شراب نوشی کی وجہ سے خواتین پر تشدد کا بڑھتا گراف

0
305

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: روپی

ملک میں خواتین کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کے حوالے سے حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این۔ایف۔ایچ۔ایس۔ فائیو) میں کئی چونکا دینے والے انکشافات ہوئے ہیں۔ سروے کے مطابق 18 سے 49 سال کی عمر کی تقریباً 30 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں 15 سال کی عمر کے بعد جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 6 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن ان میں سے صرف 14 فیصد خواتین اپنے ساتھ جسمانی یا جنسی تشدد کے بارے میں بات کرنے کے لیے آگے آئی ہیں۔ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شراب پینے والے 70 فیصد لوگ اکثر اپنی بیویوں کے ساتھ جسمانی یا جنسی تشدد کرتے ہیں۔ خواتین پر جسمانی تشدد کے 80 فیصد سے زیادہ واقعات میں شوہر کو ذمہ دار پایا گیا ہے۔خواتین پر گھریلو تشدد کے زیادہ تر واقعات میں شراب منظر عام پر آئی ہے۔ خواتین کی شکایت ہے کہ شوہر نے شراب پینے کے بعد ان پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ ایسے کیسز کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں دیکھی جاتی ہے۔ مالپور گاؤں راجستھان کے ادے پور ضلع سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر، سالمبر بلاک سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جہاں مردوں میں شراب کی بڑھتی ہوئی لت خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ یہاں کے زیادہ تر مرد شراب کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس گاؤں کے 60 فیصد لوگ نہ صرف شراب پیتے ہیں بلکہ خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد بھی کرتے ہیں۔ مار پیٹ اور گالی گلوچ سے پریشان گاؤں کی ایک خاتون پوجا (نام بدلا ہوا) کہتی ہیں کہ ہمارے گاؤں میں شراب پینے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شراب نے گاؤں کے سماجی ماحول کو اس حد تک آلودہ کر دیا ہے کہ اب چھوٹے بچے بھی اسے پینے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ نہ صرف گھر میں لڑتا رہتا ہے بلکہ تعلیم سے بھی دور رہتا ہے۔ بہت سے نابالغ بچے شراب پی کر غلط صحبت میں پڑ کر اپنی قیمتی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ شراب کے بڑھتے ہوئے نشے کی وجہ سے گاؤں کی بدنامی ہونے لگی ہے اور کئی لڑکوں کی شادیاں تک ٹوٹ چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

کیا خوشیوں کی سواری پھر آئے گی؟

ایک اور خاتون انیتا (بدلیا ہوا نام) کہتی ہیں کہ گاؤں کے اکثر مرد کوئی کام نہیں کرتے بلکہ شراب نوشی کرتے ہیں اور پھر نشے میں دھت ہو کر خواتین سے لڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم گھر چلانے کے لیے کام پر نکلتے ہیں تو ہمارے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ جب ہم کام کے بعد گھر آتے ہیں تو سکون سے کھانا بھی نہیں ملتا، اسی وقت میرا شوہر نشے میں دھت گھر آتا ہے اور جھگڑا شروع کر دیتا ہے۔ خاندان اور بچوں کی خاطر ہم اس تشدد کو خاموشی سے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ گاؤں کی ایک اور خاتون نرمل (نام بدلا ہوا ہے) کہتی ہیں کہ میرے شوہر کام پر باہر جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو نشے میں دھت آتے ہیں۔ پھر مجھ سے لڑتے ہیں۔ یہی نہیں اس لڑائی کے دوران وہ میرے کردار پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ تقریباً روزمرہ کی بات بن گئی ہے۔ اس سے پریشان ہو کر میں نے ایک بار گھر چھوڑنے کا فیصلہ بھی کیا۔ پھر اپنے چھوٹے بچوں کے مستقبل کی خاطر میں گھر سے باہر نہ نکل سکی اور آج تک تشدد کا نشانہ بن رہی ہوں۔شراب کی بڑھتی ہوئی لت کی وجہ سے گاؤں کا سماجی تانے بانے پوری طرح سے بگڑ رہا ہے۔ پانچ سال قبل دو افراد نے نشے کی حالت میں خودکشی بھی کی تھی۔ حالانکہ گاؤں کے نوجوانوں کو شراب کی برائی اور اس سے ہونے والی بیماریوں کے بارے میں مکمل علم ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی وہ شراب پینا نہیں چھوڑتے ہیں۔ اس نشے کی وجہ سے گاؤں کے نوجوان اپنی نوکری یا کوئی بھی کاروبار چھوڑ کر اسی میں مگن رہتے ہیں۔ نوجوان ٹولیاں بنا کر غیر ضروری طور پر ادھر ادھر گھومتے رہتے ہیں۔ گھر کی معاشی حالت خراب ہونے کے بعد بھی وہ نشہ کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔

گاؤں کی ایک اور خاتون راکھی (نام بدلا ہوا ہے) کہتی ہیں کہ اس گاؤں کے تقریباً تمام مرد شراب نوشی کرتے ہیں اور اپنی بیویوں سے زبردستی تعلقات استوار کرتے ہیں۔ جب وہ حاملہ ہو جاتی ہے تو وہ اس سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ بچے کو رکھنا ہے یا نہیں؟ ان کا خیال کیسے رکھا جائے؟ وہ ایسی حالت میں ہے کہ اس حالت میں کسی بھی عورت کو اپنے لیے کچھ نہیں ملتا اور ان کے 7 سے 8 بچے ہوتے ہیں۔ جبکہ گھر میں آمدنی کے زیادہ ذرائع نہیں ہیں۔ ایسے میں بچوں کو نہ تو اچھی تعلیم ملتی ہے اور نہ ہی انہیں مناسب غذائیت سے بھرپور خوراک ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین کو اپنے خاندان کی پرورش میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم شراب نہ صرف صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ تمام برائیوں کی جڑ بھی ہے۔ اس سے کئی خاندان برباد ہو چکے ہیں۔ اس وقت ملک کی واحد ریاستیں گجرات اور بہار ہیں جنہوں نے اس برائی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ تاہم بہار میں بھی کچھ ناکامی دیکھنے میں آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں بہار میں جعلی شراب پینے سے کئی لوگوں کی موت بھی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے بڑے پیمانے پر اس برائی کو روکنے میں مدد کی ہے۔ دوسری ریاستوں کو بھی ایسی ہی پالیسی یا منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس برائی کو لوگوں کے اندر بڑھنے سے روکا جاسکے تاکہ معاشرے کے بگڑتے نظام کو سنبھالا جاسکے۔

ادے پور، راجستھان

(چرخہ فیچر)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here