اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تبصرہ نگار:غوثیہ سلطانہ نوریؔ، شکاگو
پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر فاروقی حال مقیم نیویارک امریکہ اور ہندوستان کے مایۂ ناز سپوت ، تہذیب و تمدن کی جان ، علم و ادب کی پہچان ۔ ایک صاحبِ فکر مصنف شبنمی اسلوب کی لطافت ، فلسفے کے مسائل تو کبھی روح کے اسرار جذبے اور فکر و فن کی ہم آہنگی لئے فاروقی صاحب ادب اور دنیا دونوں کو کھلی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اندازِ فکر اور افتادِطبع کے اعتبار سے یقینا عمدہ ادیبوں ، مصنفوں کی فہرست میں خاص کر وطنِ ثانی میں سنگ میل ہے۔ محکمۂ فلاح و بہبود نیویارک سے رٹائر ہونے بعد ان کا کبھی نہ تھکنے والا قلم اور کبھی نہ تھکنے والی آنکھ کی طرح ادب اور خطِ ارض ہر گوشے کو اپنے احاطے میں لئے جا رہے ہیں۔
’’امریکہ میں گلدستۂ ادب‘‘ شاید یہ اٹھائیسویں تصنیف ہے۔ مغربی دنیا میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے سبب اظہار میں جسارت اور موضوعات میں ادبی انوکھا پن نمایاں ہے۔ ایک درد مند اور وسیع النظر شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک منکسر المزاج مصنف، عزت ، شہر ت اور مقبولیت کے ذکر میں صرف کام کرتے رہنا پایا جاتاہے۔ آپ کے سادہ سلیس انداز میں دینی مسائل ، تخلیقی بیانات موجود ہیںجو ایک عام قاری کی اصلاح اور تربیت کر سکیں۔ احاس کو احساس کی گرمی دے کر تکلم کے ذریعے ترسیل جو ہر ذی حسن اور ذی شعور قاری اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ ان کا تخلیقی شعور اور تخلیقی حسیت اظہار کے طور پر صف اول کے گرانقدر مضمون نگار ، مترجم ، مورخ اور تاریخ عالم کے مدرس ہیں۔ جن کے پاس ادب اور زندگی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ دیارِ مغرب میں اردوکی بقا اور آبرو ایسے ہی محبان زبان و ادب کے ہاتھوں محفوظ ہے اور گلشن ادب کو شادابی بخش رہے ہیں۔ فاروقی صاحب کی گرانقدر دستاویز جملہ فنی اور جمالی لوازمات کو لے کر وقت کے ساتھ سفر میں ہیں۔ ان کی کتابوں کا لامتناہی سلسلہ جن میں معرکۃ آراء تصانیف بڑے سہل اور رواں انداز میں دانشورانہ فرزانگی کی عبا اوڑھ کرعیاں ہوتے ہیں۔ کلچر ، تصانیف اور تہذیب کو ہمیشہ واحد معنی میں استعمال کیا ہے۔ ادب کی کثیرالجہت شخصیت ، عہد حاضر کے ممتاز مصنف کے پاس بدلتی رُتوں کا منظر نامہ بھی ہے سفیر اردو کے پاس وقت اور حالات کے مسائل پر گہری نظر بھی۔ اپنی مٹی سے مضبوط تر رشتہ برقرار رکھا ہے۔ آپ کی کتابیں شخصیات پر نقد و نظر کے پیمانوں کے جانچے گئے جائزے اپنی جگہ بیش قیمت ادب پارے ہیں۔ اللہ کرے یہ سلسلہ چلتا رہے اور گلدستہ زبان و ادب روزافزوں اقبال مندی سے آگے بڑھتا ہی جائے۔۔آمین بقول ذوقؔدہلوی
’’گلہائے رنگ رنگ سے زینت چمن کی ہے ‘‘
بلند قامت فاروقی صاحب کی سوچ کا زاویہ انہیں اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں ہر دم امید ، حوصلہ ، عزم اور یقین کے چراغ جلتے ہی رہتے ہیں۔
تخلیقی ذہن قدرت کی عطا ہے ۔ ان کی منفرد شوخ و فکر نہ صرف ممتاز بناتی ہے بلکہ بحیثیت تخلیق کار اپنے تاریخی اور جغرافیائی حدود کا واضح پس منظر سامنے لانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
اس ہمہ جودو ہمہ جہت شخصیت کے کارہائے نمایاں پر مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں۔ مغربی ملک میں زبان و ادب کا معمار ، تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والے شاہکار کے یکے از اولین قلمکار ہیں۔ امریکہ میں’’ گلدستۂ ادب‘‘ شاعروں اور ادیبوں کی ادب نوازی اور خدمات کو خراج تحسین تقریباً ۳۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ فہرست مضامین میں ۱۹۔اُنیس نامور ہستیوں پر تبصرہ ، تاریخ ادب کا مفصل بیان ہے ۔ محققین و مورخ کی تصنیفات کا فنی جائزہ ہے۔ تیرھویں صدی میں ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون حکمراں عنوان کے تحت ایک تاریخی دستاویز کا سلسلہ سولہویں صدی تک مسلم خاتون حکمراں کی مفصل معلومات غرضکہ ’’امریکہ میں گلدستۂ ادب ‘‘ ایک غیر معمولی اور بے مثال کاوش ہے۔ یہ کتاب ہندوستان کی تاریخی فتوحات اور معلومات سے مالا مال ہے۔ زبان و بیان پر فاروقی صاحب کو خاص دسترس حاصل ہے۔ فاروقی صاحب وہ پہلے مصنف ہیں جنہیں کینڈا اور ریاست متحدہ امریکہ میں ’’خواتین کی اردو خدمات ‘‘ کو قلمبند کیا ہے۔ گوہرادب ، گلزارادب ، مینار ادب غرضکہ گلدستہ ادب دنیائے علم و ادب کے اکابر دبستان نقد و نظر کے شناوروں کے مسافروں میں ان کا عمل ہمیشہ قدرو احترام کی تاریخ مہیا کرے گا۔ اپنی علمی و ادبی فکر وتخلیق سے اپنے عہد کے ادب کو صحت مند فکری تناظر عطا کیا ہے۔ قاری کے دل و دماغ کو جلاء اور رنگ و بو بخشا ہے جو افادیت اور اہمیت کا حامل ہے اور رہے گا۔
بقول جارج برناڈ شاہ ہم پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑنا اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا تو سیکھ گئے ہیں بس یہ سیکھنا باقی ہے کہ زمین پر انسانوں کی طرح کیسے رہیں۔ باالفاظ دیگر اس کمی کو فاروقی صاحب نے اپنی انسان دوستی سے پورا کر دیا ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اپنی طویل مشق کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر دو مثبت و منفی امکانات کی باہم پیوستگی کے باوجود انہیں اس مشاقی سے پیش کرتے ہیں کہ ان کے قاری کے سامنے انسانیت اور علمیت کی خوبصورت تصویر ابھر آتی ہے۔ اس زمانے کا قاری اتنا باشعور ہو چکا ہے کہ اسے اس بات کو سمجھنے میں کچھ دیر نہیں لگتی ، میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ کسی کے اچھے کام کو سراہنے سے ہم چھوٹے نہیں ہو جاتے بلکہ ایسے مصنف کی قدر کرکے ادبی دنیا کا مان بڑھاتے ہیں۔ زبان اردو کی شان بڑھاتے ہیں۔
ظظظ