9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
95سال قبل مرکز نظام الدین کی تعمیر مولانا الیاس کاندھلوی ؒ نے کی تھی۔ کورونا کی وباء کے ایک سال بعد طویل قانونی چارہ جوئی کےنتیجے میں دہلی ہائی کورٹ نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر کمال کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ والی مسجد کا قفل کھولنے کا حکم دےدیا ۔ مذکورہ فیصلے کو دہلی وقف بورڈ کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ آج کل عدالتوں سے عدل غائب ہوگیا ہے۔ اس حوالے عوام میں مایوسی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو تاریخ پر تاریخ اور بالآخر نانصافی کے علاوہ کوئی توقع ہی نہیں ہوتی ۔ ہر دو صورت میں حزن و ملال ہاتھ آتا لیکن درمیان میں کبھی کبھار استثناء ہوجا ئےجیسے وسیم رضوی کا معاملہ تو اور بات ہے ۔ عدالت عالیہ نے یہ اجازت شب برات اور رمضان کے پیش نظر مرحمت فرمائی حالانکہ مسجد تو بنیادی طور پر روزآنہ پنج وقتہ نماز کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر امور بھی اس سے منسلک ہوتے ہیں بلکہ صحیح بات تو یہ ہے اسلامی نظام حیات کا مرکز ہی مسجد ہے۔
افسوس کہ یہ اجازت پہلے مرحلے میں کھلے دل سے نہیں دی گئی بلکہ اس کے ساتھ یہ مضحکہ خیز پخ لگائی گئی تھی کہ عالمی تبلیغی مرکز میں فی الحال صرف پچاس افراد کو داخلے کی اجازت ہوگی ۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی تفصیل یعنی نام اور پتے مقامی پولیس تھانے میں جمع کرانے ہوں گے جہاں سے مقامی تھانہ انچارج اجازت نامہ جاری کرے گا۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کا تصور محال تھا کیونکہ ایسی کوئی پابندی نہ تو تروپتی کے مندر میں جہاں سیکڑوں لوگ کورونا سے متاثر پائے گئے اور نہ ایوانِ پارلیمان و اسمبلی کے لیے جس کے کئی ارکان کورونا سے متاثر ہوکر پرلوک سدھار گئے ۔ ایسے میں تبلیغی جماعت مرکز کے ساتھ یہ امتیازی سلوک ناقابلِ فہم تھا۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ مذکورہ فیصلہ ایےں وقت میں دیا گیا جب ہری دوار کے کمبھ میلے میں پچاس لاکھ شردھالو بلا روک ٹوک گنگا میں ڈبکی لگا رہے تھے ۔ 50 افراد اور 50 لاکھ افراد میں کوئی بڑا نہیں صرف لاکھ یعنی 100ہزار کا فرق ہے ۔ موجودہ معاشرے میں رائج تفریق و امتیاز کی کھائی کے مقابلے یہ کچھ بھی نہیں ہے خیر اللہ کا شکر ہے اپنے دوسرے مرحلے میں یہ شرائط ختم کردی گئیں۔
تبلیغی جماعت کے حوالے سے اس سال کے دوران عدالتوں کے دو خوش آئند فیصلے آئے۔ پہلا فیصلہ گزشتہ سال 22اگست کو بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے دیا تھا ۔ ہندوستان میں جب کورونا کے معاملات لاکھوں میں پہنچ گئے تو اس کے لیے تبلیغی جماعت کو موردِ الزام ٹھہرانا ناممکن ہوگیا ۔ اس کے بعد لے دے کر بے یارو مددگار غیر ملکی رہ گئے جن کے خلاف تبلیغی جماعت کےمرکز میں اجتماع کی شرکت کے علاوہ سیاحتی ویزا کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کا بھی الزام لگایا گیا۔ ان بیچاروں پر آئی پی سی کے مختلف اہتماموں مثلاً وبائی امراض سے متعلق ایکٹ، مہاراشٹر پولیس ایکٹ،ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور غیرملکی قانون کی خلاف ورزی کے تحت الزامات درج کیے گئے ۔ ان غیر ملکی شہریوں کو پناہ دینے والے 6 مقامی متولیانِ مسجد پر بھی معاملہ درج کیا گیا ۔
