تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
اشاعتی ادارہ:شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ
ضخامت: 632 صفحات،قیمت:600 روپے
تبصرہ نگار:نوید احمد خاں
اردو ادب میں دودبستانوں کوخاص طورپراہمیت حاصل رہی ہے۔دبستان دہلی اوردبستان لکھنؤ۔شعروادب کی محفلیں اولاًدہلی میںجمتی تھیں لیکن جب دہلی پر برا وقت پڑا،دہلی تباہ وبرباد ہواتو یہاں کی تقریباً سبھی چھوٹی بڑی ادبی شخصیات نے لکھنؤ کا رخ کیاتو شعروادب کی یہ محفلیں لکھنؤکی زینت بننے لگیں۔کچھ عرصہ بعدجب لکھنؤزوال پذیرہوا تو یہاں کے کچھ حضرات عظیم آباد ہجرت کرتے ہیں تو کچھ رام پور کا رخ کرتے ہیں۔اس طرح دبستان لکھنؤکے بعد دبستان رام پور اور دبستان عظیم آباد وجود پاتے ہیں۔لیکن ان کے علاوہ بھی ایک قدیمی شہر ایسا ہے جس کی بولی پرہی اردو زبان کا تاناباناتیارہواہے۔یہ شہر دہلی کے بالکل نزدواقع ہے اور اسی شہر کو خطوط غالب کے پہلے مجموعہ عود ہندی کی اشاعت کا فخر حاصل ہے۔یہ وہی جگہ ہے جہاں کے ادباء وشعراء نے ہر زمانے میں اردو زبان وادب کے دامن کو وسعت بخشی ہے۔لیکن اس کو ادبی دنیا میںوہ مقام ومرتبہ حاصل نہ ہوسکاجس کا وہ حقدار تھایعنی کبھی اس کو دبستان کی حیثیت عطا نہ ہوسکی۔یہاں میری مراد سرزمین میرٹھ سے ہے۔
چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ کا قیام آزادی کے بعد1947 میں عمل آیا جس میں شعبہ اردو کا قیام جولائی 2002ء میں کیاگیا۔آج یہ شعبہ تقریباً20 سال10 ماہ کاسفر بڑی ہی کامیابی کے ساتھ طے کر چکا ہے۔کسی ادارہ،شعبہ یا تنظیم کی ترقی،مقبولیت اور کامیابی کا دارومدار اس کی بافعال سرپرستی پر منحصر ہوتاہے۔اس شعبہ کے روح رواں،امیرکارواں صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشیدپوری ایسی ہی بافعال اور متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔آپ نے اس سرزمین کو دبستان کی حیثیت دلانے کا خواب سرزمین میرٹھ میں قدم رکھنے کے وقت ہی بن لیا تھااور تبھی سے اپنے اس دیرینہ خواب کوشرمندۂ تعبیر کرنے کے لئیشب وروز جی توڑ مشقت کرتے رہے۔اسی خواب کو حقیقت بنانے کے لئے آپ نے سرزمین میرٹھ اور قرب وجوارسے تعلق رکھنے والے متعدد ادباء وشعراء پر طلبہ کو ایم فل،پی ایچ ڈی میں تحقیق کرنے موقع فراہم کیا۔علاوہ ازیں اس شعبہ کوعالمی سطح پر شہرت بخشنے والے،شعبہ کی زینت اور چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کی طرف سے یوجی سی کیئر لسٹ میں شامل ششماہی ریسرچ جرنل’’ہماری آواز‘‘کے متعدد خصوصی شمارہ سرزمین میرٹھ کو دبستان کی حیثیت دلانے کی غرض سے شائع کئے۔ہماری آواز کا یہ تازہ شمارہ اسی مقصد کی تکمیل کی طرف بڑا قدم ہے۔دبستان کی حیثیت کے لئے ادب کی تقریباًتمام اصناف میں انجام دی جاچکی اور انجام دی جارہی خدمات کومنظرعام پر پیش کرنا لازمی ہوتاہے۔لہذا ’’ہماری آواز‘‘کا یہ شمارہ سرزمین میرٹھ کی شعری اصناف سے روبرو کرانے کے لئے ’’دبستان میرٹھ شاعری‘‘کے نام سے تقریباً700 صفحات کی بھاری بھرکم ضخامت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ میرٹھ کو دبستان کی حیثیت دلانے کی غرض سے اس ریسرچ جرنل کے دو اور خصوصی شمارہ جلد شائع کئے جائیں گے جو دبستان میرٹھ نثر اور مشاہیر میرٹھ(یہاں کے تاریخی مقامات،عمارتیں اور میرٹھ کی تاریخی،سماجی اور سیاسی حیثیت پر مشتمل مضامین پر مزین) کے حوالے سے ہوں گے۔
