9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
یہ کہا گیا تھا کہ کورونا چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا تھا لیکن آج اپنی ریاست اتر پردیش کے بعض ،شہروں کا جو حال ہے اس سے لگتا ہے یہ تمام شہر ہی ووہان بنتے جا رہے ہیں۔حالات کی سنگینی کا اندازہ خود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے کورونا پازیٹو ہونے کی خبر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ریاست کی دوسری سب سے بڑی پارٹی سماجوادی پارٹی کے سربراہ کے بھی کورونا پازیٹو ہونے کی خبریں ہیں راجدھانی لکھنؤ کے اسپتالوں میں بھی کورونا مریضوں کا داخلہ اور علاج مشکل ہو رہا ہے۔ کل لکھنو کے ایک معروف نرسنگ ہووم کے مالک نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ ڈالی تھی کہ ان کے پاس صرف ایک گھنٹہ کا آکسیجن ہے اور آکسیجن کہیں مل نہیں رہی ہے۔انھوں نے آخر میں لکھا تھا کہ ہم کورونا سےنہیں سسٹم سے ہارے ہیں۔
نرسنگ ہوم کے مالک کی یہ پوسٹ ریاست میں مریضوں اور علاج و معالجہ کی صورت حال کا جازئہ لینے اور سمجھنےکے لئے کافی ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جولوگ ویکسین کی دونوں خوراک لے چکے ہیں ان میں کافی لوگ پازیٹو پائے جا رہے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کورونا کی دوا بھی کسی نہ کسی سبب سے کام نہیں کر رہی ہے۔ایسے حالات میں کورونا سے بچنے کی صرف اور صرف ایک تدبیر باقی رہ جاتی ہے، اور وہ ہے سخت سے سخت احتیاط، لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ ریاست کے عوام کو کورونا گائیڈ لائین پرعمل کی تلقین کرنے والے خود اس پر عمل نہیں کر پا رہے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل کانگریس اور سماجوای پارٹی نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر الزام لگایا تھا کہ وہ کووڈ مریضوں کے رابطے میں آنے کے باوجود احتیاط نہیں برت رہے ہیں اور مغربی بنگال و آسام کے اسمبلی الیکشن میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم میں شرکت کر رہے ہیں۔ جس وقت وزیر اعلیٰ پر یہ الزام لگایا گیا اس وقت تک انھوں نے اپنا کورونا ٹسٹ بھی نہیں کرایا تھا۔ بہرحال اب جبکہ ٹسٹ رپورٹ میں وہ کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں تو انھیں آئیسولیشن میں جانا پڑا ہے۔
ریاست میں جس طرح کی پالیسی کورونا کے تعلق سے اپنائی جا رہی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔یہ پہلے بھی کئی بار لکھا جا چکا ہے کہ ریاست میں تمام عبادتگاہوں میں زیادہ سے زیادہ پانچ افراد ہی جمع ہو سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کسی بھی عمارت کے اندر ہونے والے دیگر پروگراموں کے لیے 100 افراد تک جمع ہو سکتے ہیں۔ اب یہ عبادتگاہوں اور دیگر پروگراموں میں جمع ہونے والوں کے لیے الگ الگ پیمانہ کیوں طے کیا گیا ہے، اس کی وضاحت شاید ہی کوئی کر سکے۔ اس سے تو یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ عبادتگاہیں کورونا پھیلانے میں زیادہ منفی رول ادا کر رہی ہیں اور دیگر سیاسی سماجی یاثقافتی پروگراموں میں بھیڑہونے کا کوئی فرق کورونا کی صورتحال پر نہیں پڑتا۔
کورونا پھیلاؤ کے معاملے میں کمبھ سے آرہی رپورٹیں بھی باعث تشویش ہیں۔ اس کمبھ میں لاکھوں افرادنے شرکت کی ہے۔ باعث تشویش پہلو یہ بھی تھاکہ کمبھ میں شریک عقیدتمند نہ تو اپنے طور پر کورونا گائڈ لائن پرعمل کر رہے ہتھے اور نہ ہی حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے میں ان پر قانون کی عمل آوری کرائی جا رہی تھی۔ جبکہ عوامی مقامات پر بغیر ماسک کے گھومنے پر سخت پابندی ہے اور مختلف ریاستوں کی پولیس ایسے افراد پر جرمانہ بھی کر رہی ہے، لیکن کمبھ سے متعلق جو تصاویر منظر عام پر آرہی ہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں شامل افراد سوشل ڈسٹینسنگ تو دور کی بات ہے ماسک تک کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ صرف چار روز یعنی 10 سے 14اپریل کے دوران یہاں دو ہزار سے بھی زیاد کورونا متاثرین سامنے آئے ۔اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی اور تبلیغی جماعت پر شور مچانے والی میڈیا اس پر کیوں خاموش ہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلی کے جو بیانات ہمارے دفترمیں روزانہ موصول ہوتے ہیں اس سے یہ تو اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کورونا کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔ان کے بیانات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کسی بھی طرح کی ڈھلائی کو برداشت نہیں کریں گے۔وہ مسلسل اپنے افسران اوروزرا کو تلقین بھی کر رہے ہیں اورخود مشورے بھی دے رہے ہیں ۔لیکن انھیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان کی ہدایات پر کتنا عمل کیا جا رہا ہے۔چاہے وہ صفائی کا مسئلہ ہو یا دوائی کامسئلہ ہو۔ایمبولین کا مسئلہ ہو یا آکسیجن کا مسئلہ۔ہر طرف سے شکایات موصول ہو رہی ہیں۔حکومت نے جتنے انتظامات کئے ہیں وہ ناکافی اس لئے بھی ثابت ہو رہے ہیں کہ عوام اس معاملہ میں اتنے سنجیدہ نظر نہیں آ رہے ہیں سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اپنوں کو کھو دیا ہے یا ان کاکوئی اپنا داخل اسپتال ہے۔بد نظمی کے لئے کسی ایک طبقہ کو کوسنے کے بجائے ہر شخص کو اپنے حصہ داری کو نباہنا ہوگا۔