوتے ہیں۔ اس میں جنسیت اور تعیش کا دخل ہوتا۔ اس طرح ان متضاد مضامین کو یکجا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تعشق نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ انہوں نے غزل اور مرثیہ کے موضوعات کے اختلاف اور تضاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی ان کو ایک میں سمونے کی کوشش کی ہے۔

(تعشق لکھنوی ؍حیات، شخصیت فن اور کلام ، مرتبہ ڈاکٹر سید تقی عابدی) تعشق لکھنوی نے اپنے مرثیوں میں رزمیہ واقعات بیان کرتے وقت بھی تغزل کا خاص خیال رکھا ہے۔ رزمیہ بیان کے وقت تغزل کا رنگ تھور اپھیکا ضرور ہے لیکن جدت اور حسن بیان میں کوئی کمی نہیں آنے پاتی ہے۔ ان کا یہ ہنر اس بند میں با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

بہتی تھی نہر خون کی دریا کے سامنے
لالہ کھلا تھا صحرا کے سامنے
پھرتی تھی مرگ لشکر اعدا کے سامنے
آیا جو کوئی سید والا کے سامنے
سینے میں جا کے تیغ دو پیکر نکل گئی
پہلو سے روح آنکھ بچا کر نکل گئی

تعشق لکھنوی نے فطرت مناظر کا بیان بھی غزلیہ انداز میں کیا ہے۔ ان کا مشاہد ہ عمیق تھا اور انہوں نے مقامات کر بلا اور دیگر مقامات کا باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ کیا تھا۔
٭٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here