حیدرآباد فرخندہ بنیاد اگرچہ اسلامی مملکت نہیں رہا‘ مگر اس کا کردار اب بھی بڑی حد تک اسلامی ہے۔ اب بھی داغ کا یہ شعر اس پر صادق آتا ہے۔
حیدرآباد تابہ قیامت رہے قائم
یہی اے داغؔ مسلمانوں کی اک بستی ہے
حیدرآباد اجڑا بھی پھر اپنے پیروں پر آپ کھڑا ہو بھی گیا۔ بھلے ہی اس کی پہلے جیسی شان و شوکت نہ رہی‘ مگر اب بھی عمارتوں کے نقوش اپنے شاندار ماضی کو یاد دلاتے ہیں۔ اور سینکڑوں مساجد کے مینار شہر کے مسلمانوں کے آہنی عزائم کی گواہی دیتے ہیں۔ بلاشبہ حیدرآباد کبھی مسجدوں کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ کیوں کہ بقول ممتاز محقق، ادیب اور سیاح ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے الفاظ میں شہرحیدرآباد میں ایک مسجد تو زمین اور آسمان کے درمیان بھی ہے۔ جسے چارمیناروں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ جسے دنیا والے چارمینار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عرسی کے مطابق بانی شہر محمد قلی قطب شاہ کے دورِ حکومت میں گولکنڈہ میں طاعون کی وباء پھیلی تھی تب بادشاہ نے دعا کی تھی کہ اگر طاعون کی وباء ختم ہوجائے تو بطر شکرانہ ایک مسجد تعمیر کروائیں گے اور پھر انہوں نے اپنی منت کی تکمیل کرتے ہوئے چارمینار والی مسجد تعمیر کروائی۔ بعض مورخین کے الفاظ میں یہ چار۔مینار دراصل چار خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو بھی ہو یہ ایک خوبصورت اور سطح زمین سے بلند ترین مقام پر واقع ہے۔ جو 1591ء میں تعمیر کی گئی مگر اس سے بہت پہلے 1518ء میں مسجد صفا گولکنڈہ تعمیر ہوچکی تھی۔
حیدرآباد میں قطب شاہی اور آصف جاہی دور کی مساجد قدم قدم پر ملتی ہیں۔آصف جاہی دور کی مساجد میں ترکی فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایسی ہی ایک مسجد باغ عامہ نامپلی میں ہے جسے ’’شاہی مسجد‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو 1924ء میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کی شان و شوکت اپنی مثال آپ ہے۔ اگرچہ کہ فن تعمیر کے لحاظ سے یہ غیر معمولی نہ سہی مگر یہ اس اعتبار سے حیدرآباد کی ایک ایسی منفرد مسجد ہے‘ جو حیدرآباد اور سکندرآباد کے سنگم پر واقع ہے‘ قانون ساز اسمبلی، قانون ساز کونسل سے چند قدم کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے یہ وی آئی پی مسجد بھی تصور کی جاتی ہے اور رمضان المبارک میں تراویح اور دوسرے مہینوں میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے دونوں شہر حیدرآباد اور سکندرآباد کی اکثر اہم شخصیات یہیں آتی ہیں۔ اور جس طرح سے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے یہاں آپس میں ملاقاتیں ہوتی ہیں‘ اس کی بنیاد پر اسے مسجد باغ عامہ کے ساتھ ساتھ ’’مسجد تعلقات عامہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسجد رفاہ عامہ بھی ہے۔ کیوں کہ جتنے رفاہی اور فلاحی کام اس مسجد سے شروع ہوتے ہیں‘ شاید ہی اس کی کوئی اور مثال مل سکتی ہے۔ چاہے وہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر بلڈ ڈونیشن کیمپ ہو، یا صباحی اور مسائی مدارس، تجوید و تحفیظ القرآن کا درس ہو یا ربیع الاول میں سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں پر لکچرس، ربیع الثانی میں عظمت اولیائے کرام بالخصوص سیرت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق خطبات یا پھر عامۃ المسلمین کو شرعی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے ایک ماہی کورس کا اہتمام ہو‘ نکاح کی محفلیں یا پھر اہم شخصیات کا آخری سفر ہو۔ شاہی مسجد باغ عامہ اس کے لئے جانی جاتی ہے۔ ان سرگرمیوں سے ہٹ کر جو خصوصیات شاہی مسجد باغ عامہ کو منفرد بناتی ہیں‘ وہ یہ ہے کہ لگ بھگ سو برس کے دوران یہ مسجد ہر قسم کے مسلکی اختلافات، تنازعات اور فتنوں سے محفوظ ہے۔ یہاں ہر مکتب فکر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں‘ اور کبھی بھی کسی مسئلہ پر ان میں اختلاف نہیں ہے۔ اس کا سہرا یقینی طور پر اس مسجد کے عظیم ائمہ اور خطیبوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو ہر تنازعہ سے پاک و صاف رکھا۔ آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے حضرت مولانا الحافظ المقری عبدالرحمن بن محفوظ الحمومی کو امام اور اولین شاہی خطیب مقرر فرمایا تھا۔ آپ جامعہ نظامیہ کے شیخ الحدیث و شیخ القراء بھی تھے۔ 1977ء تک لک بھگ نصف صدی اس من منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ 1977 میں آپ کے فرزند حضرت مولانا حافظ شاہ محمد بن عبدالرحمن الحمومی آپ کے جانشین ہوئے۔ اور 2014 تک آپ شاہی امام کے منصب پر فائز رہے۔ 12؍فروری 2021ء کو آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کے ساتھ ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ آپ کی چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک بحیثیت امام و خطیب جامع مسجد معظم پورہ (ملے پلی) خدمات، حفظ القرآن کو عام کرنے کی جستجو، قوم کے نوجوانوں کی اصلاح کی تڑپ اور ان کی بے مثال خدمات سے متعلق تاثراتی مضامین اہل علم نے لکھے ہیں۔ ہم نے تو انہیں دیکھا، ان کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ وہ اُن ہستیوں میں سے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے دوست وہ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے۔
گذشتہ سال جب ہم بھی کرونا کی زد میں آئے تھے تو ان سے بھی اپنی صحت یابی کے لئے دعا کی درخواست کی تھی اور وہ پہلا موقع نہیں تھا کہ حضرت نے اپنی دعائوں سے نوازا بلکہ جب کبھی آپ سے شرف ملاقات رہا تب تب آپ نے دعائوں سے سرفراز فرمایا۔ آپ سے آخری ملاقات کا شرف ریڈ روز فنکشن ہال نامپلی میں تعمیر ملت کے جلسہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم میں رہا۔ جہاں آپ اپنے نبیروں کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ اپنے لائق و فائق فرزند حافظ احسن بن محمد الحمومی کا خطاب سماعت فرمانے کے لئے۔
اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند سے بلند کرے۔ آمین
حافظ و قاری احسن بن محمد الحمومی آپ کی حیات ہی سے آپ کی جانشین کی حیثیت سے حسن و خوبی سے خدمات انجام دے رہے ہیں‘ بلکہ اپنی صلاحیتوں سے انہوں نے خود کو حیدرآباد کے اُن گنے چنے مقررین اور خطیبوں کی صف میں شامل کروالیا جنہیں سننے کے لئے لوگ میلوں دور سے چلے آتے ہیں۔شاہی مسجد باغ عامہ کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ خطبات جمعہ سے قبل کے بیانات حالت حاضرہ پر ہوتے ہیں۔ سلگتے مسائل پر مکمل بات کی جاتی ہے۔ قوم کے مردہ یا خوابیدہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی ہی کوشش مسجد عزیزیہ ہمایوں نگر میں بھی ہوتی رہی ہے۔ خطبات جمعہ کا مقصد یہی رہا ہے کہ قوم کو حالت حاضرہ سے واقف کروائیں۔ حافظ احسن بن محمد الحمومی غالباً حیدرآباد کے پہلے جواں سال خطیب تھے جنہوں نے 2019ء میں جبکہ کرونا کی آمد آمد تھی‘ اپنے خطبے میں اس سے بچائو کے لئے احتیاطی تدابیر پر زور دیا تھا اور ان کا یہ خطاب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکمل سائنٹیفک تھا کیوں کہ اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے والے بیشتر مسلمان تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اس لئے سبھی نے اسے پسند کیا بلکہ باوثوق ذرائع سے مطابق اقتدار کے ایوانوں میں بھی اس بیان کی رپورٹ پہنچی۔ کیوں کہ تقریباً ہر مسجد سے رپورٹ مختلف ایجنسیوں سے ایوان اقتدار تک پہنچتی ہے۔ احسن الحمومی نے اپنے والد بزرگوار کی راست نگرانی اور تربیت میں جو علم حاصل کیا، جو تڑپ اور جستجو انہیں ورثے میں ملا‘ اس کا اندازہ اس مسجد کی سال کے بارہ مہینے ہونے والی علمی سرگرمیوں سے لگایا جاسکتے ہے۔ انہوں نے صحیح معنوں میں اس مسجد کو عبادت، تعلیم اور تربیت کا مرکز بنایا جہاں صبح صادق سے رات دیر گئے تک‘ کسی بھی وقت 7برس سے 70برس تک کے حضرات قرآن سیکھ سکتے ہیں۔ مدرسۃ الحمومی تحفیظ القرآن کے تحت روزنانہ صبح 7تا 3بجے دن ہونے والے کلاسس کے طلبہ فزیکل سائنس، انگریزی اور حساب کے ساتھ حفظ القرآن اور تکمیل حفظ کے بعد دوسری جماعت کا امتحان دے سکتا ہے۔ مسجد میں اوقات کی اس قدر منظم طریقے سے تقسیم کی گئی ہے کہ خراج تحسین پیش کو جی چاہتا ہے۔ بعد نماز عصر کالجس اور ورکنگ پروفیشنلس کے لئے قرآن سیکھنے کا نظم بعد مغرب اسکول کے طلباء اور طالبات کے لئے ابتدائی تجوید و ناظرہ، نماز کی عملی تربیت، دینیات، ضروری مسائل، سیرت، تاریخ سے متعلق کلاسس۔ ہر عمر کی خواتین کے لئے علیحدہ ہال میں بعد نماز مغرب تا عشاء تجوید و ناظرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر جمعہ کو نماز کے بعد مختلف مسائل متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ ہر ہفتے کو خاندانی تنازعات کو ہندوستانی قانون اور شریعت کی روشنی میں کونسلنگ کے لئے ذریعہ حل کیا جاتا ہے جسے سکینڈ اوپینین لیگس سیل کا نام دیا گیا ہے۔ ہر اعتبار کو بعد نماز ظہر مرد و خواتین کے لئے درس قرآن یہی نہیں بلکہ مدرسۃ الحمومی للدراسات الاسلامیہ کے تحت عصری علوم حاصل کرنے والے طلباء اور ورکنگ پروفیشنل کے لئے مختصر مدتی عالم کورسس کا اہتمام ہے‘ جو 6سمسٹرس پر مشتمل ہوتا ہے جو قرآن علوم القرآن ، حدیث، علم الحدیث اور فقہ اصول فقہ ، عقائد تقابلی مطالعہ مذاہب، سیرت و حدیث شریف اور تخصص پر مشتمل ہے۔ بعد فجر دو گھنٹے پہلا بیاچ اور بعد مغرب دوسرا بیاچ ہوتا ہے۔ 60کلاسس میں قرآن فہمی کا مختصر مدتی کورس کامیابی سے شروع کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹرس، انجینئرس، ایڈوکیٹس اور صحافی کافی تعداد میں شرکت کررہے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء اور دستور ہند کورس وقت ضرورت کروایا جاتا ہے۔ صرف 8کلاسس میں تجوید کورس مکمل کروایا جاتا ہے۔ حافظ احسن الحمومی نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر حیدرآباد میں بلڈ ڈونیشن کیمپ کو متعارف کروایا جس کے بعد سے شہر میں یہ روایت عام ہوگئی۔ ا ب بے شمار این جی اوز بلڈ ڈونیشن کیمپ کا اہتمام کررہے ہیں۔ باغ عامہ کے دامن میں یہ خوبصورت مسجد جس میں عبادت کی قلبی طمانیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ یہاں وضو کا پانی تک ضائع نہیں ہوتا بلکہ یہاں ہارویسٹنگ سسٹم کا نظم ہے تاکہ پانی کا گرائونڈ لیول برقرار رہے۔
شہر کی مسجد ہو یا اضلاع کی۔ انتظامی کمیٹیوں کو چاہئے کہ وہ شاہی مسجد باغ عامہ کے طرز کو اختیار کرے تاکہ ملت کا انتشار اتحاد میں بدل جائے۔ اللہ کاگھر اللہ کے علوم سیکھنے اور اللہ کے بندوں کی خدمات کا مرکز بن جائے۔ کاش ایسا ہو۔۔۔
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون:9395381226