شمع ظفر مہدی کی شاعری- ماہ گرفتہ کے حوالے سے

0
1517

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: الفت ریاض

دنیا جب سے وجود میں آئی ہے تب سے لے کر آج تک خواتین نے ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ نظام حیات میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں جو رنگ و آہنگ ہے اور جتنی بھی رونقیں ہیں وہ عورتوں ہی کے دم سے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں”

یہ بھی پڑھیں

عصرِ حاضر میں جاں نثار اخترؔ کی شاعری کی معنویت

اسی طرح اگر ہم ادب پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی ہمیں صنف نازک کا کردار مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں نے اپنے اپنے انداز میں عورتوں کو پکارا ہے۔ ادب میں جہاں ایک طرف خواتین کے ذکر سے بے شمار ادب پارے ملوث ہیں وہیں دوسری طرف وہ خود بھی ادب کی تخلیق کار ہیں۔

ڈاکٹر شمیم نکہت اپنے مضمون ادب اور خواتین میں لکھتی ہیں ۔
’’ادب اور خواتین پر جب گفتگو ہوتی ہے تو میرے ذہن میں بار بار یہ بات آتی ہے کہ ادب میں عورتوں کے Contribution کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ادب کی تخلیق میں خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ نگاری عورت کو اوّلیت حاصل ہے۔ اور شاید یہ اوّلیت ازل سے اس کے حصّے میں آئی ہے۔ یعنی دنیا کی پہلی شاعرہ لازماً عورت ہوئی ہوگی، اس لیے کہ رات میں بچّے کو بے چین دیکھ کر اس کے ہونٹوں سے بے اختیار لوری کے نغمے پھوٹ پڑے ہوں گے۔ اسی طرح ننھے منے بچوں کو سلاتے وقت ماں نے چھوٹی موٹی کہانیاں بھی سنائی ہوں گی، یہ الگ بات ہے کہ یہ لوریاں یا کہانیاں تحریر میں نہ آئی ہوں لیکن ان کی تخلیق میں اوّلیت کا سہرا عورت ہی کے سر ہے۔‘‘(ص۔ 103 ، تاثرات، ڈاکٹر شمیم نکہت)

اردو زبان و ادب کو بجا طور پر یہ فخر حاصل ہے کہ ابتداء ہی سے اس کی آبیاری میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کم کم ہی سہی لیکن انہوں نے تقریباً ہر ادبی اصناف میں اپنی حاضری دی ہے۔ نثر میں ڈاکٹر رشید جہاں، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور، صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، خدیجہ مستور، جیلانی بانو، زاہدہ حنا، ممتاز شیریں اور شاعرات میں ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، بانو داراب وفا، زاہدہ زیدی اور زہرہ نگاہ وغیرہ کے نام قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ آج بھی اردو کے دامن میں ایسی خواتین موجود ہیں جنہوں نہ صرف اردو زبان کو اظہار کا سہارا بنایا بلکہ اس کی ترقی کے لئے مسلسل کوشاں بھی ہیں۔

انہیں خواتین میں ایک نام شمع ظفر مہدی کا بھی ہے۔ جو نام و نمود کی خواہش کے بغیر خود نمائی کے جذبے سے بے نیاز خاموشی سے ادب کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

شمع ظفر مہدی 15 دسمبر 1943 کو بہار پور (امیٹھی) اتر پردیش کے ایک معزز علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔

شمع ظفر کے والد ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور علم و ادب کی دلدادہ شخصیت تھے ۔ نہ صرف بیٹوں بلکہ بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوانے کے قائل تھے۔ان کی مرضی اور سرپرستی سب کو حاصل تھی۔ شمع ظفر کو بھی اپنے والد کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ انھوں نے لکھنؤ کے کرامت حسین مسلم گلرز کالج سے بی اے کیا جبکہ ایم اے اپنی شادی کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا۔

شمع ظفر کے گھر کا ماحول ادبی تھا ۔ والد بھائی بہن سب ادبی ذوق رکھتے تھے۔ خوش نصییبی دیکھئے شادی کے بعد سسرال بھی ایسا ملا جہاں ہر کوئی ادب شناس تھا۔ گھر میں شعر و شاعری کا ماحول بنا رہتا تھا۔ شمع ظفر کے سسر رزم ردولوی ایک بڑے شاعر تھے ۔ ساس مزہبی شاعری کرتی تھیں۔ مشہور شاعر و نقاد باقر مہدی ان کے جیٹھ اور ان کے چھوٹے بھائی اپنے زمانے کے مشہور صاحب دیوان قادرالکلام شاعر ظفر مہدی ان کے شوہر تھے۔ اس کے علاوہ نندیں بھی شعر و شاعری کا شغف رکھتیں تھیں۔

