محمد اسد
جھاڑے کا موسم تھا، سرد ہواؤں کی رفتار میں مزید لہر اٹھ گئی تھی۔ سارا شہر ویرانیوں کا شکار ہوا تھا۔ عجیب سی کیفیت طاری ہوئی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ صدیوں سے یہ بستیاں ویرانیوں کی لپیٹ میں آ گئیں ہیں۔غمخواری کے ہاں تو پہاڑوں کہ پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ ٹوٹیں بھی کیسے نہ پیٹ کی آگ کس قدر برداشت کرتے، چولھے میں پانی پڑا ہوا تھا۔ دکھی کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔ او ماں بہت بھوک لگی ہے۔ ذرا کچھ کھانے کو دو۔ غمخواری سہمی آواز میں ’’ہاں بیٹا دکھی دیتی ہوں ذرا صبر تو کرؤ۔‘‘ ’’ماں زبان تو بند کرؤں لیکن اس کہ بند کرنے سے بھوک پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس آفت سے کس قدر چھٹکارا حاصل کروں، تن کو سزاؤں میں مبتلا کر سکتا ہوں،برہنہ پا ان گلی کوچوں میں چکر کاٹ سکتا ہوں، خوشیوں کی محفلوں کو چھوڑ کر خلوت نشینی اختیار کر سکتا ہوں، مگر ماں پیٹ کی آگ سے کیسے جنگ کروں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ برسوں سے نوالہ نصیب نہیں ہوا۔‘‘’’ او دکھی جگر پہلے سے چھلنی ہے۔ کیوں موے مجھے ختم کرنے پہ تلا ہے۔ آشو کو دیکھ شیر کی بوند تک نصیب نہیں ہوتی بیچارہ اف تک نہیں کرتا، اور ایک توہے جو بھوک سے اوتاولا پڑا ہے۔ ماں اگر میرے منہ میں زبان نہ ہوتی تو اچھا تھا۔ میں کبھی کھانے کی مانگ نہ کرتا اور نہ تجھے پریشانیوں اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ دکھی توں آ شو کا خیال رکھنا میں ذرا رائے صاحب کے گھر سے ہو کر آتی ہوں، ان کے ہاں روشنی ٹمٹما رہی ہے، شاید کچھ کھانے کومل جائے۔ رائے صاحب کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی، بڑے غضبناک عالم میں طوفان کی مانند گرجتے ہوئے بولے کس کی موت آئی ہے،جو رات کے دس بجنے کو آئے ہیں اور دستک دی۔ رائے صاحب میں غمخواری ہوں۔ ارے کوئی سنتا ہے، دروازہ کھولو۔ نوکر نے دروازہ کھولا، میں گردن جھکائے ہوئے رائے صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میری نگاہیں ان کہ قدموں کی جانب جھکی ہوئی تھیں، اور ذہن میں یہ خیال کہ اب وجہ پوچھیں گے۔ رائے صاحب۔۔۔’’ او غمخواری ہاتھوں میں مہند لگی ہے کیا؟ نہیں رائے صاحب ایسا تو ہر گز نہیں۔ پھر تم جو آ گئی ہو ہمارے گھر کی صفائی تو کرتی جاؤ، ہماری حسن بانو کی طبیعت ناساز ہے۔‘‘’’جی رائے صاحب جیسا آپ کا حکم ۔مالک میں کرتی ہوں۔ ‘‘صفائی کرتے وقت غمخواری کہ ذہن میں دکھی کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ رائے صاحب۔۔ ’’صفائی مکمل ہو جائے تو ہمیں بتانا کس کام سے آئی ہو یہاں۔ ‘‘غمخواری۔۔۔’’ جی رائے صاحب‘‘ صفائی کا کام نپٹا نے کے بعد غمخواری نے دھیمی آواز میں کہا ’’بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ اگر کچھ عنایت فرمائیں گے تو ان کا پیٹ بھر سکوں گی‘‘۔’’ او منشی غمخواری کو سیر پاؤ غلہ دینا، بھیکارن خالی نہ لوٹے۔‘‘’’ جی رائے صاحب جیسا آپ کا حکم ۔‘‘ رائے صاحب۔۔۔’’ آج دن لے جاؤ پھر کبھی بھیک والا کاسہ لے کر میری حویلی کی چو کھٹ پر بھی نظر نہیں آنا ۔‘‘غمخواری۔۔ ‘‘برستی ہوئی آنکھوں سے اور گھٹتے ہوئے دم سے سہمی ہوئی آواز میں بولی ’’جیسا آپ کا حکم مالک۔ ‘‘سیر پاؤ اناج لے کر گھر کی طرف اس طرح دوڑ لگائی جیسے چڑیا بچوں کہ گھونسلے کی طرف لوٹ کر آتی ہے۔’’ دکھی بیٹا سوئے تو نہیں میری جان۔ ‘‘’’ماں شعلے بھڑک رہے ہیں، تن بدن میں آگ سی لگی ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے سارا بدن بھلس گیا ہو۔ ماں کھانے کو کچھ لائی ہو یا نہیں؟ ‘‘’’ہاں کیوں نہیں،ضرور لائی ہوں،اتنا صبر کیا میرے جگر کہ ٹکڑے نے تھوڑا اور سہی، تیری ماں ابھی تجھے کھانا دیتی ہے۔ میرے لعل یہ چولھا بھی کیسا سرد پڑا ہے، جیسے برسوں اس نے آگ تک کا منہ نہیں دیکھا۔‘‘’’ او ماں آنکھوں میں دھند سی چھائی ہے۔‘‘’’ دکھی ابھی تیری آنکھوں کا سارا دھندلا پن دور کیے دیتی ہوں۔ آگ جلا دی ہے بیٹا، بس ہنڈیا رکھنے کو باقی ہے۔‘‘ ’’ماںمیرے قریب آجاؤ ‘‘ ۔۔۔۔ ’’کیا ہوا دکھی بیٹا‘‘۔۔۔۔’’ ماں مجھے اپنی گود میں نہیں سلائوگی کیا‘‘۔’’ کیوں نہیں بیٹا، اپنی جھولی میں سر رکھ کر تسلیاں بخشنے لگی، میرا بیٹا پیٹ بھر کھانا کھائے گا آج۔‘‘’’ ماں او میری ماں۔۔۔ ‘‘سسکیاں بھرتے ہوئے ماں کی جھولی میں دکھی کا دم نکل گیا، اور غمخواری کی دنیا سے ہمیشہ کے لیے اس کا چاند اوجھل ہو گیا۔۔۔۔
رابطہ نمبر۔۔۔۔ 6006428177
ضلع، پونچھ