غیر ملکی زائرین نے عدالت کو بتایا کہ ہندوستان میں داخلے سے قبل ان کا ٹسٹ کیا گیا۔ کووڈ نگیٹو پائے جانے کے بعد ہی وہ ملک میں داخل ہوئےاور احمد نگر پہنچنے کے بعد ضلع پولیس کو اپنی آمد سے مطلع کیا ۔ 23 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد گاڑیوں کی آمدورفت رک گئی، ہوٹل و لاج بند ہو گئے اور اسی وجہ سےمسجد میں انہیں پناہ لینے پر ان کو مجبور ہونا پڑا۔ اس کے باوجود ان لوگوں جسمانی دوری کے ضابطوں پر عمل کیا۔پولس کا کہنا تھا ان 19میں سے پانچ غیرملکی شہری کوروناکے مریض پائے گئے تھے اور انہیں قرنطینہ کے بعد دیگر لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ ان الزامات کے جواب میں جسٹس نلوڑے نے یہ کہہ پولس کو شرمندہ کردیا کہ ریکارڈ پر موجود دستاویزوں کے مطابق غیرملکی شہریوں کے مذہبی مقامات میں جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ سرکاری وکیل نے 950 غیرملکی شہریوں کومرکزی حکومت کی جانب سے بلیک لسٹ کرنے کے معاملے کا حوالہ دیا تو ہائی کورٹ نے اسے خارج کر دیا۔
جسٹس نلوڑے جو حال میں سبکدوش ہوئے ہیں نے اپنی حق شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا،’ریکارڈپرموجود دستاویز کے مطابق تبلیغی جماعت مسلمانوں کا کوئی الگ طبقہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف مذہبی اصلاح کی تحریک ہے۔ اصلاح کی وجہ سےہر مذہب کاصدیوں سے فروغ ہورہا ہے، کیونکہ سماج میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے سبب اصلاح کا عمل ہمیشہ ضروری ہوتا ہے۔تبلیغی جماعت کے اجتماع میں حصہ لینے والے غیرملکی شہریوں کی میڈیا میں کردار کشی کو جسٹس نلوڑے نے خوب آڑے ہاتھوں لیا ۔ انہوں نے کہا، ’دہلی کے مرکز میں شامل ہونے والے غیرملکی شہریوں کے خلاف پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں بہت پروپیگنڈہ چلایا گیا اور ایسی شبیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہی لوگ ہندوستان میں کووڈ 19 پھیلانے کے ذمہ دار تھے۔ ان غیرملکی شہریوں کو عملاًہراساں کیا گیا۔
جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا ’ وبایاآفت کے دوران حکومت بلی کا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ان غیرملکی شہریوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے منتخب کیاگیا تھا۔ہندوستان میں انفیکشن کی سابقہ اور موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ ملزمین کے خلاف ایسی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ غیرملکی شہریوں کے خلاف کی گئی اس (مذموم) کارروائی پر افسوس جتاتے ہوئے وہ بولے کہ اس نقصان کی بھرپائی کے لیے کچھ مثبت قدم اٹھانے کے لیے یہ صحیح وقت ہے۔ یہ بالکل درست بات ہے لیکن اس کی بھرپائی کیسے کی جائے اس بابت کوئی رہنمائی انہوں نے نہیں کی حالانکہ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ ان کو حق گوئی و بیباکی میں اضافے کا سبب بنتا ، اس کے باوجود موجودہ دگر گوں حالات میں جسٹس نلوڑے کا یہ فیصلہ طلائی حروف میں لکھے جانے کا حقدار ہےاس لیے گہرے اندھیرے میں روشنی کی باریک سے کرن بھی مینارۂ نور بن جاتی ہے۔