شمع ظفر کا تعلق ایک تعلق دار گھرانے سے ہے۔ جہاں آسودگی اور وضع داریاں تھیں۔ گھر میں مذہبی اور ادبی ماحول رچا بسا تھا۔ شمع ظفر نے اپنے پچپن سے میر انیؔس کے مرثیے اور نجم آفندی کے نوحے پڑھے اور سنے۔ گھر میں کئی اردو ادبی رسائل جیسے “ادب لطیف” ، “ساقی” ، فنون” ، “عصمت” ، “کھلونا” ، شمع” وغیرہ ماہانہ آتے تھے۔ چاندنی راتوں میں گھر کے بڑے سے آنگن میں بیٹھ کر گھر کے تمام افراد ریڈیو پر مشاعرے سنا کرتے تھے۔ شمع ظفر کا بچپن اور نو عمری کا زمانہ اسی ادبی فضا میں گزرا۔ ایسے میں ان کی شاعری کی طرف رغبت فطری تھی۔

شمع نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ وہ اپنی کہانیاں “کھلونا” رسالے میں بھیجتی تھی ۔ شادی کے بعد الہاباد قیام کے دوران انھوں نے مختلف موضوعات پر کہانیاں ریڈیو پر بھی دی۔ ان کی کچھ کہانیاں رسالہ” بیسویں صدی” اور الہاباد کے ایک رسالے ” فسانہ” میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن اردو ادب میں ان کا اصل مقام ایک شاعرہ کی حیثیت سے ہے۔

شمع ظفر مہدی شادی کے بعد شوہر کے ساتھ الہاباد چلی گئیں تھیں اسکے بعد وہ برسوں تک (سعودی عرب) میں رہیں۔ فی الحال شمع کافی سالوں سے لکھنو ہی میں رہتی ہیں۔

شمع ظفر مہدی کا مجموعہ کلام “ماہ گرفتہ” ۲۰۱۰ میں شائع ہوا تھا۔ جس کو انھوں نے محبت کرنے والوں کے نام کیا ہے۔ ایسا میں اس لئے نہیں لکھ رہی کیونکہ انھوں نے اس کے انتساب میں ” محبت کرنے والوں کے نام ” لکھا ہے بلکہ یہ رائے میں نے ماہ گرفتہ کا دو دفعہ مطالعہ کرنے کے بعد قائم کی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ شاعری شمع کو ورثے میں ملی تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ‏شمع ظفر کے پچپن کا پسندیدہ مشغلہ تھا بلکہ انھوں نے تو بہت کم عمری ہی میں شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ جب لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا تب بھی وہ پھولوں، پریوں، تتلیوں وغیرہ پر شاعری کرتی اور زبانی ہی بھائی بہنوں کو سناتی۔ قلم اور کاغذ ہاتھ میں آیا تو تمام توجہ تعلیم کی طرف مرکوز ہو گئی۔ لیکن شعر کہنے کی صلاحیت ان میں اس وقت بھی موجود تھی ۔ یہ صلاحیت اس وقت سامنے آئی جب میٹرک کے بعد مہظ سترہ برس کی کم عمری میں شمع ظفر کو ماں جیسی ہستی سے محروم ہونا پڑا۔ ماں کی جدائی کا کرب لفظوں کی صورت چھلکا اور انھوں نے دل کے درد سے بیتاب ہو کر اپنی پہلی نظم “امی کی یاد” لکھی۔

خوشبوئیں کس کی لئے بادصبا آتی ہے
یاد کی تو دل غمگیں میں بڑھا جاتی ہے
اب بھی جلتا ہے کسی دل میں محبت کا چراغ
پردۂ خاک سے چھن چھن کے ضیا آتی ہے
نرم ہونٹوں سے چھوا کس نے یہ پیشانی کو
دل مجروح کی تسکین ہوئی جاتی ہے
ہار سنگھار کے پھولوں میں تری خوشبو ہے
تیری آواز ہواؤں سے ابھی آتی ہے

(ص۔ ۱۷۸، ماہ گرفتہ)

