ڈاکٹر سلیم خان
ممبئی کے پیڈر روڈ پر میں دھماکہ خیز اشیاء سے لدی ایک لاوارث گاڑی ملی ۔ کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا مگر دس دن بعد گاڑی کے مالک کی لاش مل گئی ۔ متوفی کی بیوی نے اپنے شوہر کے قتل الزام ایک پولس انسپکٹر پر لگایاپہلے اس کا تبادلہ اور اب گرفتار کرلیا گیا ۔ تقریباً 19؍سال قبل گھاٹکوپر بس اسٹینڈ پر دھماکہ ہوا تھا۔ دو افراد ہلاک اور 39 زخمی ہوئے تھے ۔ کئی گرفتاریاں ہوئیں تھیں ۔ دس دن بعد ان میں سے ایک کی لاش ملی ۔ متوفی کے وا لد نے اپنے بیٹے کے قتل کا الزام ایک پولس انسپکٹر پر لگایا اور اسے معطل کردیا گیا۔ ان دونوں واقعات میں پولس انسپکٹر اور قتل کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے اور کبھی کبھار تاریخ کے ساتھ دوہراتی ہے۔ مکیش امبانی کے گھر سے قریب گاڑی 25 ؍فروری 2021کو کھڑی کی گئی اور اس کے مالک ہیرین من سکھ کی لاش 5؍ مارچ کو ملی ۔ گھاٹکوپر معاملے میں خواجہ یونس کو 25؍ دسمبر 2002 کو گرفتار کیا گیا اور ان کی لاش تو 6؍جنوری 2003 کو ملی مگر قتل 5 ؍جنوری کو کیا گیا تھا۔ ان دونوں معاملات میں 5؍اور 25؍تاریخ کے علاوہ سچن وزے نامی انسپکٹر مشترک ہے ۔
ممبئی پولیس کے اُس انسپکٹر کو 12 گھنٹے سے زیادہ تفتیش کے بعدقومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے گرفتار کرلیا ہے۔اس سے قبل تھانے کی سیشن کورٹ نے پیشگی ضمانت کی درخواست مسترد کر تے ہوئے کہا تھا کہ ملزم کی حراست میں تفتیش انتہائی ضروری ہے۔ وزے کی گرفتاری کے بعد اب بی جے پی نارکو ٹیسٹ کا مطالبہ کررہی ہےتاکہ یہ معلوم ہو حکومت مہاراشٹر اسے بچانا کیوں چاہتی ہے؟ ایسے کن ناموں کو مہاراشٹر حکومت بچانا چاہتی ہے؟ شیو سینا اور مہاراشٹر حکومت کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے آئے۔ شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے اس گرفتاری کو ممبئی پولس کو بدنام کرنے کی کوشش اور اس کے حقوق میں دراندازی قرار دیا ہے ۔راوت کے مطابق اس معاملےمیں کسی قومی ایجنسی کی ضرورت نہیں تھی این آئی اے نےبہت جلد بازی دکھائی ۔ اس سیاسی رسہ کشی سے قطع نظر سچن وزے کا ایک مبینہ بیان سوشیل میڈیا میں گردش کررہا ہے ۔ ان سے منسوب اس بیان میں لکھا ہے کہ اب میرے پاس نہ تو 17 سال کی آگے زندگی ہوگی اور نہ ملازمت اور نہ جینے کا صبر۔ میرا خیال میں اس دنیا کو خیرباد کہنے کا وقت قریب آچکا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کا بیان ہے جو اپنے65 انکاونٹرس پر فخر جتاتا تھا ۔ اس موقع پر بے ساختہ والی آسی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے
