فرفرہ شریف کو سیکولرزم کا سبق پڑھانے میں کامیابی – Success in teaching secularism to Farfara Sharif

0
82

 

عبدالعزیز
عام طور پر دو مختلف نظریات رکھنے والوں کے میثاق و معاہدے اور اتحاد (Alliance) پر کم علم و عمل والے چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ عملی میدان میں یا عملی جدوجہد سے دور ہوتے ہیں۔ نظریات اور فلسفے کی غیر عملی دنیا میں رہتے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے تو صلح حدیبیہ ایک ایسی مثال ہے جس کی روشنی میں جانی دشمنوں سے بھی معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ صلح حدیبیہ کو اللہ نے مسلمانوں کیلئے فتح مبین قرار دیا تھا،(سورہ فتح)۔ جو کام 13 سال میں نہیں ہوا تھا معاہدے کے ماحول اور برکت سے وہ کام 13مہینے میں ہوگیا۔ تیرہ مہینے میں اسلام تیز روشنی کی طرح عرب کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گیا۔ مزاحمتیں بہت حد تک ختم ہوگئیں اور اسلامی ریاست اور اس کے شہری کے طویل عرصے کی معاشی تنگی اور فقر و فاقے سے بھی نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ دنیا جانتی ہے کہ معاہدے کے وقت بہت سی رکاوٹیں بھی آئیں جنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر آنچ آئے بغیر ختم کیں۔ دنیا کی نظر میں معاہدہ بظاہر دب کر ہوا تھا مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اس حقیقت کو لیکن سمجھنا ضروری ہے کہ نام نہاد مسلمانوں کا معاہدہ اور سچے مسلمانوں کے معاہدے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور نتائج میں بھی میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوتے ہیں۔
فرفرہ شریف کے پیر زادہ اور مارکسی پارٹی میں غالباً کئی مہینے سے پارٹی کی تشکیل کے سلسلے میں بات چیت چل رہی تھی۔ مارکسی پارٹی ایم آئی ایم کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں چاہتی تھی جبکہ پیر زادہ عباس صدیقی صاحب مغربی بنگال میں ایم آئی ایم کی شاخ قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پیرزادہ بہت دنوں سے دو کشتی میں سوار تھے۔ اسی دوران اپنے چھوٹے بھائی نوشاد صدیقی کے ساتھ حیدر آباد جاکر اسدالدین اویسی صاحب کو دونوں بھائیوں نے فرفرہ شریف کے دربار میں آنے کی دعوت دی۔ موصوف نے دعوت قبول کی۔ یہاں آئے اور اعلان کیا کہ پیرزادہ عباس صدیقی جو بھی فیصلہ کریں گے ان کیلئے وہ قابل قبول ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ مغربی بنگال میں اپنے کام کا آغاز کریں گے۔ مارکسی پارٹی نے جب حتمی فیصلہ کرلیا کہ ایم آئی ایم کے ساتھ وہ کسی طرح کا معاہدہ نہیں کرے گی تو پیر زادہ کو مجبوراً مارکسی پارٹی کی شرط ماننی پڑی۔ اسد الدین اویسی کی شہرت سے پیرزادہ صاحب فائدہ اٹھانے کے بعد ان سے منہ موڑنا ہی سود مند سمجھا۔ مظفر بھون (مارکسی پارٹی کا دفتر) کا رخ کیا۔ بالآخر رد و قد کے ساتھ نندی گرام کے علاقے کی تمام سیٹیں مارکسی پارٹی نے نوزائیدہ سیاسی پارٹی ’’انڈین سیکولر فرنٹ‘‘ کو دینے کیلئے راضی ہوگئی۔ پیر زادہ صاحب نے گزشتہ روز (28فروری) مارکسی پارٹی اور کانگریس پارٹی کے جلسہ عام کے اسٹیج سے اپیل کی کہ ’’سی پی ایم جہاں سے امیدوار کھڑے کرے گی وہاں خون دے کر بھی اس کے امیدوار کو کامیاب بناؤں گا۔ ضرورت پڑی تو خون دے کر مادرِ وطن کو آزاد کراؤں گا۔ بی جے پی اور اس کی ’بی ٹیم‘ کو ممتا کی پارٹی کو شکست دوں گا۔ الیکشن میں ممتا بنرجی کو صفر بناکر چھوڑوں گا‘‘ (عوامی نیوز، یکم مارچ 2021ء)
