۲۱ ؍ویں صدی میں اُردو زندہ ہے یہ تو اُردو کی کرامت ہے لیکن اس دور میں بھی کوئی اردو کے لئے زندہ ہے تو پڑھنے والوں کو یہ بات ذرا عجیب سی لگے گی۔واقعہ یہی ہے کہ سولاپور (مہاراشٹر) میں اُردو کے لئے کوئی زندہ ہے یہ اپنے آپ میں ایک حقیقت ہے۔اُردو لکھے پڑھنے والی نئی نسل میں اُردو سے بے انتہا محبت رکھنے والے کم کم ہی ہیں۔سلطان اختر اپنی خشخشی داڑھی، پیشانی پر نیکی کی نشانی اور سلیقے سے جمے ہوئے بالوں اور درمیانی مانگ سے ذرا خاص خاص ہی نظر آتے ہیں۔اب آتی ہے ان کی آنکھوں کی باری تووہ امیدوں کا منبع ہیں۔ان کی بھوری پتلیوںسے مرقع آنکھوں میں موجود سرخ ڈوروں کو بغیر غورکئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔یہ ڈورے کتابوں میں الفاظ خیال اور کردار پڑھتے پڑھتے سرخ ہوگئی ہیں۔مگر یہ سرخی بوجھل پن کی نہیں بلکہ خود اعتمادی کی ہے۔گول چاند نما چہرے پرہمیشہ مسکراہٹ کھلائے رکھنا سلطان اختر کی فطرت ہے۔لیکن اس مسکراہٹ میں دور دور تک طنز اور تصنع نہیں۔بالکل کسی کھلتے ہوئے خوبصورت پھول کی مانند چہرہ مسکراتا ہے لب مسکراتے ہیں اور آنکھیں مسکراتی ہیں۔سلطان اختر کی جسمانی ساخت درمیانی ،ہلکے جھکے ہوئے کندھوں پر اُردو زبان اور ادب کی ذمہ داریوں کو صاف طورپرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔اب آتی ہے ڈیل ڈول کی باری تو سمجھئے ڈیل ڈول ،ڈیل ڈول ہی ہے۔میانہ قد اورگوری رنگت آنکھوں کے ہلکے رنگ کے حلقے خود مزاج بال اور تیکھی سیدھ میں ہلکی بھنویں سب کچھ مل کر سلطان اختر کی شخصیت کا ظاہر بناتے ہیں۔رہی آواز تو ہر گنگنانے والے شخص کی زبان میٹھی اور پُر کشش تو نہیں ہوتی لیکن یہ دونوں وصف سلطان اختر کی آواز میں آپ کو یقینا دیکھنے مل جائیںگے۔گنگنانے کا شوق رکھتے ہیں۔اوراچھے اشعار پڑھ پڑھ کو خوش ہوتے ہیں اپنے خاص اور قریبی دوستوں کو کچھ اشعار سنانااور اپنی پُر کشش اور مترنم آواز کو پہنچانااپنا حق سمجھتے ہیں۔
اُردو کے اس زندہ آدمی کو سمجھنے سے قبل یہ سمجھیں کہ ’’سولا پور‘‘ اپنی خوبصورت شال اور غالیچوں کے علاوہ سولاپوری چادروں کے لئے ایک الگ پہچان رکھتا ہے لیکن ادبی حلقوں میں شولاپور اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے جانا پہچانا جاتا ہے۔پچھلے دس برسوں میں سولاپور کی سرزمین پر اگر ادب کے شہ نشینوں نے قدم رنجہ فرمایاہے تو سلطان اختر ہی اُن کے میزبان رہے ہیں۔ادب سے محبت کرنے والے محبین کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سلطان اختر اس زمرے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیںاُردو سے عشق ہے اور وہ اُردو کے معشوق بننا نہیں چاہتے۔وہ جانتے ہیں کہ معشوق کے لئے بے عیب رہنا ضروری ہے ۔وہ کسی کھل اٹھنے والے بچے کی طرح اُردو والوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔اُردو اس خوبصورت دل کے خوبصورت انسان کااوڑھنا بچھونا ہے اور اُردو میں ان کی آرزو کی مٹی کا سونا ہونا ہے۔