یہ ان کی پہلی تحریر کردہ نظم ہے۔ جس وقت انھوں نے یہ نظم لکھی اس وقت ان کی عمر سترہ برس کی رہی ہوگی لیکن اس پوری نظم میں جس طرح سے شمع ظفر نے اپنے احساسات وجذبات کو خوبصورت تشبیہوں اور استعاروں کی مدد سے لفظوں کا جامہ پہنایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ خاص طور سے ان کے اس شعر ” اب بھی جلتا ہے کسی دل ۔۔۔۔چھن چھن کے ضیا آتی ہے” کو داد دیتے بنتی ہے۔ نظم کے مطالعہ سے اس وقت کی ان کی کیفیت کا مکمل اندازہ تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتو کا بھی پتہ چلتا ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شمع نے یہ نظم کسی ارادے یا خواہش کے تحت نہیں لکھی تھی بلکہ یہ تو ایک عالم بے اختیار تھا جس نے ان سے یہ نظم لکھوائی۔ وہی عالم بے اختیار جو صرف ایک شاعر پر ہی طاری ہو سکتا ہے اور جس کا ذکر شبلی نعمانی نے بھی کیا ہے۔

شاعر کے جذبات اور احساسات ، فطرتاً نہایت نازک، لطیف اور سریع الاشتعال ہوتے ہیں، دوست کی جدائی ہر شخص کے دل پر اثر کرتی ہے لیکن شاعر اس موقع پر بالکل بیتاب ہو جاتا ہے، دریا کی روانی سے ہر شخص محظوظ ہوتا ہے لیکن شاعر پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، سبزہ کو دیکھنے سے ہر شخص کو فرحت ہوتی ہے لیکن شاعر جھومنے لگتا ہے، ممکن ہے کہ اس درجہ کی کیفیت دوسروں پر بھی طاری ہو لیکن وہ لوگ اس کیفیت کو الفاظ کے ذریے اس طرح ادا نہیں کر سکتے ہیں جس طرح شاعر کر سکتا ہے حاصل یہ کہ جو شخص واقعات اور مظاہر قدرت سے اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ متاثر ہو اور اس اثر کو الفاظ کے ذریعے سے پورا پورا ظاہر کر سکتا ہو وہی شاعر ہے۔ “( ص-۱۳ ، شبلی نعمانی، شعر العجم ۱۳۳۹ھ)

اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ معاشرہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو اظہار جزبات کی آزادی کم دیتا ہے اور ایک مشرقی عورت اس بات سے سمجھوتا بھی کر لیتی ہے ۔ لیکن بعض دفع ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ ایک عام عورت بھلے ہی سمجھوتا کر لے لیکن آج کی عورت جس کے ہاتھ میں قلم کی طاقت بھی ہے وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ گھر والوں اور دنیا والوں کی مخالفت کے باوجود وہ اپنے اس حق کے لئے لڑتی ہے اور اسے حاصل کرتی ہے۔ اردو ادب میں پروین شاکر کا نام اس کی زندہ مثال ہے ۔ لیکن شمع ظفر کو احتجاج اور بغاوت کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ اپنے ادبی سفر میں ان کا کسی دشوار مراہل سے گزر ہوا ۔ انھیں اپنے گھر والوں اور شوہر کا تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔ جس کی وجہ سے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے لکھتی رہیں اور ان کا کلام نکھرتا اور سنورتا چلا گیا۔ شمع ظفر نے اپنے کلام کا مجموعہ اپنے شوہر ظفر مہدی کی فرمائش پر “ماہ گرفتہ” کے نام سے ۲۰۱۰ میں شائع کروایا ۔

شمع ظفر کی غزلوں میں ہمیں نسوانی جذبات سے بھرپور اشعار بھی ملتے ہیں اور عشق و محبّت کا اظہار بھی ۔ لیکن ان کی عشقیہ شاعری میں ادب کے ساتھ ساتھ پاکیزگی، غیرت اور شائستگی بھی ہے۔ وہ اشاروں کنایوں میں اس قرینے سے اپنی بات کہ جاتی ہیں کہ درمیان میں ایک حجاب قائم رہتا ہے۔ جو کہ ان کی شاعری کا ایک اہم وصف ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔۔۔۔