پیر زادہ صاحب نے ترنمول کانگریس کو بی جے پی کی بی ٹیم بتایا۔ جبکہ بی جے پی اور ترنمول میں بنگال میں اصل لڑائی ہے۔ انتخابی جنگ میں مودی اور ممتا آمنے سامنے ہیں۔ مارکسی اور کانگریسی اتحاد کو 30، 40 سیٹیں بھی مل جائیں تو غنیمت ہوگا۔ پیر زادہ صاحب کو دو تین سیٹوں پر بھی مشکل سے کامیابی مل سکتی ہے۔ جس کیلئے وہ خون دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ ترنمول کو فی الحال بی جے پی کی بی ٹیم کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ پیرزادہ صاحب ایسا لگتا ہے کہ جھوٹ کی سیاست میں انٹری لے چکے ہیں۔ ان کی پارٹی کی بنیاد بھی جھوٹ پر مبنی کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ اسد الدین اویسی کو دکھاکر پہلے شہرت کی سیڑھیوں پر قدم رکھنا پھر ان سے منہ موڑلینا کس بات کی علامت ہے؟ جس چیز کی بنیاد دھوکے اور جھوٹ پر ہو اس کا حشر دنیا کو معلوم ہے۔ فارسی کے ایک شاعر نے سچ کہا ہے کہ ’’خشت اول نہد معمارِ کج – تا ثریا می رود دیوارِ کج‘‘۔ (پہلی اینٹ جب ٹیڑھی لگادے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے وہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہے گی)۔
پیر زادہ صاحب کی پارٹی کا نام مارکسی پارٹی نے ہی تجویز کی ہوگی۔ ان کی پارٹی کا نام ’’انڈین سیکولر فرنٹ‘‘ ہے۔ پارٹی کے صدر ان کے چھوٹے بھائی نوشاد صدیقی ہیں۔ وہ چھوٹے پیر ہیں۔ عباس صدیقی صاحب پارٹی کے سپریمو ہیں۔ میرے خیال سے پیرزادہ صاحب کو سیکولرزم کا مطلب شاید ہی پورے طور پر معلوم ہو۔ سیکولرزم ایک سیاسی اصطلاح ہے جس کی پیدائش مغربی دنیا میں چرچ اور اسٹیٹ کی لڑائی کے دوران ہوئی۔ یہ لڑائی چرچ اور اسٹیٹ یعنی مذہب اور سلطنت کو الگ کرنے کیلئے کی گئی۔ سیکولرزم کا مطلب لادینیت ہے۔ اس کا نفاذ کئی ملکوں میں کئی طرح سے ہوتا ہے۔ چند ملکوں میں سیکولر اسٹیٹ کا مطلب مذہب مخالف (Anti Relegion)اسٹیٹ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ ملکوں میں غیر مذہبی اسٹیٹ (Non Relegious State) ہے۔ ہندستان میں دوسرا مطلب لیا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، رادھا کرشنن اور مولانا آزاد جیسے لیڈران سیکولرزم کو دوسرے معنی میں لیتے تھے۔ ان کے نزدیک سیکولر اسٹیٹ وہ ہوتا ہے جو مذہب مخالف نہیں ہوتا۔
JAWAHARLAL NEHRU himself wrote in 1961: “We talk about a secular state in India. It is perhaps not very easy even to find a good word in Hindi for ‘secular’. Some people think it means something opposed to religion. That obviously is not correct. What it means is that it is a state which honours all faiths equally and gives them equal opportunities.”
