دہلی سے لکھنئو تک مظلوم اورتنگ حال عوام پر پولیس کا جبر قابل مذمت
(احمد رضا )
سہارنپور : کانگریس کے قائدین کا صاف کہناہیکہ لاک ڈائون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس نے گزشتہ ۷۰ دنوں کی مدت میں کانگریسی لیڈران اور کارکنان کیساتھ ساتھ مسلم علاقوں میں دل کھول کر آفت مچائی دہلی اور یوپی پولیس نے گزشتہ چھ سالوں کی دل میں موجود ایک فرقہ کیخلاف بھڑکی حسد سخت ترین کاروائی کرتے ہوئے پوری کی وہیں سرکاری اشارے پر لاک ڈائوں کی سختی میں بھوکے حال افراد پر شکنجہ کستے ہوئے اربوں کی رقم وہیکل کے چالان کاٹ کر صوبہ بھر سے جمع کی اور بڑے سیاست دانوں اور افسران کی واہ واہی حاصل کی مظلومین کی آہ وبکا یہاں کوئی سننے اور کہنے ط والا نظر نہی آرہاہے جگہ جگہ مسلم علاقوں کے چوراہوں، گلیوں اور محلوں میں پولیس کی گالیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور لاٹھیاں چلتی ہوئی نظر پڑتی ہیں چھ سال کا بچہ ہو ، عورت ہو، لڑکی ہو یا پھر ساٹھ سالہ بزرگ سبھی کیساتھ ایک جیسا ظالمانہ سلوک دہلی سے لکنئو تک ٹویٹر، فیس بک اور سوشل میڈیا پر مع ثبوت اور ویڈیو دیکھنے کو ملا خوب واہ ویلا مچا اسی بیچ دہلی سے صفورہ زرگرم کانگریس کے دہلی صدر اور جامعہ کے طالب علموں کو ملزم بناکر جیل بھیج دیاگیا وہیں اتر پردیش میں اسی طرح سے کانگریس کے قائد اجے کمار للو اور سچن چودھری کو جیل بھیج دیاگیا آج کے اس پر فتن دور میں جب کرونا وائرس ہر ایک انسان کا دشمن بنا پھر رہا ہے اس طرح کے افسوسناک واقعات رو نما ہو رہے ہیں دنیا خوف سے تڑپ رہی ہے وہیں پولیس کی لاٹھیاں ہیں کہ برس رہی ہیں انسانیت شرمسار ہو ر ہی ہے گزشتہ ماہ سے دیوبند کا پورا علاقہ اور مقامی شہری محلہ پیر والی گلی، گوٹے شاہ، پکا باغ، آلی آہنگران، مہندی سرائے، آزاد کالونی، اندرا چوک، سرائے شاہجی، لوہانی سرائے، کھاتہ کھیڑی، رائے والا اور جھوٹے والان میں پولیس بچوں، بڑوں اور خواتین کو پہلے خوب گالیاں دیتی ہے پھر لاٹھیاں برساتی آرہی ہے ا گزشتہ ہفتہ پل کمبوہان پر، ایکتا کالونی اورمقامی پیر والی گلی میں پولیس زیادتی کے خلاف جب لوگ پولیس کے خلاف سڑک پر آئے تب مقامی ایم پی اور دیگر افراد نے یکجہ ہوکر پولیس افسران سے اس حرکت کی سخت الفاظوں میں مذمت کی اور ایسے عملہ کو مسلم علاقوں سے ہٹائے جانیکی اپیل کی!
کانگریس کے قائد چودھری مظفرتومر کا کہناہیکہ ہمارے ریاستی سربراہ اجے کمار للو اور سچن چودھری جیسے معزز افراد کو جیل رسید کرنا ظلم وجبر ہے کانگریسی اس جبر کو سہن نہی کریں گے مظفر تومر کا صاف کہنا ہیکہ ایسے بد ترین حالات اور نازک گھڑی میں انسانیت کے ناطہ پولیس افسران کیساتھ ساتھ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مخلو ق خدا کی جہاں تک رسائی ممکن ہو خدمت کریں اور اس فرض منصبی کو بخوبی نبھائیں بے حال مزدور، پچھڑے، بھوکے اور تنگ حال افراد کے ساتھ ظلم وجبر ظلم ہے کھلا ظلم اور جبر آج کے ان حالات میںہو یہ رہا ہے کہ معاشرہ میں جن طبقات کی حق بیانی کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے وہ تماشائی بنے ہوئے ہیں پولیس جبر پر قیادت چپ ہے وہیں صحافت کا بھی یہاں ایک بڑا طبقہ سرگرم عمل ہے اور اسکا پیشہ بھی سچ بتاناہے وہ دنیا کو وہی بتائے جو سچ ہے ،وہی چھاپے کہ جن گھنونے اور پرفتن مسائل سے آجکل انسانیت جوجھ رہی ہے لیکن آج کے زمانے میں میڈیاکا دائرہ بہت وسیع ہو نیکے بعد بھی سچ کو چھپا رہاہے مختلف سوچ و فکر رکھنے والے حضرات بھی اس یونٹ کے اندر شامل ہیں، اس میں سے پرنٹ میڈیا تو کہیں نہ کہیں غنیمت ہے لیکن اسی شعبہ سے تعلق رکھنے والا ایک جدد پسند ،ایڈوانس ،اسمارٹ میڈیاجس کو ہم آج الیکٹرانک میڈیا کہتے ہیں وہ اپنا کردار صحیح نہیں نبھا رہا ہے یہ ٹی وی چینلوں کا گروپ پورے سماج اورتمام مذاہب کے درمیان نفرت کا بیج بو رہا ہے جو معیار انسانیت اور انکے پیشہ سے سراسرانصاف نہیں ہے ہوناتو یہ چاہئے کہ اس ہولناکی میں جس میں ساری دنیا ایسی بیماری و وباء سے آپس میں ملکر نجات پانے کی کوشش کر رہی ہے الکٹرانک میڈیا کومحبت کے ساتھ انسانیت کے پیغام کو عام کرنا چاہئے تھا لیکن آج سڑک پر مرتے مزدور اور بھوکے مرتے افراد نظر نہی آرہے ہیں ریلوں کی لاشیں ان کو نظر نہی آرہی ہیں! فوٹو۔۔(۲) پولیس کا جبر عوام کے ساتھ