مولانا سید محمد علی زیدی
انسانی زندگی میں یہ سبھی کے ساتھ ہوتا ہے کہ کبھی خوشی ملتی ہے تو کبھی غم سے دوچار ہونا پڑتا ہے یہ بات الگ ہے کہ کبھی خوشی زیادہ ہوتی ہے اور غم کم ہوتا ہے اور کبھی غم زیادہ ہوتا ہےاور خوشی کم ہوتی ہے لیکن اگر پوری انسانی زندگی دیکھی جائے تو اس پر غم کا ہی غلبہ نظر آتا ہے بالخصوص اہل تشیع میں خوشی پر غم بھاری ہوتا ہے خود معصومین علیھم السلام کی زندگی میں بھی غم نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے.
بہرحال “خوشی اور غم” کے عنوان کے تحت بیش بہا اور قیمتی سلسلہ وار مضامین کے لئے ہم سچے بےباک اور حق و حقانیت کے علمبردار روزنامہ “اودھ نامہ” کے شکر گزار ہیں اور ساتھ ساتھ سربراہ جامعۂ ناظمیہ شفیق استاد و استاذ الاساتذہ مفکر و محقق بزرگ عالم دین سرکار امیر العلماء آیۃ اللہ مولانا سید حمید الحسن صاحب قبلہ حفظہ اللہ کے بھی شکرگزار ہیں کہ جو اپنی دیگر دینی مصروفیات کے باوجود اپنے علم و تجربات کی روشنی میں بہترین مضامین قلمبند کرکے نذر قارئین فرمارہے ہیں کہ جن میں ادب کی چاشنی بھی ہے تاریخی حقائق بھی ہیں منطقی استدلال بھی ہے قرآن و حدیث کا امتزاج بھی ہے عقل کی کسوٹی پر پرکھ بھی ہے، جاذبیت بھی ہے جالبیت بھی ہے اخلاق بھی ہے بھائی چارگی بھی ہے مذہب بھی ہے انسانیت بھی ہے انسانی ہمدردی بھی ہے حق بھی ہے حقانیت بھی ہے خالق کا ذکر بھی ہے مخلوق کا تذکرہ بھی ہے تدبر بھی تدبیر بھی ہے جرأت بھی جذبہ بھی ہے درس بھی ہے عبرت بھی ہے نظریات بھی ہیں اور بدیہیات کی برجستگی بھی ہے اسی ایک مالک و خالق کی عبادت بھی ہے اور مخلوق کے لئے دلسوزی بھی ہے مختصر یہ کہ قاری کے ذہن پر بار نہیں ہوتا جب کوئی پڑھنا شروع کرتا ہے تو پورا پڑھے بغیر نہیں رہتا، غرض خوشی اور غم بھی ہے تو وہ بھی صبر و شکر کے آئینہ میں ہے جس کا محور بس اور بس منعم حقیقی کی ذات ہے کہ جس کی طرف ہم سب کی باز گشت ہے،اگر مذکورہ مضامین کتابی صورت میں یکجا ہوجائیں تو مستقبل میں بھی استفادہ کیا جاتا رہے گا.
آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ وہ روزنامہ “اودھ نامہ” کے اراکین کو ہمت و حوصلہ کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہےاور جناب کے سایہ کو تادیر برقرار رکھے تاکہ مومنین برابر ان کے فیوض و برکات و کرامات سے استفادہ کرتے رہیں آمین.
مدرس جامعۂ ناظمیہ لکھنؤ
ضضضض