ذکر جس کا سحر و شام سے وابستہ ہے
روشنی ذہن کی اس نام سے وابستہ ہے
جیسے ذرہ کبھی سورج کے مقابل آ جائے
یوں مرا نام ترے نام سے وابستہ ہے
اس نے رک رک کے مجھے دور کیا تھا دل سے
جیسے لکھ لکھ کے کوئی حرف مٹاتا جائے
تھا عجب رنج کہ ہم نے بھی بھلایا اس کو
یاد وہ بارد گر آئے تو پھر نیند کہاں
میرے ہاتھوں میں اس کا ہاتھ تو ہے
ہمارے درمیاں وہ رو نہیں ہے

شمع نے غزل کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی لکھیں ہیں غزلوں کے مقابلے نظم اگرچہ کم ہیں لیکن شمع نے دونوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ شمع کی نظمیں ہوں یا غزلیں کم و بیش دونوں میں نظریات وخیالات اور طرزِ بیان مشترک نظر آتے ہیں۔ جہاں غزلوں میں ان کی نازک خیالی اور سادہ بیانی قارئین کو گرویدہ بنا لیتی ہے وہیں ان کی نظمیں بھی اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ اپنی طویل نظم محبت نامہ میں انھوں نے جس طرح سے محبت کی عظمت کو مختلف استعاروں کی مدد سے بیان کیا ہے وہ قابل تعریف ہے اس کے علاوہ امی کی یاد ، بچپن، نوموتی ، نظر شاعر مشرق اور کیکٹس کے جنگل میں، وغیرہ نظمیں ان کی فکر کی گہرائیوں کا پتہ دیتی ہیں۔ ‘کیکٹس کے جنگل میں’ ان کا منفرد انداز دیکھیں۔۔

کیکٹس کے جنگل میں
شام ہو گئی مجھ کو
راستہ نہیں ملتا
ہر طرف اندھیرا ہے
اور میری تنہائی
کون مجھ کو ڈھونڈے گا
اب کوئی نہیں ایسا
کس کو اتنی فرصت ہے
کوئی بھی نہ آئے گا
میرے دل کی سب نرمی
سب گداز الفت کا
روشنی محبت کی
گفتگو کی شیرینی
ڈھل رہی ہے کانٹوں میں
اور مرے سراپے کا
حسن کھوتا جاتا ہے
دھیرے دھیرے میں خود بھی
گیٹس نہ بن جاؤ

(ص-۱۵۷، ماہ گرفتہ)

شاعر ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ۔

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

اگر میں کہوں کہ شمع ظفر کی شاعری بھی اس شعر کی ترجمانی کرتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے بھی جو کچھ زندگی میں دیکھا اور جو کچھ زندگی نے انھیں دیا وہ اسے قلمبند کرتی چلی گئی۔ بچپن اپنوں کے درمیان گاؤں کی خوشگوار فضا میں گزرا۔ کم عمری میں ماں سے جدائی، شادی کے بعد پہلے اپنے گاؤں پھر وطن سے دوری ، ایک لمبہ عرصہ ملک سے باہر رہنا ، مختلف ممالک کا سفر ، زندگی کے اس دور میں جب ایک ہم سفر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس وقت شوہر کا انتقال ہو جانا۔ غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کو انھوں نے اپنی شاعری میں اتارنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماہ گرفتہ میں شمع ظفر کی شخصیت کی نہ صرف جھلکیاں بلکہ مکمل عکس دکھائی پڑتا ہے۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے۔۔

یہ دل کہ ماہ گرفتہ ہے اس کے جانے سے
وہ آفتاب بھلا اب کہاں سے ملتا ہے
ہے سامنے مرا گھر اب یہ میرا گھر بھی نہیں
نظر میں گزرے ہوئے دن ہزار پھرتے ہیں
مدتوں ہم سفر رہی ہے دھوپ
راستے کا شجر رہی ہے دھوپ
اب بھٹکنے کا کیا جواز رہا
راستے ہم نے خود بنائے تھے

ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ ایک اچھا قلم کار پھر وہ چاہے شاعر ہو یا فکشن نگار وہ اپنی تخلیق میں معاشرے کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا ۔ شمع ظفر کی شاعری اس کی بہترین مثال ہے۔ انھوں نے ذاتی زندگی کے تجربات کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ شمع ظفر مہندی کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت پتہ چلتا ہے کہ لکھنے والا اپنے سینے میں ایک حساس دل رکھتا ہیں۔ ایک ایسا دل جس میں دنیا جہاں کا غم بھرا ہوا ہے۔ جو زمانے کے دکھ درد کو شدد سے محسوس کرتا ہے اور اس درد کو وہ اپنی شاعری میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ سونامی سے متاثر ہو کر لکھی گئی شمع ظفر کی نظم اس بات کی تصدیق کرتی ہے ۔ شمع ظفر زمانے کی بدحالی پر کہیں تو افسوس کرتی نظر آتی ہیں تو کہیں طنز کو اپنا سہارا بناتی ہیں۔ شعر دیکھیں ۔۔