19؍سال قبل خواجہ یونس قتل معاملے میں سچن وزے کے ساتھ کانسٹبل راجندر تیواری، سنیل دیسائی اور راجہ رام نکم کو بھی قتل کی سازش کرنے کے الزام میں معطل کردیئے گئے تھے ۔ اس کے بعد 2007 تک وزے اپنی بحالی کے لیے ہاتھ پیر مارتا رہا لیکن جب وہ درخواست مسترد ہوگئی تو اس نے استعفیٰ دے دیا اورایک سال بعد وہ شیوسینا کے اندر شامل ہوگیا ۔ ہمارے معاشرے میں بے قصور لوگوں کا انکاونٹر معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اس کا اندازہ 2014 میں بنائی جانے والی ایک مراٹھی فلم سے کیا جاسکتا ہے جو وزے کی زندگی پر بنائی گئی تھی ۔ اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ شیوسینا کبھی اقتدار میں آکر اس کی ملازمت بحال کردے گی مگر جون 2020 ءکورونا کے بہانے ان چاروں کی ملازمت بحال ہوگئی۔ اس کے خلاف آسیہ بیگم نے توہین عدالت کی شکایت کردی۔ انہوں نے سوال کیاکہ حکومت نے جس طرح میرے بیٹے کے قاتل کی ترقی کرکے بحالی کی ہے اگر وہ حکومت کے کسی فرد کے بیٹے کا قاتل ہوتا تو کیا یہی معاملہ ہوتا ؟سرکارایسےقاتل کی مدد کررہی ہے جس پر ہنوز مقدمہ جاری ہے اور وہ ماخوذ ہے ۔ آسیہ بیگم کی شکایت پر اگر سچن وزے کی بحالی کو مسترد کردیا گیا ہوتا تو آج وہ اس مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا ۔ وہ تو حکومتِ مہاراشٹر سے یہ کہہ رہا ہوگا کہ ؎
اور کوئی طلب اَبنائے زمانہ سے نہیں !
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
کورونا کے زمانے میں پالگھر کے اندرہجومی تشدد کے بعد ارنب گوسوامی نے ادھو سرکار کا جینا دوبھر کردیا تھا ۔ اس وقت ارنب کو ٹھیک کرنے کے لیے سچن وزے کو لایا گیا اور ٹی آر پی سمیت انوائے نائک کا معاملہ اس کے حوالے کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارنب کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ بی جے پی لاکھ کوشش کے باوجود اپنے چہیتے کی کوئی مدد نہیں کرسکی لیکن اسے موقع کا انتظار تھا ۔ اس اسمبلی سیشن سے پہلے پوجا چوہان کی خودکشی میں سنجئے راٹھوڑ نامی وزیر کا نام آنے سے بی جے پی کو شیوسینا کے خلاف ہنگامہ کھڑا کرنے کا پہلا موقع ملا اور اس میں اسے کامیابی ملی ۔ راٹھوڑ کو استعفیٰ دینا پڑا ۔ دوسرا موقع مکیش امبانی کے گھر پر دھماکہ خیزمواد سے بھری گاڑی اور کے مالک کی خودکشی یا قتل نے عطا کردیا ۔ اس معاملے نے نہ صرف کورونا کے زمانے میں خوب نیک نامی کمانے والی ادھو حکومت کو بلکہ سچن وزےکے سبب رسوا ہونا پڑا ۔وہ ایک ایسے وقت میں پھنس گیا جب پوری طرح بے فکر ہوچکا تھا۔ ایسے ہی موقع کے لیے والی آسی نے کہا ہے؎
فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے
امبانی کےمعاملے میں اور من سکھ کی خودکشی کے بعد جب سیاست نے زور پکڑا تو حزب اختلاف نے سچن وزے کو سرکار کا داماد کہہ دیا۔ اس کے جواب میں حکمراں جماعت نے کہا وہ اسامہ بن لادن نہیں ہے۔ اپوزیشن وزے کو عہدے ہٹا کر گرفتار کرنے کا مطالبہ کرنے لگاتو درمیان کا راستہ یہ نکالا گیا کہ تبادلہ کردیا جائے مگر بات نہیں بنی ۔ وزے کو دوسری بار اس طرح کی رسوائی سے گزرنا پڑرہا ہے ۔ خواجہ یونس قتل کے معاملے میں بھی سچن وزے کو معطل کردیا گیا تھا ۔ انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ پر اب بھی جریدے کے نائب مدیرکرن تریل کی 2 مارچ 2012 کی تحریر کردہ ایک رپورٹ موجود ہے ۔ اس میں درج ہے کہ ایک ایسے انکاونٹر اسپیشلسٹ کے مطابق جسے پہلے خواجہ یونس کے قتل معاملے میں گرفتار کرنےکے بعد بری کردیا گیا یونس کی موت سچن وزے کے ذریعہ زدوکوب کیے جانے کے سبب ہوئی تھی ۔
