با اخلاق و باغ و بہار شخصیت:راجہ محمود آباد
سید محمد جابر جوراسی
مدیر ماہنامہ اصلاح لکھنؤ
اِس وقت جبکہ میں اپنے وطن جوراس ضلع بارہ بنکی میں مقیم ہوں اِس افسوسناک خبر نے بہت صدمہ پہنچایا کہ خانوادۂ ریاست محمود آباد کی اک نمایاں شخصیت الحاج راجہ محمد امیر محمد خاںعرف سلیمان میاں والی ریاست محمود آباد نے ایک وقفہ کی علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔ بہت ہی با اخلاق و باغ و بہار شخصیت تھے علم و ادب سے خصوصی شغف تھا ،کئی زبانوں کے ماہر تھے، عزاداری سید الشہداء علیہم السلام میں منہمک رہتے تھے بہترین مرثیہ خواں تھے، سیاسی میدان کے بھی قد آور شخصیت تھے ،اترپردیش کی ریاستی اسمبلی کے منتخب رکن رہے تھے ، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے موجودہ منتظم و متولی تھے وہاں سے تعلق کی وجہ سے بارہا مجھ سے بالمشافحہ ملاقات رہی۔مارچ ۲۰۱۲ء میں جب میری آنکھ کے دو غلط آپریشن ہوئے اور بینائی پر آنچ آئی وہ میری عیادت کے لئے دفتر اصلاح بالخصوص تشریف لائے اور تادیر محو گفتگو رہے۔ انہیں اِدھر دو بڑے صدمے بھی برداشت کرنا پڑے روحانی صدمہ یہ کہ سوسالہ قدیمی تبلیغی ادارہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کی تعلیمی و تبلیغی سرگرمیاں معطل ہوگئیں اور ان کی ریاست محمود آباد کی ایک بڑی جائیداد پارلیمنٹ میں پاس شدہ ایک قانون کے تحت خطرے میں آگئی۔ کوئی ایسی زیادہ عمر نہیں تھی غالباً بڑے صدمات نے ان سے زندہ رہنے کا حوصلہ چھین لیا ۔ معبود ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان بیوۂ مرحوم و فرزندان کو طاقتِ صبر کرامت فرمائے۔
مرحوم اودھ کی تہذیب کا بے مثال نمونہ تھے
پروفیسر شارب ردولوی
سلیمان میاں کے انتقال کی خبر سے بہت صدمہ ہوا۔ وہ اودھ کی تہذیب ، تمدن اور یہاں کی زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھے۔ انھوں نے اس خاص کلچر اور تہذیب کی جس طرح حفاظت کی اور ان تبدیل شدہ حالات میں تہذیبی وقار کو باقی رکھاوہ ایک بڑی بات تھی۔ ان کے بزرگ مرثیہ گو تھے ، سلیمان میں کےوالد محترم کی صدی تقریب برطانیہ کی آکسفرڈیونیورسٹی نے منائی تھی اور ان کا تصنیف کردہ مرثیہ شائع کیا تھا۔اس روایت کو باقی رکھتے ہوئے سلیمان میاں نے بھی مرثیہ کے کلچر کو باقی رکھاق اور حسینیت کے فروغ میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ سلیمان میاں بھی ایک بہت اچھے تحت خواں تھےاور مرثیہ خوانی سے ان کی ایک الگ پہچان تھی۔ اپنے علم و بڑائی،مطالے اور اپنے مرتبے کے ساتھ ساتھ ان میں انکساری بھی قابل ستائش تھی ۔ وہ بغیر کسی تفریق کے تمام افراد سے ملاقات کرتےاور امیر و غریب سب سے بڑے خلوص و محبت سے پیش آتے۔ آج اس طرح اپنی تہذیب کو تحفظ دینے والے اب کمیاب ہوتے جارہے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات میںسلیمان میاں کا انتقال اس لئے بھی ناقابل تلافی ہے کہ اب اس طرح کوئی آدمی ہونا ممکن نہیں۔میں ان کے لواحقین کو تعزیت پیش کرتاہوں۔ مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت کرتا ہوں۔
بہترین شخصیت کے مالک کا انتقال
ڈاکٹر عمار رضوی
آج صبح میرے بھائی عارف نے مجھے فون کر کے یہ انتہائی افسوسناک خبر سنائی کہ راجہ محمد امیر محمد خان صاحب المعروف سلیمان میاں کا انتقال ہو گیا ہے، سن کر مجھے یقین نہیں آیا، حالانکہ میں چند دن پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، انھوں نے فرمایاتھا۔ “عمار صاحب، اب میراوقت آخر ہے۔” میں نے انھیں بہت تسلی دی، وہ بہت بیمار تھے لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ تاریخ کا ایک انسان اور ایک بہترین شخصیت کے مالک، سینکڑوں سال کی میراث کا مالک اتنی جلدی ہم سے رخصت ہو جائے گا۔ میرا ان کا ساتھ 73 سال پرانا ہے، ہم بچپن کے دوست رہے ہیں۔ آج یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بہت سایہ دار درخت نہیں رہا۔مجھے ان سے بیحد عقیدت تھی، ہمارا اختلاف بھی تھا لیکن اس کا ہمارے ذاتی تعلقات پر کبھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ میرا پورا خاندان ہمیشہ ان کے بہت قریب تھا۔ان کے پردادا ہمارے پردادا کو نواب واجد علی شاہ کے دربار سے 1872 میں مٹیابرج سے محمود آباد لائے تھے۔ آج محمود آباد ویران ہو گیا، ایک دور ختم ہو گیا۔میں اور میرا پورا خاندان مرحوم سلیمان میاں کی بیٹیوں، ان کے صاحبزادے ڈاکٹر امیر احمد خان، جناب امیر حسن خان،قمی میاں اور ان کے تمام رشتہ داروں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے درجات کی بلندفرمائے، ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