محلوں میں اپنے قید رہے بادشاہ وقت
بے فکر شاہ راہ پہ گاتے رہے فقیر

ماہ گرفتہ میں شمع ظفر نے جو شاعری موجود ہے، اس کی ایک اور اہم خصوصیت لہجے کا دھیما پن اور ٹھہراؤ ہے۔ وہ بے حد شائستگی سے نرم و نازک لہجے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ رنج و غم کا بیان کرتے وقت وہ چیخ پکار نہیں کرتی بلکہ غم کو بڑے سلیقے سے لفظوں میں اتارنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اگر شکوہ بھی کرتی ہیں تو وہ بھی گراں معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح اختلاف اور احتجاج کرتے ہوئے بھی وہ اپنی اس انفرادیت کو قائم رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہیں ۔ ان کا نرم و نازک انداز اور شائستگی سے بھرپور لہجہ ان کے مزاج کا حصہ ہے۔
وہ خود بھی لکھتی ہیں ۔۔۔

گرفتہ دل ہوں مگر روشنی مزاج میں ہے
عجیب ٹھہری ہوئی خامشی مزاج میں ہے
کلام تلخ کا نرمی سے ہی جواب دیا
تو کیا کریں کہ شائستگی مزاج میں ہے

شمع نے پچیس سال کا لمبا عرصہ سعودی عرب میں گزارا۔ وہاں پر انھوں نے بہتر شاعری کی۔ وہاں ان کے حلقہ احباب میں زیادہ تر شعراء تھے۔ اور تقریباً ہر ماہ کسی نہ کسی کے گھر پر شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں خود ان کی اقامت گاہ پر بھی پابندی سے مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں ہندو پاک کے شعراء شامل ہوتے، اس کے علاوہ دیگر ممالک سے حج و عمرہ کے لئے آنے والے شعراء بھی ان شعری نشستوں میں مہمان ہوتے تھے۔ دوسری سرزمینوں سے آنے والے شعراء کے تخیلات، ان کی فکر اور طرزِ کلام سے شمع کو بہت کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملتا تھا جس سے شمع کا ذہنی افق وسیع تر ہوتا گیا غرض کہ ان کے کلام میں وسعت پیدا ہونے لگی۔

ماہ گرفتہ میں شامل ان کی بیشتر غزلیں اور نظمیں جدہ، سعودی عرب میں ہی لکھی گئیں ہیں ۔ وہاں پر انھوں نے غزل اور نظم کے علاوہ حمد، نعت اور سلام وغیرہ بھی لکھیں ۔ جہاں تک سلام کی بات ہے یہ انھوں نے اپنے وطن (ہندوستان) میں بھی کہے لیکن حمدیہ اور نعتیہ شاعری سرزمین عرب کی دین ہے۔ سعودی عرب میں شمع نے پہلی بار حمدیہ اور نعتیہ محافل میں شرکت کی اور اس سے وہ بے حد متاثر ہوئیں۔ وہاں خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ پر جا کر شمع مسحور ہو جایا کرتی تھیں اور وہیں بیٹھے بیٹھے حمد و نعت لکھنے لگتی۔ ان کی اکثر نعتیں مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر لکھی گئی ہیں۔

ان کی حمدیہ شاعری کا مطالعہ کرتے وقت قاری ایک الگ کیفیت سے دو چار ہوتا ۔ حمد میں وہ بے حد خوبصورتی سے رب کائنات کی تعریف بیان کرتی ہیں ۔

لبریز کائنات ہے اس کے جمال سے
اور وہ کہ ماورا ہے ہر اک خد و خال سے
ہر شے میں حسن بن کے جھلکتا ہے بار بار
تشبیہ کو کو دیجئے اس بے مثال سے
رنگ پھولوں میں ستاروں میں ضیا دیکھتے ہیں
اس سے لبریز ہے یہ ارض و سماء دیکھتے ہیں
رنگ سب ایک سے ہوتے ہیں مگر حسن تضاد
صبح و شام کی تصویر جدا دیکھتے ہیں