(جواہر لعل نہرو نے 1961ء میں خود لکھا کہ ’’ہم لوگ ہندستان میں سیکولر اسٹیٹ کی بات کرتے ہیں۔ لفظ سیکولر کیلئے ہندی میں کوئی اچھا لفظ نہیں ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مذہب کے خلاف ہے جو صحیح نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیٹ ہر ایک مذہب کا یکساں احترام کرتا ہے اور ہر ایک کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے‘‘)۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ ہندستان میں ہندو راشٹر اور ہندو اسٹیٹ کے حامی ہیں۔ اس لئے وہ سیکولرزم کا لفظ تک سننا گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ وہ سیکولرزم، سوشلزم اورڈیموکریسی جو دستور ہند کا جز ہے اسے تسلیم کرکے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ پیرزادہ صاحب کو یہ ضرور معلوم ہے کہ موجودہ سیاست، جھوٹ، فریب، دھوکہ کا مرکب ہے۔ یہ کوئی ایسی سیاست نہیں ہے جس کیلئے جان کی بازی لگائی جائے یا جان دے دی جائے۔ یہ سیاست اخلاق اور دینداری سے پرے ہے۔ علامہ اقبال نے سچ ہے: ’’جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا- جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ ان حقائق کے باوجود ایک بڑی بات ہے کہ ایک پارٹی جس نے مغربی بنگال میں 34سال تک مسلسل حکومت کی ہے اور اپنی سیاست اور حکومت میں مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان بھی پہچاننے سے قاصر رہی ہو۔ اس کیلئے الگ سے کوئی وزارت، کمیشن بنانے سے بھی کتراتی رہی ہو۔ اپنی حکومت کے دور آخر میں مجبوراً مذکورہ چیزوں پر راضی ہوئی۔ جب وہ کمزور و نامقبول اور روبہ زوال تھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مغربی بنگال کے مسلمانوں کے بارے میں بتایا کہ ’’یہاں مسلمانوں کی حالت دوسری ریاستوں سے بھی بدتر ہے‘‘۔ اور ملک بھر کیلئے لکھا ہے کہ ’’مسلمانوں کی حالت شیڈول کاسٹ سے بھی زیادہ خراب ہے‘‘۔اس حقیقت کے باوجود پکے کمیونسٹوں یا ان کی پارٹی کے بارے میں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ وہ اور ان کی پارٹی ملک کے دوسرے سیاستدانوں اور پارٹیوں کے مقابلے میں بی جے پی کے سب سے زیادہ خلاف ہے۔ بی جے پی بھی مسلمانوں کے بعد سب سے زیادہ کمیونسٹوں کے خلاف ہے۔
آر ایس ایس کے سابق سنچالک گولوالکر اپنی کتاب ’’گوشۂ خیالات‘‘ (The Bunch of Thoughts) میں لکھا ہے کہ ’’ہندستان اور ہندوؤں کے تین بڑے دشمن ہیں مسلمان، کمیونسٹ اور عیسائی‘‘۔ سنگھ پریوار والے گولگوالکر کی اس بات پر نہ صرف اتفاق کرتے ہیں بلکہ عمل بھی کرتے ہیں۔ اچھے اور سچے کمیونسٹوں کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ بدعنوانی یا گھوٹالے میں دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ملوث نہیں ہیں۔ کمیونسٹوں میں جو پکے کمیونسٹ ہیں پکے مسلمانوں اور سچے اسلام کے بارے میں اس کی رائے اچھی نہیں ہے۔ وہ ایسے مسلمانوں کو جو سختی کے ساتھ اپنے دین پر قائم ہوتے ہیں انھیں بنیاد پرست کہتے ہیں۔ اور مذہب کو بشمول اسلام افیون سے تعبیر کرتے ہیں۔ مارکسی پارٹی اس وقت کمزور ہے اور مسلمان اس کی طرف مائل نہیں ہیں ۔ پیری اور مریدی کرنے والے عام طور پر لچک دار ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مارکسی پارٹی نے ایسے غیر بنیاد پرست اور لچکدار مسلمان کو اپنے لئے غنیمت سمجھا ہے۔
