SHE جوان

0
184

[email protected] 

موسی رضا۔  9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


مراد علی شاہد دوحہ قطر

کہتے ہیں جوانی مستانی ہوتی ہے او’’ر مستانی‘‘ ہمیشہ اندھی مگر خاب صورت ہوتی ہے،اس لئے جوانی میں جو بھی کہانی بنتی ہے اندھا دھن ہی بنتی ہے،جوانی میں کہانی بنانے کے لئے بھی جوان ہونا ضروری ہے وگرنہ جس عمر میںانسان کو دل ہارنا چاہئے ہمت ہار بیٹھتا ہے ۔یہ کام تو وہی کر سکتے ہیں جو ’’شیہ جوان ‘‘ہوںناکہ sheجوان۔گائوں میں کڑیل،گھبرو اور بھرپورجوان کو بزرگ پنجابی میں شیہ جوان کہہ کر پکارتے تھے زمانہ بدلتے ہی نوجوانوں نے بھی اپنے اندازواطوار بدلے اور ڈائٹنگ کی مرض میں مبتلا ہو کر sheجوان ہوگئے۔اچھا خاصا خوب رو وضع قطع والا خوش لباس یونہی لب کشائی فرماتا ہے تو ڈائیلانگ ڈلیوری ہی مشکوک کر جاتی ہے کہ محترم کہیں محترمہ تو نہیں۔کچھ تو ڈائیلاگ ڈیلیوری بھی ایسے ہی ادا کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ ڈیلیوری ہو رہی ہو۔sheجوان کی زیادہ تر فصل میک اپ کے شعبہ میں پک کر تیار ہوتی ہے،اس بات کا ادراک مجھے ایک پروگرام ملاحظہ کرتے ہوئے اس وقت ہوا جب اینکر نے میک اپ مین کاشی کو بلایا تو میں سمجھا کوئی خاتون ہے لیکن نہیں وہ خاتون نہیں بلکہ خاتون نما ’’شی جوان‘‘تھا۔ایسے جوانوں کو ہر وہ شے پسند ہوتی ہے جو جوانی میں لڑکیوں کو ،اور تو اور محبت بھی کسی لڑکی سے نہیں اپنے جیسے کسی شی جوان سے ہی کرتے ہیں،کہتے ہیں ہمیں مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئے وہ تو بھلا ہو محلہ کے نائی کا جو ایسے افراد کو یاد کروا دیتے ہیں کہ تم بھی بچپن میں مرد ہی تھے۔شی جوان multi functional ہوتے ہیں.اسی لئے ہر فنگشن میں پیش پیش ہوتے ہیں ،کسی فنگشن میں اگر انہیں کوئی لفٹ نہ کرائے تو یہ پیش بھی پڑ جاتے ہیں۔پھر بھی تسلی نہ ہو تو خود کو پیش کرنے سے بھی گریزپا نہیں ہوتے۔شی جوانوں کی ہمیشہ توجہ اپنے آپ پر ہوتی ہے اسی لئے ہر محفل میں ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
خاموشی ایک نعمت ہے اس قول کے صادق ہونے کا یقین بھی ایسے ہی ایک شی جوان کو دیکھ کر ہوا کہ اگر وہ خاموش رہتا تو بھرم رہتا کہ ایک مرد ہے۔ایسے نوجوان خاموش رہیں تو ماحول بھی خاموش خاموش ہی رہتا ہے۔داڑھی مونچھ اس لئے رکھتے ہیں کہ جوان دکھائی دیں ،ایسے جوان داڑھی رکھنے پر نہیں چبھنے پرمعترض ہوتے ہیں۔ان کی چال ڈھال ہی ان کی ڈھال ہوتی ہے ،یہی چال ڈھال ان کے چال چلن کا پتہ بھی دیتی ہے۔رشتہ کے وقت ایسے جوانوں سے لوگ پیشہ نہیں چال چلن ہی پوچھتے ہیں کہ کہیں پیشہ ور تو نہیں۔کہتے ہیں مرد وہ جو مصیبت میں نہ گھبرائے اسی لئے شی جوان اکثر گھبرائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔مردوں میں ہوں تو مرد اور خواتین میں ہوں تو صنف نازک کی سی صفات عود کو ان کی زبان اور چال میں آجاتی ہیں،اسی لئے مردوزن دونوں میں مقبول عام کی سند رکھتے ہیں۔سارے شی جوان ایسے بھی نہیں ہوتے،بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایرے غیرے شی جوان کو اپنے گھربلانے سے اجتناب بہتر ہے،یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میرے اپنے محلہ میں ایسے شی جوان کی پانچ سال قبل شادی طے ہو گئی تو سب اہل محلہ مذاق اڑاتے تھے کہ اس کی بارات جائے گی یا آئے گی،پانچ سال بعد بھی اسے پر اہل محلہ ہنستے ہیںکہ پانچ سال میں پانچ بچے اس کے اپنے ہی ہیں کیا؟اس لحاظ سے اسکی آمدن اور افزائش نسل کا نتیجہ سو فیصد ہے۔ایسے جوان خواتین کی کئی تنظیموں کے ممبر بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہیومن رائٹس کی تنظیم بھی چلا رہے ہوتے ہیں۔ہمیں ایسے نوجوانوں کا مکمل خیال رکھنا چاہئے کیونکہ وہ بھی مشکل وقت میں ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ایسا جوان دور ہو ،تو پتہ نہیںچلتا کہ آرہا ہے یا جا رہی ہے،دور ہو تو ہر کوئی نزدیک بلانا چاہتا ہے اور نزدیک آجائے تو سب دعا گو ہوتے ہیں کہ جائے گا کب۔sheجوانوں کی اکثریت کانونٹ سے فارغ التحصیل ہوتی ہے اس لئے ایسا پروفیشن اپناتے ہیں جس میں زیادہ وقت فارغ ملے،اس لئے فراغت میں فرقت اور فرقت میں فراغت والے کام کی لگن میں رہتے ہیں۔انگریزی ایسے بولتے ہیں جیسے میرا اردو میں بات کرتی ہے اور اردو ایسے جیسے میرا انگریزی بولتی ہے۔وقت ملے تو ایسے جوانوں میں ضرور بیٹھا کریں تاکہ انہیں احساس رہے کہ وہ بھی مرد ہی ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here