ڈاکٹر منتظر قائمی
ریاست محمود آباد کے راجہ جناب محمد امیر محمد خان کا سانحہ ارتحال یقیناً قوم وملت ،علم و ادب، تہزیب و ثقافت،مہمان نوازی و میزبانی اور انسان نوازی کے ایک باب کا خاتمہ ہے ۔ مرحوم کیمبرج یونیورسٹی سے آیسٹرو فزکس میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھتے تھے جو کہ ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں انگلیوں پر گنے جاتےہیں اور کیمبرج یونیورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی رہے۔ہندی، اردو، فارسی، فرانسیسی اور عربی سمیت سات زبانوں کے ماہر تھے۔ مرثیہ خوانی کے فن میں یکتا تھے۔ ادب سرائے جیسے ایک ادنیٰ سے پلیٹ فارم کے ممبر بنے رہے اور وقتاً فوقتاً اپنے نیک اور گراں قدر مشوروں سے نوازتے رہیے۔ اہل علم اور اہل ادب کے دلدادہ تھے۔ ہر ایک سے بہت خندہ پیشانی اور انکساری سے ملتے تھے جو اپنے آپ میں اعلیٰ ظرفی کی مثال ہے ۔ میں اکثر و بشتر ان سے نیاز حاصل کرتا رہتا تھا۔ افسوس کہ علم و ادب حکمت، فلسفہ اور انسان نوازی کا روشن ستارہ بھی ڈوب گیا۔ وہ مذہبی اور دینی معاملات میں بھی بہترین اور صحتمند فکر کے مالک تھے۔ اردو اور فارسی کے قدیم شعراء کے کلام اکثر اوقات اپنی گفتگو میں سنایا کرتے تھے۔ ان جانے سے علم و ادب کے ایک تابناک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔
راجہ محمود آباد کے خدمات فراموش نہیںکئے جاسکتے:
مولانا سیف عباس
حسینہ جنت مآب تقی صا حب میں زیر صدارت مولانا سید سیف عباس دلدار علی غفران مآب فاؤنڈیشن کا ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا ۔ مولانا سید سیف عباس نے جناب محمد امیر محمد خان راجہ صاحب محمود آباد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتےہوئے کہاکہ اودھ کی تہذیب و ثقافت کی یادگارہمارے درمیان نہیں رہے ۔
مولانا سید سیف عباس نے کہاکہ خاندان جناب محمد امیر خاں المعروف راجہ محمود آباد سے ہمارے خاندان اجتھاد کےدرمیان تعلقات و مراسم بہت قدیمی ہیں ۔مرحوم کا انتقال ملت تشیع کا ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔ مرحوم اپنے بزرگوں کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی خدمت عزا میں مشغول تھے ۔محمود آباد کے جلوس عزا میں پا پیا دہ چلنا اور زیا دہ سے زیا دہ غم مظلوم کر بلا میں خدمت کو انجام دیتے تھے ۔مرحوم عزاداری امام حسینؑمیں بڑے جو ش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔ ان کا مرثیہ خوانی کا انداز بیحد متاثر کن تھا۔
۔مولانا سید سیف عباس نے ان کی خدمات کا ذکرتے ہوئے کہاکہ مر حوم ایک بہترین انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اخلا ق حسنہ کے حامل تھےاورعلوم جدید کے ساتھ علوم دین میں بھی کافی ان کا اثر رہا ہے ۔عراق سے لیکر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں مر حوم کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ آخر میں تعزیتی جلسہ کے اختتام پرمرحوم کی ترویح روح کے لیے سورہ فاتحہ پڑھا گیا اور بلند ی درجات کے لیے دعا کی گئی اسی کے ساتھ مولانا نے دعا کی کہ ان کے بیٹوں کو و دیگر غمزدہ افراد خانوادہ کو صبر عطا فرمائے ۔ جلسہ میں مولانا مشرقین رضوی ، مولانا علی عباس نو رانی ، مولانا محمد رضا ، مولانا مر زا واحد حسین ، مولانا رہبر عسکری ، جناب ذو الکفل رضوی ، جناب ندیم عبا س، جناب ساجد عباس وغیرہ نے شرکت کی ۔
حوزہ علمیہ ابوطالبؑ میں تعزیتی جلسہ