کورونا کے دور میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کی خوب کوشش کی ۔ جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی نےاس منفی، نفرت آمیز اور جھوٹی رپورٹوں اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور فی الحال وہ عرضی زیر سماعت ہے۔ اس مقدمہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے اس وقت تک سپریم کورٹ میں تین حلف نامہ داخل کیے گئے تھے۔ اس سے قبل داخل کیے جانے والے دو حلف ناموں پر چیف جسٹس آف انڈیا نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔اس بات جمعیۃ علماء نے الزام عائد کیا ہے کہ مرکزی حکومت منافرت پر مبنی رپورٹنگ کرنے والے بعض نیوز چینلوں (گودی میڈیا) کو بچانا چاہتی ہے۔ وہ اپنے حامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو کارروائی سے بچانے کے لیے عدالت میں بے معنیٰ حلف نامہ داخل کرتی ہے اور اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے سرزنش بھی کی تھی۔
بامبے ہائی کورٹ میں اس تاریخی فیصلے کے پانچ ماہ بعد اس سال جنوری کے اندر عدالت عظمیٰ کا ضمیر بیدار ہوا اور اس نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا کوریج معاملے میں سخت تبصرہ کیا۔ یہ تبصرہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کا اخراج چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے کی زبانی سامنے آیا جو اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے لیے خاصے بدنام ہیں ۔ لاک ڈاون کے دوران جب ریلوے پٹری پر کئی مزدور مال گاڑی سے کٹ کر ہلاک ہوگئے تھے انہوں نے کمال بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کسی کو پٹری پر مرنے سے نہیں روک سکتے ۔ ابھی حال میں ایک عصمت دری کے ملزم کو شادی کی پیشکش کے عوض نرمی دکھانے والے تبصرے نے بھی انہیں مصیبت میں ڈال دیا تھا ۔ آگے چل کر انہیں اس کی تردید پر مجبور ہونا پڑا لیکن خیر ناگپور ی جسٹس بوبڈے نے چونکہ تبلیغی جماعت کی بابت اس طرح کی غیر ذمہ داری سے گریز کیا اس لیے یک گونہ خوشی ہوئی۔ ویسے اب وہ سبکدوش ہوچکے ہیں اور ان کو بھی اپنے پیش رو کی مانند سرکار کی خدمت بجالانے کے لیے حسبِ حیثیت انعام و اکرام سے نوازہ جائے گا۔
اس مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے نے کہا تھا کہ غیر جانبدار اور سچی رپورٹنگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن دوسروں کو پریشان کرنے کے لیے ایسا کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ عدالت عظمی نے کہا کہ اکسانے والی میڈیا کوریج پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ ہماری عدالتوں میں آج کل وعظ و نصیحت کا کام تو خوب ہوتا ہے لیکن مجرم کو قرار واقعی سزا کم ہی ملتی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی یہی ہوا اور عدالت عظمیٰ کا تبصرہ بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ عدالت کی بنیادی ذمہ داری مجرمین کو سزا دینا اور اگر وہ اس کو ادا نہ کریں تو جرائم کا بازار گرم رہتا ہے۔ جج صاحب کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا ہتھوڑا ہوتا ہے جس سے شور شرابے کو خاموش کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ وہ دراصل ان کو حاصل طاقت اور اختیار کی علامت ہے۔ اس کا اگر درست استعمال ہو اورغیر ذمہ دار انتظامیہ و میڈیا کو قرار واقعی سزا سنائی جائے تووہ اس طرح کی حرکت سے گریز کریں گے ورنہ ایک کان سے سن کر دوسرے نکال دیں گے ۔ بدقسمتی سے فی الحال یہی ہورہا ہے اور اس کی قیمت تبلیغی جماعت جیسی تنظیموں کو چکانی پڑ رہی ہے ۔ پروچن دینے والی عدالتوں کو یاد رکھنا چاہیے(ترمیم کی معذرت کے ساتھ)؎
رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہَمن کا طِلسم
عصا نہ ہو توعدالت ہے کارِ بے بنیاد