شبّیر مصباحی ؔ کا منی افسانوی مجموعہ

0
333
مختار زاہدؔ بڈگامی (کرکت ،کرگل لداخ)

افسانچہ ادبی دنیا میں مِنی افسانے کے نام سے بھی معروف ہو رہا ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف تجربات فکشن نگار اپنے قلم کے ذریعے نثرکی صورت میں بالکل کم سے کم لفظوں میں بیان کرے وہ افسانچہ کہلاتا ہے۔ شاعری میں مختصر نظم اور نثر میں افسانچہ ایک ہی نوع کی چیزیں ہیں ۔
اردو ادب میں افسانچے کا آغاز منٹو نے کیا ۔ 1948ء میں ’’ سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں ان کے افسانچے منظر عام پر آئے۔ اس کے بعد 1962ء میں جوگندر پال کے افسانچوں کی کتاب ’’ میں کیوں سوچوں ‘‘ منظر عام پر آئی جس میں کل 35افسانچے شامل تھے۔ اس طرح اردو ادب میں یہ صنف اب آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
لداخ میں اردو ادب کی تاریخ میں شبیر مصباحی صاحب کی کتاب’’ ادراک‘‘ کے ذریعے اس صنف کا باقاعدہ آغاز ہو ا ہے ۔ شبیر مصباحی سوشل میڈیا میں ابنِ رشید کے نام سے بھی معروف ہیں ۔آپ اپنے مضامین اور افسانچوں کے ذریعے فیس بُک اور وٹس ایپ میں بھی کافی مقبول ہیں ۔ آپ کا تعلق ضلع کرگل کے سب ڈیویژن دراس سے ہے۔ آپ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب ہونے کے علاوہ ایک سماج سیوک، ایک صحافی اور ایک کالم نویس بھی ہیں ۔ آپ وقتاََ فوقتاََ اپنے علاقے میں کانفرنسس، سیمینار اور مشاعرے منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ گذشتہ برس مصباحی صاحب نے دراس میں ایک کُل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا تھا جس میںلداخ کے علاوہ بیرون یو۔ٹی سے کئی شعراء نے شرکت کی۔ اسی طرح آپ دراس میں ہی ’’ درہ زوجیلہ اور ہمارے مسائل ‘‘ کے عنوان سے ایک کامیاب سیمینار بھی منعقد کر چکے ہیں ۔
شبیر مصباحی صاحب دینی علوم سے بھی فیضیاب ہوئے ہیں ۔ آپ ریاست اتر پردیش کے مختلف مدرسوں سے دینی علوم کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے آبائی وطن دراس کرگل لوٹے اور محکمہ تعلیم میں مدرسی کا کام شروع کیا۔
دراس لوٹنے کے بعد آپ نے چند رفقاء کے ساتھ مل کر علاقہ دراس میںایک ادبی جریدہ ’’ علم نما ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جو آج کل ادارہ علم نما کے نام سے معروف ہے۔ اس سے پہلے ان کی ایک کتاب’’ تعلیمی نفسیات اور بیداری‘‘ بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔ جس کی تعلیمی اور ادبی حلقوں میں کافی پزیرائی بھی ہوئی ہے ۔
شبیر مصباحی لداخ میں نئی نسل کے نمائندہ لکھنے والوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ان کی تحریریں ملک کے کئی جریدوں اور اخباروں میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ادراک ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں 33 ملے جلے افسانے وافسانچے شامل ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کا پیش لفظ جموں و کشمیر کے معروف افسانہ نگار دیپک بدکی نے تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوہ لداخ کے معروف ادیب و شاعر محمد شفیع ساگر نے ’’ ادراک ‘‘ کے بارے میں خیالات کا اظہار کیاہے۔ مصباحی شبیر کی شخصیت اور ان کے فنی خصوصیات کے بارے میں الیاس مضمرؔ نے بھی ایک مفصل مضمون تحریرکیا ہے ۔
