9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
مناظر عاشق ہرگانوی انگیکا زبان میں بھی لکھتے رہے ہیں جس میں ان کی پانچ کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں اور اس زبان اور اس کے ادب کو پہلی بار اردو میں انھوں نے ’’انگیکا زبان: پس منظر، پیش منظر‘‘ کتاب لکھ کر متعارف کرایا ہے۔ اس کتاب پر انھیں یوپی اردو اکاڈمی سے انعام مل چکا ہے ۔ اس کی اشاعت کیلئے بہار اردو اکاڈمی نے مالی تعاون دیا تھا۔ انگیکا زبان بھاگل پور یونیورسٹی میں ایم اے تک پڑھائی جاتی ہے اور اس میں پی ایچ ڈی بھی ہورہی ہے لیکن اس زبان میں لغت نہیں ہے ۔ لغت تیار کرنے کی ذمہ داری انگیکا اکاڈمی نے ڈاکٹر موصوف کو دی ہے جس پر وہ منفرد انداز سے کام کر رہے ہیں کہ انگیکا کے الفاظ کے معنیٰ اردو ، ہندی اور انگریزی میں دے کر منفرد ڈکشنری تیار کر رہے ہیں۔ انگیکا زبان میں بچوں کے پہلے ناول نگار ڈاکٹر ہرگانوی ہیں۔ تین ناول تواتر سے شائع کراکے اپنا مقام محفوظ کرلیا ہے۔ انگریزی میں مناظر عاشق ہرگانوی کے پوئم کا مجموعہ “Never Again” بہت مقبول ہوا تھا۔ امریکہ کے ناقدین نے بھی اس کتاب کے حوالے سے مضامین لکھے ہیں۔
موصوف نے سفرنامے بھی لکھے ہیں ۔ ان میں ’’لندن یاترا‘‘ اور ’’پونا یاترا‘‘ جیسی کتابیں مقبول ہوئی ہیں۔ اردو افسانچوں کا پہلا،دوسرا اور تیسرا عالمی انتخاب ڈاکٹر ہرگانوی نے ہی اردو کو دیا ہے۔ ’قوس قزح‘، ’پرت در پرت‘ اور ’خواتین کے افسانچے‘ کے نام سے ان کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ’قوس قزح‘ اردو ، ہندی، انگریزی اور بنگلہ میں ایک ساتھ شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اردوافسانچوں پر ان کی نگرانی میں پہلی پی ایچ ڈی ہوئی ہے اور افسانچوں کے حوالے سے نذیر فتح پوری نے کتاب ’’مناظر عاشق ہرگانوی کی افسانچہ دوستی ‘‘ لکھی ہے۔ کسی افسانچہ نگار پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے۔ ان دنوں وہ افسانچوں پر تنقیدی کتاب لکھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی مناظر صاحب کے ایک افسانچہ ’حملہ کے وقت‘ پر ۳۰؍تجزیے شائع ہوئے ہیں۔ ہندی ،انگریزی اور تیلگو میں بھی اس کا ترجمہ ہوا ہے۔ سارامواد کتابی شکل میں زیرِ طبع ہے جس میں ۵۰؍ سے زیادہ تجزیے اور ۱۳-۱۴ زبان میں اس کا ترجمہ ایک ہی کتاب میں شامل ہیں۔ اردو آٹوگراف بک بھی اردو میں پہلی کتاب ہے جس میں ان کے ذریعہ مشاہیرِ ادب کے ۱۷۱؍ آٹوگراف کے عکس، تعارف اور تصویر کے ساتھ شامل ہیں۔ ان کی کتاب ’’ہمعصر اردو رسائل : جائزہ‘‘ بھی انفرادیت رکھتی ہے۔ ۴۲۸؍ صفحے کی یہ کتاب اردو صحافت میں اضافہ ہے، جس میں اکیسویں صدی میں پوری دنیا سے شائع ہونے والے ۲۵۴؍رسائل پر ان کے تبصرے پتے کے ساتھ شامل ہیں۔اس کتاب کے دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک اور کتاب ’اکیسویں صدی کے ہم عصر اردو رسائل ‘ بھی شائع ہو چکی ہے جس میں ۱۷۲؍رسائل پر تبصرہ ہے۔ یہ کتاب ۳۰۴صفحے کی ہے۔