پرمود داس گپتا جو سی پی ایم کے سکریٹری رہ چکے ہیں اور مارکسی پارٹی کے نظریہ ساز ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ’’ مغربی بنگال میں جب تک پیر پیغمبر کے اثرات ختم نہیں ہوں گے کمیونزم کی ترقی ممکن نہیں ہے‘‘ (روزنامہ آنندو بازار پتریکا)۔ کمیونسٹوں میں ایک رائے یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی لوگوں سے دور رہنا چاہئے۔ دوسری رائے ہے کہ سب مذہبی آدمی یکساں نہیں ہوتے۔ مارکسی پارٹی کے بہت بڑے لیڈر، کیرالہ کے سابق وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے نظریہ ساز کامریڈ نمبودری پد، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور خان عبدالغفار خان کو مذہبی آدمی سمجھتے ہوئے بھی انسانوں کی بھلائی کا علمبردار سمجھتے تھے اور قابل قبول شخصیتوں میں شمار کرتے تھے(پیوپلز ڈیموکریسی)۔ پیرزادہ کیلئے بہت اچھا اور سنہرا موقع ہے کہ وہ سیاسی میدان میں اپنے آپ کو ایک اچھے اور سچے مسلمان کی طرح عملاً پیش کریں اور اسلام کی صحیح نمائندگی کریں۔
چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ صرف چند منٹوں کیلئے اپنے پڑوسی جناب شہنشاہ جہانگیر کی رہائش گاہ پر حسن اتفاق سے پیرزادہ عباس صدیقی صاحب سے خاکسار کی ملاقات ہوگئی۔ ان کو میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کو یکساں بتانا حق اور سچائی کے خلاف ہے۔ بی جے پی ایک انسان دشمن اور ملک دشمن جماعت ہے۔ ترنمول کانگریس نہ انسان دشمن ہے اور نہ ملک دشمن ہے۔ اس پارٹی میں جو کرپشن ہے یا دوسری خامیاں اور خرابیاں ہیں اس کو سراہا نہیں جاسکتا، مگر کم خراب (Lesser Evil) کے درجے میں شمار کیا جاسکتا ہے اور بی جے پی کے مقابلے میں اسے پسند کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ اس وقت یہ واحد پارٹی ہے جو بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے اور بی جے پی بھی اسی پارٹی سے نبرد آزما ہے۔ موصوف نے Lessr Avil کی بات پر خاموشی برتی۔لیکن ان کے رفیق کار نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ سیاسی اتحاد اگر ترنمول اور کانگریس کو ایک ہی سکہ کا دو رخ کہتا ہے اور ایک ہی ترازو میں تولنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کی سیاسی مجبوری ہے۔ لیکن حقیقت ہرگز نہیں ہے۔ پیرزادہ صاحب مسلمان ہیں۔ ان کے آباء و اجداد کا اچھا پس منظر ہے۔ ان کو شہادتِ حق (سچ کی گواہی) دینا چاہئے۔ جھوٹی گواہی کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہت سخت لعنت و ملامت کی گئی ہے۔ اس وقت جو صورت حال مغربی بنگال میں ہے بی جے پی کو ہرانے کیلئے ترنمول کانگریس کی حمایت ضروری ہے۔ سیاسی اتحاد کے امیدوار جہاں بی جے پی کے امیدوار کو ہرانے کی پوزیشن میں ہوں ان کو بھی ووٹ ضرور دینا چاہئے۔ اس وقت مسلمانوں کیلئے یہی سیاسی حکمت عملی ضروری ہے۔ بی جے پی مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم چاہتی ہے۔ اگر کوئی پارٹی یا امیدوار اس تقسیم کیلئے کوشاں ہے تو وہ مسلمانوں کا دوست نہیں دشمن ہے۔ اور بی جے پی کا حامی اور مددگار ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here