کتاب ادراک کا آغاز افسانچہ ’’ دلہن ‘‘ سے ہوتاہے ۔ جس میں لاکھوں لڑکیوں کی طرح صوفیہ بھی اپنی شادی کے لئے بے بس نظر آتی ہے۔ صوفیہ کی پریشانی اور نفسیات کو افسانچہ نگار نے بہترین انداز سے پیش کیا ہے ۔
’’یہ سب جھوٹ ہے ، یہ حسن ،یہ اخلاق کی با تیں ، یہ ایسا ہے یہ ویسا ہے یہ سب جھوٹ ہے نازنین اور کلثوم کی تو سب برائی کرتے تھے۔ پھر ان کے گھروں میں تو رشتوں کی لائن لگی رہتی ہے اور یہ نازنین بھی تو دلہن بن گئی ہے اور ریاض منشی کا لڑکا امتیاز اتنی دھوم دھام سے بارات لے کر آیا ہے سب جانتا تھا کہ نازنین کا چکر نوشاد بُک سیلر سے چلتا تھاپھر مجھ میں کونسی خامی ہے جو اتنی عمر ہونے کے باوجود کوئیبھٹکے سے بھی میرے گھر رشتہ لے کر نہیں آیا‘‘۔
افسانچہ لکھنا بظاہر جتنا آ سان لگتا ہے اتنا آسا ن نہیں ہے۔کامیاب افسانچہ نگاری کے لئے چابکدستی اور تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔افسانچہ فقط کئی سطور پر مبنی ہوتا ہے مگر وہ چند سطور قاری کو سوچنے پر مجبور کرا سکتی ہیں۔
شبیر مصباحی کے زیادہ تر افسانچے سماجی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں ،ان کے کئی افسانچوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماج کی اصلاح چاہتے ہیں۔
’’افسانچہ حقوق نسواں‘‘کا کلائمکس بڑا زوردار ہے ۔ افسانہ نگار نے جس طرح کلائمکس میں افسانے کے مرکزی کردار ’یاورنسیم‘ کو ایک بے بس اوربے سہارا مرد ٹھرایا ہے اور اپنی آدھی عمر حقوق نسواں کے لئے آوازا ٹھانے والا یہ شخص کلائمکس میں معلوم ہوتا ہے کہ خود اپنے خانگی فسادات اور اپنی شریک حیات کے ظلم و جبر کا شکار ہے ۔ اس افسانے کا ایک مکالمہ آج کے سماج کی ایک بڑی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے ۔ یاور نسیم کا مکالمہ دیکھئے:
’’ ایسا نہیں ہے کہ فقط عورتیں ہی ظالم مردوں کے مظالم کی شکار ہوتی ہیں بلکہ بہت سارے مظلوم مرد بھی خواتین کے ظلم کے شکارہوتے ہیں گھر کی چار دیواری میں صرف عورتیں ہی گھُٹ گُھٹ کرنہیں جیتی ہیں بلکہ بہت سارے مرد بھی اس گھر کی چہاردیواری کے اندر نہ صرف گھٹ
گھٹ کر جیتے ہیں بلکہ خون کیآنسوں روتے ہیں ۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں ‘‘۔
افسانچہ ’’شکستہ بیساکھی‘‘ میں افسانچہ نگار نے ایک بوڑھے باپ کے تئیں اپنے بیٹے کی غفلت شعاری اور بہُو کی اپنے سسر کے لئے محبت اور بے لوث خدمت کو خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے ۔
افسانچہ ’’عید‘‘ کے ذریعے افسانچہ نگار نے پڑوسی کے حقوق پر ایک مختصر اور بہترین کہانی بیان کی ہے ۔ اس کہانی کے ذریعے افسانچہ نگار نے یہ باور کیا ہے کہ مذہب، فرقہ اور مسلک سے زیادہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے ۔