ہماری آواز کے اس تازہ شمارہ’’دبستان میرٹھ شاعری‘‘کے ذریعے سرزمین میرٹھ اور قرب وجوارمیںشعری اصناف میں انجام دی گئیں ادبی خدمات کو مختلف مضامین کی شکل میں منظرعام پر لایا گیا ہے۔اس شمارہ کو شعری اصناف کی بنیاد پر دس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔آغاز میں مدیر اعلی اور مدیرہ کے بہت ہی معنی خیز اداریے پیش کئے گئے ہیں۔یہی اداریے در اصل رسائل وجرائد کی روح ہواکرتے ہیں۔
حصۂ اول جو ’میرٹھ میں اردو نظم‘کے عنوان سے ہے جس میں سرزمین میرٹھ میں نظم کے میدان میں انجام دی گئیں خدمات کو بیس مضامین کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔جن کے مطالعہ سے دبستان میرٹھ کی نظم نگاری سے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں۔اس شمارہ باب دوم بعنوان’میرٹھ میں نعت گوئی‘ ہے جس میں یہاں کی نعت گوئی کے تعلق سے انجام دی گئیں خدمات کو تین مضامین میں پیش کیا گیا ہے۔اردو شاعری کے دامن کو وسعت بخشنے میں صنف مرثیہ کا اہم رول رہا ہے۔تقریباً ہر عہد میں ہی مرثیہ نگاروں نے اپنی کاوشوں سے شاعری کو مالامال کیاہے۔لہذا دبستان میرٹھ میں بھی متعدد مرثیہ نگاروں نے صنف مرثیہ کے ذریعے یہاں کی شاعری کو بلندی عطا کی ہے۔اس شمارہ کے باب سوم کاعنوان ’میرٹھ میں اردو مرثیہ‘ ہے جس میں ایم جی ایم پی جی کالج کے سابق پرنسپل اور صدر شعبۂ اردو پروفیسر عابد حسین حیدری نے اپنے مضمون ’اردو مرثیہ اورمیرٹھ‘‘ کے ذریعہ سرزمین میرٹھ کے مرثیہ نگاروں کی خدمات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جو مرثیہ نگاری سے متعلق مکمل معلومات پر مبنی ہے۔
میرٹھ کے شعراء نے صنف مثنوی میں بھی خوب طبع آزمائی کی ہے۔یہاں کے مثنوی نگار شعراء کی خدمات کو ہماری آواز کے اس خاص شمارہ میں حصۂ چہارم میں’میرٹھ میں اردو مثنوی‘کے عنوان سے جگہ دی گئی ہے۔اردو شاعری کی ایک اہم اور مشہور صنف رباعی بھی ہے۔زیادہ تر شعراء نے اس صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔دبستان میرٹھ کے رباعی گو شعراء کو اس شمارہ کے باب پنجم میں بعنوان’میرٹھ کے اہم رباعی گوشعراء‘پیش کیاگیاہے۔باب ششم میں سرزمین میرٹھ کی مزاحیہ شاعری کو’میرٹھ کی مزاحیہ شاعری‘ کے عنوان سے چار مضامین کے ذریعے منظرعام پرلایاگیاہے۔ادب میں لوک ادب کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔یہ لوک گیت عوام وخواص میں یکساں طور پرآج بھی مقبول ہیں۔اس شمارہ کے باب ہفتم میں دبستان میرٹھ کے لوک ادب کو ’میرٹھ کے لوک گیت‘کے عنوان سے محبان
اردو کو متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اردو شاعری کی وہ صنف جس کے بنا اردو شاعری کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا اور شاعری کی سب سے مقبول اور ہردل عزیزصنف سخن’غزل‘کو ہماری آواز کے اس خصوصی شمارہ ’دبستان میرٹھ شاعری‘ کے باب ہشتم میں ’’میرٹھ میں اردو غزل‘‘کے عنوان سے منصہ شہود عطا کیاگیاہے۔دبستان میرٹھ کے غزل گو شعراء کے ادبی کارناموں کو 27مختلف مضامین کے ذریعے بروئے کارلایاگیاہے۔باب اول اور باب ہشتم اس خاص شمارہ کی روح ہیں۔