سولاپور والوں کے لئے پورے مہاراشٹر میں مشہور ہے کہ یہاں والوں سے ’’پنگا‘‘ لینا مہنگا پڑتا ہے۔لیکن سلطان اختر سے مل کر آپ کی رائے بدل جائے گی۔اور آپ یہ کہہ اٹھیں گے کہ سولاپور والوں سے پنگا لینا بہت فائدہ پہنچاگیا۔کیونکہ سولاپور والے دوستی نبھانے میں پکے ہیں۔سلطان اختر ایسے ہی سولاپوری ہیں جنہوں نے سولاپور کے تعلق سے لوگوں کی عام رائے کو بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔وہ سولا پورکی خوبصورت تصویر بناکر پیش کرتے ہیں اور اس تصویر میں مبالغہ آرائی کا رنگ نہیں چڑھاتے بلکہ فطری اور حقیقت پسندی کا رنگ ظاہر ہونے دیتے ہیں۔یہ ان کا فطری کمال ہے کہ انہیں اپنے وطن سے مثبت انداز کا پیار ہے۔ایک بات تو یقینی طورپر سلطان اختر کے لئے کہی جاسکتی ہے کہ سلطان اختر کو تین ناموں سے بہت پیار ہے سولاپور، اردو اورڈاکٹر عبدالقادر فاروقی۔
ڈاکٹرعبدالقادر فاروقی فائونڈیشن اور دیگر اُردوتنظیموں کے روحِ رواں سلطان اختر اپنے احباب میں جھلکتے ہیں صاف طور سے محسوس ہوتے ہیں۔شخصیت میں کشش ہے۔بھرپور انداز میں اُردو والوں کا استقبال کرتے ہیں۔اُردو کے کئی بڑے اور تاریخی پروگرام منعقد کرواچکے ہیں۔اُردو کے مشاہیر سے قریبی مراسم رکھتے ہیں لیکن ذرا دوجے قسم کے ۔کہیں بھی ان تعلقات میں طلبِ جاہ اور فخریہ وجاہت کو شامل نہیں ہونے دیتے بلکہ ایک محبِ اردو اور با ادب تلمیذ کی حیثیت سے اپنے تعلقات کو نبھاتے ہیں۔اسی سلسلے میں سبھی سے رسمِ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس سلسلے کو کتابی شکل میں شائع بھی کرایا۔تقریباً اردو ادب کے سبھی حلقوں میںیہ خطوط متعارف ہوچکے ہیں۔
ایک بار اُرد وکی نسبت سے سلطان اختر سے جڑ جانے کے بعد ان سے پیچھا چھڑا پانا مشکل ہے۔کیونکہ وہ سرد تعلقات اور رسم و راہ کے قائل نہیں ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اُردو والوں کے بیچ رشتہ گرمجوشی والا اور دیرپا انداز کا ہونا چاہئے۔کتابیں گفٹ دینا اورکتابیں پڑھ پڑھ کر ڈھیر لگانا ان کا خاص مشغلہ ہے۔اچھی کتابوں پر ضرور اپنی رائے دیتے ہیں۔کتابیں خریدکر پڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔محنت کرنے والوں اور اُردو کے لئے ذرا سی بھی مشقت اٹھانے والوں کی بھرپورقدر دانی کرتے ہیں۔اسی نسبت سے مہمان نوازی اور رشتوں کی خوشگواری کا بھی بھرپور خیا ل رکھتے ہیں۔اپنے دسترخوان کو وسیع رکھا ہوا ہے۔
کئی کتابیں مرتب کرنے کے بعد قلم کی تحریک میں کوئی سرد مہری نہیں آئی ۔بلکہ ہر بار کچھ نیا کرنے کا جذبہ پوری طرح موجود ہے۔پیشہ سے معلم ہیں لیکن چین و سکون اُردو میں ملتا ہے۔گرمی کی شدت ہو یا سرما کی گلابی ٹھنڈ یا پھر موسمِ باراں ہر حال میں اُردوکتابیں اوڑھنا بچھونا ہیں۔