کیا مصور ہے بناتا ہے شبیہیں کیا کیا
اپنے عالم کو حسینوں سے سجانے والا

کتنا آسان ہے اس کے لئے نظم دنیا
اپنی تخلیق پہ نازاں ہے بنانے والا

اسی طرح نعت پاک لکھتے وقت ان کی عقیدت و احترام میں حد درجہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ روضہ اقدس کی زیارت کے دوران جب شمع پر کیفیت طاری ہوتی تو خود بخود ان کے قلم سے اشعار کے چشمے پھوٹنے لگتے۔

ہے رازدار عرش ، شہ کائنات آپ
اللہ میزباں ہوا جس کا وہ ذات آپ
حسن کلام ایسا کہ حیراں سماعتیں!
رحمت کی بات آپ، محبت کی بات آپ
شبنم مزاج ایسے کہ شعلے بجھا دیئے
تھے اولین ناشر اخلاقیات آپ
تسکین جاں ہے نام محمد تمام عمر
احساس تشنگی میں ہیں آب حیات آپ

سعودی عرب میں جہاں ایک طرف ہم مزاج اور ہم خیال دوستوں کے مل جانے سے شمع کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور ان کے کلام میں وسعت آئی وہیں دوسری طرف وطن کی یاد بھی انھیں مسلسل بے چین کرتی رہی۔ سعودی عرب میں اپنے پچیس سالہ قیام کے دوران انھوں نے کبھی بھی وطن کو فراموش نہیں کیا۔ انھیں اپنے وطن اور خاص طور سے آبائی وطن اپنے گاؤں بہار پور سے بے حد لگاؤ تھا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

دریا اک ٹہرا ٹہرا ہے آنکھوں میں
گزرے لمحوں کا میلہ ہے آنکھوں میں
اپنے دیس میں پھر برسات کا موسم ہے
چپکے سے آنسو کہتا ہے آنکھوں میں
اپنے گاؤں کے لئے ایک جگہ لکھتی ہیں۔۔
شدید دھوپ کا مجھ پر اثر نہیں ہوتا
کہ میرے ساتھ میرا سبز گاؤں رہتا ہے

شمع کی یہاں ہمیں وطن پرستی سے ڈوبے ہوئے اشعار تو جا بجا ملتے ہی ہیں ساتھ ہی کہیں نہ کہیں ایک ملال، ایک شکوہ بھی نظر آتا ہے جو انجانے طور پر یا جان بوجھ کر شاعری میں شامل ہے۔ اشعار دیکھئے۔

اے وطن کب تلک بے حسی بے رخی
ان کھلے راستوں پہ تو رم چاہیئے
ساتھ سدیوں رہے اب ہمی غیر ہیں
پہلی قدروں کا کچھ تو بھرم چاہیئے

اسی طرح ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔۔

یہ جیسا شہر تھا ویسا نظر نہیں آتا
یہاں تو اب کوئی اپنا نظر نہیں آتا

یہ سارے لوگ جو مصروف دنیاداری ہیں
میں کس کا نام لوں، چہرا نظر نہیں آتا

جو رت بدل گئی نظریں بدل گئیں سب کی
کہاں کے دوست شناسا نظر نہیں آتا

شمع ظفر نے شاعری نہ تو کسی بڑے شاعر سے متاثر ہو کر کی اور نہ ہی نام و نمود کی خواہش کے لئے۔ شاعری ان کا شوق تھا اور اپنے شوق کی تکمیلیت کے لئے انھوں نے شاعری کی ۔ جو دل میں آیا وہ لکھتی چلی گئیں۔ دلی جذبات و احساسات کو ہی اپنا استاد مانا ۔ اس کے علاوہ اگر کسی چیز نے ان سے شاعری کروائی ہے تو وہ ہے قدرتی مناظر۔ قدرتی مناظر سے شمع ظفر کو بے حد محبت اور لگاؤ ہے اور یہ ان کو شعر عطا کرتے ہیں۔ پھول، بارش، تتلی، چڑیا، سبزہ،صحرا اور ہوا کا ذکر ان کی شاعری میں بار بار ہوا ہے ۔ خاص طور سے “ہوا” کا استعارہ شمع ظفر کو بے حد پسند ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا اور ہوا کا استعارہ انھیں اتنا ہی پسند جتنا کہ پروین شاکر کو خوشبو کا۔