افسانچہ ’’ سلامو مستری کی پہلی کوشش ‘‘ میں 15اولاد جننے والے سلامو مستری کی اپنی اولاد کے تئیں سنجیدگی اور اپنے ایک بیٹے کو تحصیل علم کے لئے شہر بھیجنا ۔پھر پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس بیٹے کا شہر سے واپس آنا اور پٹواری کی نوکری ملنے کے بعد اپنے والدین کی زمین کو فروغ کرنا ،ایک سبق آموز کہانی ہے جو بے غیرتی اور احسان فراموشی کا پردہ فاش کرتی ہے ۔ اس افسانچے سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانچہ نگار شہر سے لے کر دیہات میں بسنے والے غریب کسانوں اور مزدور طبقہ کی سماجی اور خانگی زندگی کے بارے میں کافی معلومات رکھتے ہیں۔
مصباحی شبیر کے اکثر افسانچوں کے کرداروں کے نام بالخصوص مرکزی کرداروں کے نام نسیم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کے افسانچوں میں تعلیم سے جڑے مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔
افسانچہ ’’ماسٹر جی‘‘میں مروجہ تعلیمی نظام اور اساتذہ کا اپنے فرائض کے تئیں غیر سنجیدگی برتنا او ر وی۔ ای۔ سی ممبران کا اساتذہ کرام کو باور کرانے کے بعد اساتذہ کا آگ بگولہ ہونا دور حاضر کے نظام تعلیم کی بہترین عکاسی ہے ۔
اسی طرح افسانہ ’’ استاد‘‘ کے ذریعے یہ پیغام دیکھنے کو ملتا ہے کہ عصر حاضر میں محکمہ تعلیم کی طرف سے چلائی جانے والی مختلف Trainings اور اسکیمیں تب تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتی جب تک خود استاد میں مُدرّسی کے گن موجود نہ ہوں۔ استاد کی سب سے بڑی خصوصیت شفقت ہے۔ یعنی ایک استاد جب تک مُشفق نہ ہو وہ ایک کامیاب استاد نہیں کہہ لائے گا۔ افسانہ ’’استاد ‘‘کے آخر میں ماسٹر جی کی مار کی ڈر سے خوف کھانے والا اس لاچار غریب بچے کا مکالمہ اس افسانچے کو ایک کامیاب افسانچے کے زمرے میں شامل کرارہا ہے ۔ آپ بھی دیکھئے:
’’ نہیں ماسٹر جی ! آپ نہیں سمجھ سکتے میرے درد کو۔‘‘
وہ روہنی سی آواز میں بس اتنا ہی کہہ سکا۔
’’آپ آجائیں ہمارے اسکول میں، اب چیزیں کافی بدل چکی ہیں ۔
ہم وعدہ کرتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘
’’ ماسٹر جی معافی چاہتا ہوں ، آپ اس بار بھی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ‘‘ ۔
’’ وہ کیسے‘‘؟
’’وہ اس طرح سے ماسٹرجی !میں اور میرے جیسے لاکھوں بچوں کی ضرورت سرکاری اسکیمیں نہیں ہیں۔ اگر ہمیں ضرورت ہے تو صرف ایک مشفق استاد کی اور وہ آپ کہاں سے لائینگے۔‘‘؟
اردو زبان کے تئیں ہمارے ہاںکافی غلط فہمیاںپائی جاتی ہیں ۔ہمارا ہر طبقہ طلباء سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین و حضرات اردو زبان کو بالکل آسان اور فضول سمجھتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت میں ہم اردو زبان کی اہمیت کو جان نہیں پائے ہیں ۔ اس افسانے میں انہی باتوں کی طرف افسانہ نگار نے بہترین طریقے سے اشارہ کیا ہے ۔
اردو زبان کی افادیت اور اہمیت کو مصباحی صاحب نے ایک اور افسانچہ ’’ اردو‘‘ میں بھی اجاگر کیا ہے ۔ اس افسانچے کے ذریعے مصباحی شبیر نے ا س طبقے کو نشانہ بنایا ہے جو اردو سے نئی نسل کو دُور دیکھ کر کافی خوش نظر آتاہے ۔