اس الزام کی تصدیق 6جنوری 2003 کو ہندو اخبار میں چھپی اس خبر سے بھی ہوتی جس میں خواجہ یونس کے بھائی خواجہ حسین نے کہا تھا اس کا بھائی جیل میں اس قدر کمزور تھا کہ اس کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہورہا تھا۔ ایک چشم دید گواہ نے بھی خواجہ یونس کو پولس حراست میں مارپیٹ کی شہادت دی۔ اس کے بعد سچن وزے پر پولس کی حراست ہونے والی موت کو چھپانے اور پربھنی جاتے ہوئے خواجہ یونس کے فرار ہونے کی فرضی کہانی بنانے کے الزامات بھی لگے۔ مذکورہ افسر نے آسن گاوں میں یونس کی لاش کو نذر آتش کرنے کا الزام بھی لگایا لیکن اس کے باوجود وزے نے ان الزامات کو جھٹلا کر دعویٰ کردیا کہ ممبئی ہائی کورٹ میں وہ بے قصور ٹھہرے گا۔ سی آئی ڈی کی تفتیش کرنے والی ٹیم نے 2003 میں پایا کہ فرار کی کہانی جھوٹ تھی اور یونس کی موت پولس کی حراست میں ہوئی تھی۔
خواجہ یونس کے والدین نے اپنے بیٹے کی تلاش مقدمہ درج کیا اوربامبے ہائی کورٹ میں اس کی آخری سماعت 2012 کے ابتداء میں ہوچکی لیکن ابھی تک فیصلے کا انتظار ہے۔خواجہ یونس کے بھائی سید خواجہ حسین نے سچن وزے پر قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ان کے مطابق والد کی سبکدوشی کے بعد ملنے والی ساری رقم اس مقدمہ کی نذر ہوگئی اور 2004 میں صدمہ سے ان کا انتقال بھی ہوگیا ۔ خواجہ حسین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عام آدمی یہ حرکت کرتا تو اسے اتنا غصہ نہیں آتا مگر چونکہ ایک قانون کے رکھوالے نے ایسا کیا ہے اس لیے وہ اسے سزا دلا کر رہے گا اور امید ہےکہ عدالت سے انصاف ملے گا۔ خواجہ یونس کی75 سالہ والدہ آسیہ بیگم کہتی ہیں کہ اس معاملے کے سارے ملزم رہا ہوچکے ہیں میرا بیٹا زندہ ہوتا تو وہ بھی چھوٹ جاتا اور وہ چونکہ ایک کمپیوٹر انجنیر تھا اس لیے خوشحال زندگی گزارتا۔عمر اور بیماری کے باوجود وہ قاتل کو قرار واقعی سزا دلانے کے لیے پر عزم ہیں اور ہر سماعت میں 600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ممبئی آتی ہیں ۔ وہ اپنے بیٹےکے قاتل کو سزا دلانے کی خاطر سپریم کورٹ تک جانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ مشیت کا یہ عجب انتظام ہے کہ خواجہ یونس کے ملزم کو ٹھکانے لگانے کا کام مسلمانوں کی اولین دشمن سیاسی جماعت بی جے پی سے لیا جارہا ہے۔ کون جانے بی جے پی کو کامیابی ملے نہ ملے اور سچن وزے جیسے لوگ جہانِ فانی میں بچ جائیں تب بھی اللہ عدالت میں سب کا کچھا چھٹاّ کھل جائے گا اور کوئی نہیں بچ سکےکیونکہ بقول شاعر ؎
ایک ایک لفظ تمہارا تمہیں معلوم نہیں
وقت کے کھردرے کاغذ پر رقم ہوتا ہے
٭٭٭