ہوا کو وہ کبھی تشبیہ تو کبھی استعارے کی شکل میں استعمال کرتی ہیں اور کبھی تو پوری غزل ہی ‘ہوا’ کے ردیف میں لکھتی چلی جاتی ہیں۔
غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔۔۔

لائی اک حلقہ زنجیر نشانی میں ہوا
جانے کیا کہتی ہے پیغام زبانی میں ہوا

منزلیں راہ میں آتی ہیں گزر جاتی ہیں
راستہ بھول گئی اپنی روانی میں ہوا

کبھی بغداد کی گلیوں سے غزل خواں گزری
کبھی مصروف ہوئی مرثیہ خوانی میں ہوا

اپنی مٹھی میں دبائے کئ جگنو کئ پھول
سو گئ رات گئے رات کی رانی میں ہوا

ایک لمحے کو بھی تنہا نہیں ہونے دیتی
شمع کے ساتھ رہی نورفشانی میں ہوا

(ص-۶۹، ماہ گرفتہ)

شمع ظفر مہدی کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ مطالعے اور مشاہدات نے ان کی شاعری کو وسعت عطا کی ہے۔ انھوں نے بہت سے موضوعات پر لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ سنجیدگی لطافت اور سادگی شمع ظفر کے کلام کی خاص خوبیاں ہیں ۔ وہ عام فہم الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کی شاعری میں فصاحت و بلاغت، سلاست و روانی اور تہ داری پائی جاتی ہے۔ بحیثیت شاعرہ شمع ظفر کا اسلوب بیان بے حد خوبصورت ہے۔ اپنے احساسات وجذبات کو اشعار میں کس طرح سے بیان کرنا ہے، یہ وہ بخوبی جانتی ہیں۔ ذرا ان کا یہ شعر دیکھئے اور قادرالکلامی داد دیجیے ۔۔۔

یہ جو زرد پتّے ہیں جا بجا ذرا دیکھیں ان پہ لکھا ہے کیا
یہ کسی کے نامہ شوق ہیں جو ہوا کے ہاتھ میں آ گئے

ماہ گرفتہ میں شمع ظفر سے بعض جگہ پر عروضی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں۔ لیکن اس سے ان کی شاعری پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اردو کے بڑے بڑے کہنہ مشق شاعروں سے بھی عروضی غلطیاں ہوئیں ہیں۔ لیکن ان کا خوبصورت طرظ کلام اور منفرد انداز بیان ان غلطیوں پر بھاری رہا ہے۔ یہی حال شمع کا ہے شمع کی شاعری کو پڑھتے وقت قاری اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ اس کا ان غلطیوں کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اور ویسے بھی شاعری تو واردات قلب کی روداد ہے ۔ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے وہی شاعری ہے۔ شمع کی شاعری کے مطالعے کے بعد ہمیں حسرت موہانی کے اس شعر سے اتفاق کرنا پڑےگا۔۔

شاعری تو در اصل وہی ہے حسرت
سنتے ہی جو دل میں اتر جائے

ماہ گرفتہ میں شمع ظفر مہدی نے جو شاعری پیش کی ہے اور جس قدر خوبصورت شاعری کی ہے اس کو ایک مضمون میں قلمبند کرنا مجھ جیسی نا اہل کے لئے شاید ممکن نہیں۔ اس لئے آخر میں سید قمر حیدر قمر کی وہ تحریر پیش کرتی ہو جو انھوں نے ماہ گرفتہ کے دیباچہ میں لکھی ہے۔ وہ شمع ظفر مہدی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

” اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ شمع ظفر کو بحیثیت شاعرہ ایک جملے میں بیان کروں تو میں کہوں گا کہ “وہ ایسی سنئجور ہیں جو شعر میں لفظ نہیں، پھول ٹانکنے کا ہنر جانتی ہیں” پھول جو رنگ خوشبو ، تازگی ، نزاکت اور تکمیلیت کا زندہ مجسمہ ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ پھولوں کی پتیوں کی تہہ داری اس کا ایک الگ وصف ہے سو مختصراً بیان کروں تو کہوں کہ شمع ظفر کی شاعری شاخ ہنر پہ کھلنے والا گلاب کا پھول ہے ۔ جو ہمیں رب لطیف نے عرب کے صحرا میں سید ظفر مہدی کے گلستان حیات سے عطا فرما دیا ہے ۔ “

(ص- 11 ، شمع ظفر مہدی ، ماہ گرفتہ)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here