باب نہم میں میرٹھ کے قرب وجوار خصوصاً کٹھور،سہارنپور اور کھتولی کے ادبی منظر نامہ کو تین مضامین کے ذریعے منظر عام پر لاکر میرٹھ کو دبستان ثابت کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ہماری آواز کے اس تازہ شمارہ کے اختتامی حصہ یعنی باب دہم میں دبستان میرٹھ سے تعلق رکھنے والے ادباء وشعراء کی اہم کاوشوں پربہت ہی عمدگی سے تحریر کئے گئے چھ تبصرے پیش کئے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں آخر میں شعبہ ٔ اردو میں ملک بیرون ملک سے آنے مہمانوں کے تاثرات کو پیش کیا گیا ہے جو اس شعبہ کے ساتھ ہی اس شمارہ کی زینت میں چار چاند لگادیتے ہیں اسی کے ساتھ ہی شعبہ اردو کی سرگرمیوں،پروگراموں اور شعبہ سے متعلق خبروں کو جگہ دی گئی ہے۔28 اکتوبر سے یکم نومبر 2022 تک منعقد پانچ روزہ بین الاقوامی کثیر لسانی نوجوان اردو اسکالرس فیسٹیول(IMYUF)کے ہرروز ہوئے پروگرام کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔اسی فیسٹیول کے زیر اہتمام 31 اکتوبر2022 کو منعقد بنات کے ایک پروگرام کو ’بنات کا چھٹا یوم تاسیس‘ عنوان سے رپورتاژکی شکل میں پیش کیاگیاہے۔ اس شمارہ کے سب سے آخر میںشعبہ کی پوری کارکردگی پر انیس احمد حسینی انیس میرٹھی کے ذریعے ’تخیل وتاثر‘پیش کیا گیاہے۔
شعبہ ٔا ردو کے روح رواں،امیر کارواں پروفیسر اسلم جمشیدپوری کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ ہمیشہ ہی گنگا جمنی تہذیب کی پاسداری کرتے ہیں اور شعبہ کی بیشترسرگرمیوں میںاردو کے ساتھ ہی ہندی زبان وادب کو بھی شامل کرتے ہیں۔آپ اپنے گنگا جمنی تہذیب کے اس وصف کو شعبہ کے ریسرچ جرنل کے ذریعے بھی پیش کرتے ہیں۔ شعبہ اردو کا یہ ریسرچ جرنل اپنے آغاز سے ہی اردو کے ساتھ ہی ہندی کے بھی چند صفحات پر مشتمل ہوتاہے۔’ہماری آواز کا یہ تازہ شمارہ ’’دبستان میرٹھ شاعری‘‘بھی ہندی کے چند صفحات پر مشتمل ہے جس میں ہندی شعراء کی کچھ تخلیقات کو پیش کیا گیا ہے۔
ہماری آواز کے اس تازہ شمارہ ’’دبستان میرٹھ شاعری‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ خصوصی شمارہ قارئین کو کافی پسند آئے گا اور ان کے علم میں بیش بہا اضافہ کرے گا۔یہ شمارہ سرزمین میرٹھ کو دبستان کی حیثیت عطا کرانے میں میل کا پتھر ثابت ہوگا۔ میرٹھ اورقرب وجوار کے تعلق سے تحقیق کرنے والے ریسرچ اسکالرس کی معلومات میں اضافے کے ساتھ ہی ان کی رہنمائی میں کافی مددگار ثابت ہوگاکیونکہ یہ مجلہ دبستان میرٹھ کی شعری اصناف سے متعلق تقریباًمکمل معلومات کا احاطہ کرتاہے۔ہماری آواز کے اس شاندار شمارہ کی اشاعت کے لئے مدیر اعلی،صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ان کی پوری ٹیم خصوصاً ڈاکٹر شاداب علیم،ڈاکٹر آصف علی اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی قابل مبارک باد ہیں۔اللہ رب العزت سے دعاہے کہ پروفیسر اسلم جمشیدپوری صاحب کو مکمل صحت وتندرستی عطافرمائے۔آمین۔
اسسٹنٹ پروفیسر (اردو)
9568855136
٭٭٭٭