لکھنؤ04؍اکتوبر2023 حوزہ علمیہ ابوطالب ؑ میں جناب محمد امیر محمد خان راجہ صاحب محمود آباد کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا ۔جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سہیل عباس نے کہاکہ مرحوم راجہ محمود آباد سچے عاشق رسول و آل رسول تھے ۔ عزاداردی امام حسینؑ میںبڑے جو ش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔امام حسینؑ کے غم میں اپنے منفرد انداز میں مرثیہ خوانی کرتے تھے جسے سن عزادار گریہ فرماتے تھے ان کی فن مر ثیہ خوانی بیحد متاثر کن تھی ۔ مرحوم ایک بہترین انسان تھے ۔ وہ ہمیشہ لوگوں کی پریشانیوں کے تئیں بیحد حساس تھے ۔ اللہ بطفیل محمد و آل محمدؐمرحوم کی مغفرت فرمائے اور غمزدہ کنبے کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آخر میں حوزہ علمیہ ابوطالبؑ کے اساتذہ و طلبہ نے قرآن مجید کی تلا وت کرکے انہیں ایصال کیا۔
یونٹی کالج میں تعزیتی جلسہ
یونٹی کالج میں ایک تعزیتی جلسہ کالج کے سکریٹری سید نجم الحسن رضوی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کالج کے صدر راجہ محمد امیر محمد خان آف محمودآباد کے سانحہ ارتحال پر اظہار تعزیت کیا گیا۔ اس جلسہ میں توحید المسلمین ٹرسٹ،یونٹی کالج کے اسٹاف و کارکنان اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان نے شرکت کی۔ موصو ف فلاحی ادارہ توحیدالمسلمین ٹرسٹ سے منسلک تھے اور یونٹی کالج کے صدر کی حیثیت سے تا دمِ مرگ اپنی بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔مرحوم ایک نیک دل، با فہم اور ہر دلعزیز شخص تھے جو اپنی بے باکی اور ایمانداری کے لئے جانے جاتے تھے۔کالج کے سکریٹری نجم الحسن رضوی نے مرحوم کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے مرحوم کے انتقال کو ایک نا قابلِ تلافی نقصان بتایا۔ انہوں نے کہا کہ راجہ صاحب کی شکل میں ان اداروں نے اپنا مربی و محسن کھو دیا۔جلسہ کے آخر میں مرحوم راجہ محمد امیر محمد خان آف محمودآباد کے ایصالِ ثواب کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھا گیا جس میں کالج کے دونوں شفٹ کے تمام اساتذہ ، طلبہ و طالبات توحیدالمسلمین ٹرسٹ کے ارکان اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان شامل ہوئے۔
راجہ محمود آباد کے انتقال پر جامعہ ناظمیہ میں جلسہ تعزیت
آج جامعہ ناظمیہ میں ایک تعزیتی جلسہ زیر صدارت مولانا سید فرید الحسن منعقد ہوا۔ صدر جلسہ نے راجہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں تفصیل بیان کی۔ جلسہ میں ان کے خانوادہ خاص کر ان کے فرزند علی صاحب کی خدمت میں تعزیت پیش کی گئی اور دعا کی گئی کہ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ اور مرحوم کو جوار معصومین ؑ میں جگہ عنایت فرمائے۔ مولانا سید حمید الحسن پرنسپل جامعہ ناظمیہ نے اپنے بیان میں مرحوم راجہ محمود آباد کو قوم کی عزت و وقار بلا ایک اہم نشانی بتایا۔ جلسے کا اختتام سورہ فاتحہ پر ہوا اور جامعہ میں تعطیل کر دی گئی۔
مرحوم کو انکساری کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
نوید حامد
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر نوید حامدنے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ’’راجہ محمود آباد جناب امیر محمد خان کی طویل علالت کے بعد انتقال کی خبر سن کر تکلیف ہوئی۔ وہ ایک دانشور شخصیت تھے جنھیں ان کی عاجزی اور انکساری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ علی خان اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے تئیں تعزیت۔‘‘
حسن اخلاق بلند کردار کے مالک تھے
اجے رائے
اترپردیش کانگریس کمیٹی کے صدر اجے رائے نے امیر احمد خان (راجہ محمودآباد) کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے، اہل خانہ سے تعزیت پیش کرتے ہوئے ، ان کی روح کی سکون کے لئے خدا سے دعاکی۔ کہا کہ وہ محمودآباد اسمبلی حلقے سے دوبار کانگریس پارٹی کے ممبراسمبلی اور کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈ ر تھے، وہ حسن اخلاق بلند کردار کے مالک تھے، اورلوگوں کے مسائل حل کرنے اور ملی ، سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ، اور ضرور مندوں کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے، ان کاانتقال اودھ تہذیب اور وعوام کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