اُردو کے اشعار گنگنانے کا شوق رکھنے والے سلطان اختر پُرمزاح طبیعت کے حامل ہیں۔مجتبیٰ حسین سے بے حد متاثر ہیں۔ان کی تحریریں بہت دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ان کی خاکہ نگاری نے سلطان اختر کے ذہن ودل پر گہرائی تک اثر کیا ہے۔
سلطان اختر بہت سے ادبی و تعلیمی مجالس کی نظامت کرچکے ہیں۔آواز میں ٹھہرائو اورکشش ہونے کے باعث ان کا انداز سبھی کو بھاتا ہے۔وہ خود بھی ایک چہکتی مہکتی شخصیت ہیں اس لئے لوگ ان کے لفظوں ،جملوں اور محاوروں سے جڑ جاتے ہیں۔اور ان کے ساتھ اپنا پن محسوس کرتے ہیں۔سلطان اختر نے سولا پورکے ادبی حلقوں اور تعلیمی سرگرمیوں میں اپنی چھاپ کچھ اس طرح چھوڑی ہے کہ سبھی پروگرامس میں آپ کی شرکت لازمی سمجھی جاتی ہے۔لیکن سلطان اختر نے خود کوسولا پور کی حدود تک محدو د نہیں رکھا۔ بلکہ اپنی پرواز کو ملک گیر سطح پر متعارف کرایا۔سبھی احباب اُردو سے مراسم پیدا کئے اور اپنا شناسا بنایا۔ان کے خطوط دہلی حیدرآباد کرناٹک گلبرگہ ،بہار، پنجاب، گوالیار، علیگڑھ ،ممبئی، احمد نگر، پونہ، اکولہ، پربھنی جانے کہاں کہاں پہنچے ہیں اور مشاہیر سے اپنے خطوط کاجواب حاصل کرنے میں سلطان اختر کامیاب بھی رہے ہیں۔
انسان کی شخصیت کا پتہ اس کے چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ سے چل جاتاہے۔سلطان اختر کی مسکراہٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک کھلکھلانے والی شخصیت ہے، بس ان کامیلانِ طبع صاف دل لوگوں سے زیادہ ملتا ہے۔وہ کھلکھلاکر ہنستے ہیں اور اپنے روبرو شخصیت کو بھی مسکراتا اور ہنستا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ ان کی صاف دلی کی علامت ہے۔ بھرپور تکلفات کے بیچ وہ بے تکلفی کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔یہ ان کا وصفِ خاص ہے۔اپنوں میں اپنے بن کر جینا اور پرایوں میں بھی اپنا پن ڈھونڈ لینا سلطان کی طبیعت کا جزوِ خاص ہے۔اپنے ڈیل ڈول یا لہجے سے وہ کبھی کسی مدمقابل کو مرعوب یا متاثرکرتے نظر نہیں آئینگے۔بلکہ سہج گفتگو ہی ان کا واحد ہتھیار ہے جس سے وہ ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ کھلتے ہیں۔
سلطان اختر اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں۔واحد کو جمع کرنے میں اور جمع کوواحد کرنے میں ماہر ہیں۔راتوں کو جاگنے کی عادت بھی ہے تو سوشل میڈیا پر فعال ہیں۔صحافتی سرگرمیوں سے بھی وابستہ ہیں۔اردو ٹائمز ممبئی ، روزنامہ اعتمادحیدرآباد کے لئے۱۱؍برسوں سے اعزازی طور وابستہ ہیں۔کتابیں چھپتی رہیں ادبی سرگرمی چلتی رہے اور ملاقاتیں ہوتی رہیں یہی سب سلطان اختر کے منصوبوںمیں شامل رہتا ہے۔سلطان اختر کی شخصیت بالکل گلاب سے ہمسر ہوجاتی ہے۔کیونکہ گلاب رنگ و بو اور تازہ پن کاخوبصورت پیکر ہے بالکل سلطان اختر کے لئے بھی یہی بات صادق آتی ہے۔سلطان اختر اسی طرح اخترانِ ادب میں شامل رہیں ،مسکراتے رہیں اور لکھتے لکھاتے رہیں انہی نیک تمنائوں کاتحفہ انہیں پیش کرتا ہوں۔
سلطان اختر! :سولاپور میںاُردو کے لئے زندہ آدمی
Also read