افسانہ ’’ادراک ‘‘ میں افسانہ نگار نے لکھاریوں کی نفسیات اور ان کے جذبات کی بہترین تصویر پیش کی ہے ۔ حالانکہ یہ جانتے ہوئے کہ ایک ادیب اور شاعر کی ادبی زندگی میںاس کی اہلیہ کی شرکت ضروری نہیں رہتی ۔مگر کبھی حالات ایسے بھی آجاتے ہیں کہ اپنی شریک حیات کی شرکت بھی ایک ادیب یا شاعر کے لئے ضروری ہوجاتی ہے ۔ چند شعراء تو اکثر اپنے تازہ کلام میں سے چند اشعار پہلے اپنی بیوی کو سناتے ہیں پھر یار دوستوں کو ۔ افسانہ ادراک کا مرکزی کردار اسی غلط فہمی کا شکار ہے۔ اسے اپنی اہلیہ سے شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ادبی زندگی سے ناواقف ہیں۔ مگر کلائمکس میں یہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے اور ایک ایسے موڑ پر افسانہ ختم ہوجاتاہے کرداروں کے ساتھ ساتھ قاری بھی جزبات میں ڈوب جاتا ہے۔ افسانچہ ادراک کا یہ مکالمہ دیکھئے جو بیوی اپنے ادیب شوہر کو سنا رہی ہے ۔
’’تم رائٹر لوگ واقعی پاگل ہوتے ہیں ،میں آپ سے اتنی محبت کرتی ہوں آپ سوچ بھی نہیں سکتے شادی سے پہلے میں آپ کی تحریریں پڑھ پڑھ کرآپ سے محبت کرنے لگی تھی۔ اور شادی کے بعد بھی آپ کی تحریروں سے محبت کرتی ہوں اور آپ کی ساری تحریریں میںاخباروں سے کاٹ کاٹ کراحتیاط سے رکھتی ہوںجو میرے بکسے میں آج بھی ہونگی اور آپ جوکہتے ہیں میری کتابیں مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ بِک جاتی ہیں، وہ میں ہی ہوں جو آدھی سے زیادہ آپ کی کتابیں خرید خرید کر کالج کے بچوں میں تقسیم کرتی ہوں ۔‘‘
صفحہ نمبر 108کے بعد ادراک میں مصنف نے یک رنگی افسانچے شامل کئے ہیں ۔ ان افسانچوں کے ذریعے مصباحی صاحب نے یہ باور کرایا ہے کہ ہر سماج کے دو رُخ یا دو طبقات ہوتے ہیں ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو گاڑیوں میں بھر بھر کر بیٹی کی شادی کے لئے جہیز کا سامان بھیجتا ہے ۔جبکہ دوسرے طبقہ کی ایل۔جی ٹی وی اور ڈبل بیڈ کی رقم موقع پر ادانہ کرنے پر منگنی توڑ دی جاتی ہے ۔
یک رنگی افسانچوں میں سے ایک افسانچہ’’ حسرت‘‘ میں ایک جگہ امیری اور غریبی کی حقیقت پر مصباحی صاحب نے اپنے قلم سے یوں وار کیا ہے ۔
’’ سالانہ روٹین ٹیسٹ کے لئے آج وہ اپنی بیگم کے ساتھ شہر کے مشہور انسٹی ٹیوٹ سے ٹیسٹ کا رزلٹ ٹھیک نکلنے پر بہت خوش تھا اور اپنی بیگم سے وعدہ کر رہا تھا کہ آج ایوننگ شو میں ضرور جائینگے اور آج ہی اس کے مزدور بھائی کے پاس ایم آر ۔آئی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے شہر کی مسجدکے امام نے لوگوں سے دل کھول کر تعاون کی گزارش کی تھی۔‘‘
نیز مصباحی شبیر کے تمام تخلیق پارے قارئین کو دلچسپی کا سامان فراہم کراسکتے ہیں۔ ’ادراک‘ میں زبان کی بات کریں تو آسان اور سادہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو ایک عام قاری بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے ۔ البتہ املا میں کہیں کہیں چھوٹی غلطیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو غالباً کمپیوٹر ٹائپنگ کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ادراک کا ناشر ادارہ علم نما دراس ہے اور چھپائی رضوی پریس ایجنسی دہلی سے کی گئی ہے ۔ کتاب کی ضخامت 112صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 150 روپئے ہیں۔ کتاب علم نما دراس، حاتم بک ڈپو دراس، شاہین بُک ڈِپو کرگل اور اسلم بُک ڈِپو دراس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
+91-9419514703-

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here