مناظر عاشق ہرگانوی صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے ادبی صحافت میں کئی اختراعی تجربے کئے ہیں اور اپنے رسالہ ’’کوہسار جرنل‘‘ کے ذریعہ پوری اردو دنیا کے قارئین اور قلم کاروں کو متوجہ کیا ہے اور اپنے خیالات کے حصار میں لانے کی کامیاب سعی کی ہے۔ پوری اردو دنیا کے قریب تین درجن رسائل کی ادارت میں شامل رہے ہیں۔ سوئیڈن کے رسالہ ’’زاویہ‘‘ کو ایڈٹ کرتے رہے ہیں اور ۱۹۷۹ء سے اپنا رسالہ ’’کوہسار جرنل‘‘ نکال رہے ہیں جس میں نئی اور متروک اصناف کی ترویج و اشاعت ہورہی ہے۔ ابھی تک اس کے ۱۸۰ ؍ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کو زبان اور اظہار پر اتنی قدرت ہے کہ قلم کی بوند سے نوری شعاع کے ست رنگے منظر کو اپنی گرفت میں لینے کا ہنر جانتے ہیں۔ انہوں نے ادب سے عشق کرکے حیات و کائنات کی تفہیم اور ترسیل اپنی بھرپور رعنائی اور توانائی کے ساتھ کی ہے۔ فنی بصیرت، تخلیقی ہنرمندی اور عصری آگہی کی نقش گری ان کی تحریروں کو منور کرتی ہیں۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی فطرتاً حساس ہیں ۔ ساتھ ہی اچھے فن کار ، شاعر اور ادیب ہونے کی غیر معمولی صلاحیت ان میں ہے ۔ وہ تہذیبی تواتر اور تمدنی استحکام کے پوشیدہ امکانات پر روشنی ڈالنے کی قدرت سے مالا مال ہیں۔ اسی لیے عرفانِ ذات، کشفِ حیات اور اظہار و ابلاغ کی منزلیں طے کرتے رہے ہیں جن سے ان کی فنکارانہ شخصیت کی صناعی آفاقی مظہر کی حامل بن چکی ہے ۔
تنقید پر مناظر عاشق ہرگانوی کی ۱۲۵؍ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ’تنقیدی زاویے، تنقیدی اساس ، تنقیدی شعور ، فہم و تفہیم ، تنقید و تفہیم ، امتزاج، ناگزیر، تنقیدی دبستان، تنقیدی مضامین ، ترسیل و تفہیم وغیرہ کے علاوہ عبدالحلیم شرر، گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، محمد حسن،جوگندر پال، مظہر امام، طاہر سعید ہارون، خوشتر مکرانوی، فراز حامدی، نذیر فتح پوری، نریش کمار شاد ، پریمی رومانی ، کلیم عاجز ، رضوان احمد ، علیم طاہر ، منصور عمر ، ساحر شیوی ، رحمانی سلیم احمد ، سیّد ظفر ہاشمی ، سجاد بخاری ، علیم صبا نویدی ، وِدیا ساگر آنند ، سعید روشن ، شاہد جمیل ، مشتاق احمد ، ڈاکٹر امام اعظم وغیرہ پر تنقیدی کتابوں کے علاوہ ابھی پچھلے دنوں ’نیویارک میں اردو غزل‘، برطانیہ کے ہمعصر ادیب و شاعر، مغربی بنگال کے ہمعصر ادیب و شاعر وغیرہ تنقیدی کتابیں منظر عام پر آکر مقبول ہوچکی ہیں۔ موضوعی تنقید پر، ساختیاتی تنقید پر، پسِ ساختیاتی تنقید پر، امتزاجی تنقید پر، تخلیقیت پسند تنقید پر اور سائنٹفک تنقید پر مناظر عاشق ہرگانوی کی الگ الگ کتابیں ہیں جن کا ذکر تازہ ہوائوں کی طرح ناگزیر ہے۔
دو تین سال میں ڈاکٹر ہرگانوی کی چند اہم کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں، جو چرچے میں ہیں ۔ ان کی کتاب ’’عضویاتی غزلیں‘‘ کا انگریزی ترجمہ دربھنگہ کے ماہرِ تعلیم سیّد محمود احمد کریمی نے Organwise Ghazalen کے نام سے کیا ہے۔ اس میں نسوانی جسم کے ہر عضوپر تصویریں بھی ہیں۔ ڈاکٹر ہرگانوی نے خود پر طویل نظم ’’ایک نظم اپنے لئے‘‘لکھی تھی ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بہرائچ کے محمد حسنین نے A Poem for myself کے نام سے کیا ہے جس میں مشاہیرِ ادب کے ساتھ ڈاکٹر ہرگانوی کی ۷۲؍ تصویریں بھی شامل ہیں۔ ’’عضویاتی غزلیں‘‘ کا ہندی ترجمہ خود مصنف نے کیا ہے۔ یہ کتاب ’’سراپا سوندریہ غزلیں‘‘ کے نام سے باتصویر منظرِ عام پر آچکی ہے۔ مناظر صاحب نے تقریباً ۱۵۰؍ افسانے لکھے ہیں جو ۱۹۶۳ء سے رسائل میں شائع اور ریڈیو سے براڈکاسٹ ہوتے رہے ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بکھری اکائیاں‘‘ اپریل ۲۰۱۶ء میں منظرِ عام پر آیا ہے ۔ اس کتاب میں ۳۶؍افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں پر اتنے مضامین لکھے گئے ہیں کہ دو جلدوں میں ان کی اشاعت ہو ئی ہے ۔ ہرگانوی صاحب پر مزید کئی نئی کتابیں قارئین کو متوجہ کر رہی ہیں۔ بھاگل پور فساد پر ڈاکٹر ہرگانوی کی منظوم کتاب ’’آنکھوں دیکھی ‘‘ بیحد مقبول ہوئی تھی۔ اس پر اردو دنیا کے بیشتر مشاہیر ادب نے کچھ نہ کچھ لکھا تھا۔ ان میں سے بیشتر مواد کو احمد معراج (کولکاتا) نے ’’مناظر عاشق ہرگانوی کی آنکھوں دیکھی:تجزیہ‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے ۔ ۲۰۰؍صفحے کی یہ کتاب فساد پر اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر ہرگانوی کی ۲؍اور کتابیں ’’فراز حامدی اختراعی ذہن کے نابغۂ عصر‘‘ اور ’’نادید کا تخلیقیت پسند مطالعہ ‘‘ بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں ۔ ان پر ڈاکٹر شبانہ خاتون کی کتاب ’’مناظر عاشق ہرگانوی کی تنقیدی شناخت ‘‘ ، محمد افضل خاں کی کتاب ’’مناظر عاشق ہرگانوی : شاعروں کی دوربین نگاہ میں ‘‘ منظرِ عام پر آکر توجہ کا مرکز بنی ہیں۔ صفی الرحمان راعین کی کتابیں ’’مناظر عاشق ہرگانوی کی ادبی آبیاری‘‘ ، ’’مناظر عاشق ہرگانوی کی ادبی فنکاری‘‘ ،’’مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاک ٹکٹ کی اعزاز یابی‘‘ اور ’’ہرگانوی اور کوہسار جرنل کی رجحان سازی ‘‘ منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ نذیر فتح پوری نے مناظر صاحب پر۸؍ کتابیں لکھی ہیں ۔ بچوں کے لیے ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’ہم دونوں کی غلطی‘‘ ابھی ابھی منظرِ عام پر آیا ہے۔ یوپی اردو اکاڈمی (لکھنؤ ) سے ۲۰۸؍ صفحات پر مشتمل ان کی کتاب ’’کلیم عاجز‘‘ شائع ہو چکی ہے۔ ساہتیہ اکادمی (دہلی) سے ان کی نئی کتاب ’’نریش کمار شاد ‘‘ بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ ۳۲۵؍ صفحات پر مشتمل اپنے موضوع پر پہلی کتاب ’’ایک سو ایک خواتین تنقید نگار(اکیسویں صدی اور ہندوستان کے تناظر میں)‘‘ منظر عام میں آکر چرچا میں ہے۔ ۲۰۱۹ء میں ہی ان کے ناول ’’شبنمی لمس کے بعد‘‘ کے منظوم تجزیے (۷؍زبان میں ایک ساتھ ) ، ’’میر تقی میر : بچوں کے شاعر‘‘ ، ’’مرزا محمد رفیع سودا : بچوں کے شاعر‘‘ اور ’’سعادت حسن منٹو : بچوں کے کہانی کار ‘‘ شائع ہوچکی ہیں۔ ابھی ابھی ان کی کتاب ’’عزیز احمد : بچوں کے ناول نگار ‘‘ بھی شائع ہوئی ہے ۔ مناظر صاحب کے ناول ’’شبنمی لمس کے بعد‘‘ پر نذیر فتح پوری اور ڈاکٹر خالد حسین خاں کی تجزیاتی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی کے’ رینگا‘ کو محمد حسنین نے انگریزی میں ’The Chain of Light‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے جس کی اشاعت ہوچکی ہے۔ ’رینگا‘ کا ہی ایک اور مجموعہ محمد حسنین نے ترجمہ کردیا ہے۔ The Faith of Morn کے نام سے یہ کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی The Noise of Silence بھی شائع ہوچکی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر ہرگانوی کے ۲۲؍افسانوں کا انگریزی ترجمہ سید محمود احمد کریمی نے ‘Assortment of short-Stories’ کے نام سے کیا ہے۔یہ کتاب بیحد مقبول ہوئی ہے۔ مناظر صاحب کی ایک کتاب ’’یادیں باتیں ‘‘ آئی تھی جس میں ۱۱؍مرحوم مشاہیر کی یادیں ، باتیں شامل تھیں ۔ ۲۰۲۰ء کے جنوری میں اس کی دوسری جلد ’’یادوں کے آئینے میں ‘‘ منظرِ عام پر آئی ہے ۔ اس میں ۱۴؍مرحوم مشاہیر کی چہل پہل شامل ہے۔ یہ دونوں کتابیں جداگانہ حیثیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر عبدالمنان طرزی نے ’مناظرعاشق ہرگانوی: توشیحی نظمیں‘‘ کے نام سے منظوم کتاب لکھی ہے جو چھپ چکی ہے۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کی پہلی ہے کیونکہ اس میں وزیر آغا، گوپی چند نارنگ، جمیل جالبی اور انور سدید کے ان چار اقوال کے پیش نظر توشیحی نظم لکھی گئی ہے جو مناظر عاشق ہرگانوی سے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں مناظر صاحب کی مشاہیرِ ادب کے ساتھ ۷۲؍تصویریں بھی ہیں۔ ڈاکٹر عشرت بیتاب کی کتاب ’’ہرگانوی کی تخلیقی بصیرت ‘‘ ۲۰۱۸ء میں اور ڈاکٹر اسما پروین کی کتاب ’’ہرگانوی اور ہائیکو نگاری ‘‘ ۲۰۱۹ء میں اشاعت پذیر ہوئی ہیں۔ محمد سبحان کی کتاب ’’ہرگانوی کی لندن یاترا: عہد کا البم ‘‘ اور طلعت انجم فخر کی کتاب ’’ہرگانوی : پچھم بردوان کے ناقدین کا محاسبہ ‘‘ ۲۰۱۹ء میں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ مناظر عاشق ہرگانوی کے نام سہیل عظیم آبادی کے ۴۸ خطوط کتابی شکل میں مع عکس تحریر منظر عام پر آچکے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’تنقیدی اساس ‘‘ ، ’’فہم و تفہیم‘‘ ، ’’تنقیدی شعور‘‘ اور ’’ساحر شیوی کا نیا شناخت نامہ ‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی ’طرزِ بیانی‘، جاسوسی ناول نگار ’عارف مارہروی سے انٹرویو‘ بھی چھپ چکی ہیں۔ بی الہام فاطمہ کی کتاب ’’مناظر عاشق ہرگانوی : خواتین قلم کار کی نظر میں ‘‘ پریس سے آچکی ہے۔ یہ کتاب ۲۴۰؍ صفحات پر محیط ہے۔ ’’ڈاکٹر امام اعظم کی باز آفرینی‘‘، ’’پروفیسر محمد حسن بنام پروفیسر عبدالواسع ‘‘ اور ’’رعنا‘‘ کے ساتھ ’’سرگزشتِ اسیر‘‘ بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی پر ڈاکٹر احسان عالم کی کتابیں ’’ہرگانوی: فکر و نظر کی چند جہتیں‘‘ اور ’’ہرگانوی کے مختلف رنگ ‘‘ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی پر نذیر فتح پوری کی نئی کتاب کمپوزنگ میں ہے۔ گذشتہ دنوں دربھنگہ میں مناظر عاشق ہرگانوی پر ایک سیمینار ہوا تھا جس میں پڑھے گئے اور موصول شدہ مضامین کو منصور خوشتر نے ’’پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی: ایک نابغہ ‘‘کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ کتاب ’’جمیل جالبی : یادیں ، باتیں ‘‘ بھی منظرِ عام پر آچکی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں ہرگانوی صاحب کی پندرہ کتابیں اور ان پر ۱۰؍ کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ موصوف ’’نینی تال یاترا ‘‘ کا ڈول ڈال چکے ہیں۔ نظام صدیقی ، پروفیسر ارتضیٰ کریم اور ڈاکٹر عبدالحق امام پر ان کی کتابیں جلد متوقع ہیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی پر مقالہ لکھ کر عبید حاصل نے جے پور یونیورسٹی (راجستھان) سے ایم فل ، ریحانہ عزیز نے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ، میرٹھ (یوپی) اورایم عالم نے ونوبا بھاوے یونیورسٹی ، ہزاری باغ (جھارکھنڈ) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ سدھو ، کانہو یونیورسٹی ، دُمکا (جھارکھنڈ)میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن ہوا ہے۔ ایل این متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ (بہار) سے محترمہ عذرا مناظ ’’مناظر عاشق ہرگانوی: ایک منفرد افسانہ نگار‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری لے چکی ہیں۔ بھوپیندر نرائن منڈل یونیورسٹی ، مدھے پورہ (بہار) سے محمد فاروق (کولکاتا) ’’پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی طنز و مزاح نگاری ‘‘کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ قلم بند کر رہے ہیں۔
مناظر عاشق ہرگانوی کی ادبی اور تعلیمی خدمات کے پیش نظر ہندوستانی محکمہ ڈاک نے ۲۰۱۸ء میں ان پر پانچ روپے کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا ہے، جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ اردو حلقوں کے لئے بھی بڑا اعزاز ہے۔ ۲۰۱۸ء میں ہی ہندی اور انگیکا میں لکھنے کی وجہ سے دہلی کے ادارہ ’’انگ مدد فاؤنڈیشن ‘‘ نے بھاگلپور جا کر اور پروگرام کر کے ’’تلکا مانجھی راشٹریہ سمّان‘‘ دیا ہے اور اسی سال انگریزی میں لکھنے کی وجہ سے دہلی کے ادارہ ’’فرینڈ شپ فورم آف انڈیا ‘‘ نے ’’گولڈن پرسنالٹی ایوارڈ ‘‘ سے نوازا ہے۔
مناظر عاشق ہرگانوی کی ذاتی زندگی پر توجہ دی جائے تو ان کے یہاں آسودگی کی جلوہ نمائی ملتی ہے ۔ ان کی اہلیہ محترمہ فرزانہ پروین بھاگلپور یونیورسٹی سے اردو آنرس میں ٹاپر رہنے کے باوجود ہاؤس وائف ہیں۔ ان کے دو بیٹے انجینئر ذیشان فیصل اور انجینئردانش حسن ہیں۔ ایک بیٹی بریشہ پروین ہے جو ڈاکٹر ہے اور ان کے داماد احتشام احمد روشن بھی ایم ایس ڈاکٹر ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے ذیشان فیصل کی بیگم بھی ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے دادا خان بہادر حاجی عبدالرحیم مرحوم وکالت کرتے تھے ۔ ان کے والد عبدالسلام صدیقی مرحوم بینک میں منیجر تھے۔ ان کی والدہ عنصری خاتون ہاؤس وائف تھیں۔ مناظر عاشق ہرگانوی کی دونوں بہنوں اور بہنوئیوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی بھی گزشتہ ۱۷؍اپریل ۲۰۲۱ء دوپہر ڈھائی بجے کے قریب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ تدفین دوسرے روز یعنی ۱۸؍اپریل ۲۰۲۱ء صبح نو بجے ان کی رہائش گاہ کے نزدیک برہپورہ بھیکن پور قبرستان، بھاگلپور میں عمل میں آئی۔ مضمون کا اختتام اپنے اس قطعہ پرکررہا ہوں :
شاعرِ شیریں دہن تھے ڈاکٹر ہرگانوی
نازشِ شعر و سخن تھے ڈاکٹر ہرگانوی
جن کی ہر تحریر میں پنہاں شعورِ آگہی
موجبِ معیارِ فن تھے ڈاکٹر ہرگانوی
………
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر
08902496545