کسان تحریک جس کے بارے میں اب کہا جا رہا ہے کہ یہ کسانوں کے ناک کی لڑائی اور حکموت کے لئے انا کی جنگ بن چکی ہے۔ابھی تک ہوئی میٹنگوں میں کوئی امید افزا پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔اسی تناظر میں ’زرعی قوانین‘ پر بولتے ہوئے راہل گاندھی نے لوک سبھا میں کہا کہ برسوں پہلے فیملی پلاننگ کا نعرہ تھا ’ہم دو-ہمارے دو‘۔ آج یہ نعرہ دوسری شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس ملک کو چار لوگ چلاتے ہیں۔ آج اس حکومت کا نعرہ ہے ’ہم دو-ہمارے دو‘۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو آج لوک سبھا میں جب بجٹ سے متعلق بولنے کا موقع دیا گیا تو انھوں نے ’زرعی قوانین‘ کے تعلق سے کئی باتیں اس طرح ایوان کے سامنے رکھ دیں، جس سے پی ایم مودی اور مرکزی حکومت مشکلوں میں نظر آئی۔ انھوں نے کہا کہ ایک دن قبل پی ایم مودی نے کہا تھا کہ مظاہرے کے بارے میں تو لوگ بات کر رہے ہیں لیکن ’کنٹینٹ-انٹینٹ‘ (مواد-منشا) پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے راہل گاندھی نے نئے زرعی قوانین میں موجود خامیاں یکے بعد دیگرے شمار کرانا شروع کر دیں۔ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران یہ ظاہر کیا کہ آخر کس طرح تینوں قوانین کسانوں کے خلاف اور کارپوریٹ کے لیے فائدہ مند ہیں۔
راہل گاندھی نے کہا کہ ’’پہلے نمبر پر زرعی قوانین کے کنٹینٹ میں منڈیوں کو ختم کرنا ہے، دوسری بات اس قانون کے کنٹینٹ میں یہ ہے کہ کوئی بھی صنعت کار جتنا چاہے اتنا اناج، پھل اور سبزی اسٹور کر سکتا ہے۔ جمع خوری کو فروغ دینا اس قانون کا مقصد ہے۔ تیسرا کنٹینٹ اس قانون میں یہ ہے کہ جب ایک کسان ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار کے سامنے جا کر سبزی-اناج کے لیے صحیح قیمت مانگیں گے تو اسے عدالت میں نہیں جانے دیا جائے گا۔‘‘
راہل گاندھی جب زرعی قوانین میں یہ خامیاں شمار کرا رہے تھے تو بی جے پی اراکین ہنگامہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس کے بعد اسپیکر اوم برلا نے راہل گاندھی سے کہا کہ وہ بجٹ پر بات کریں، لیکن کانگریس رکن پارلیمنٹ زرعی قوانین سے متعلق سچائی ایوان کے سامنے رکھتے رہے۔ انھوں نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے راہل گاندھی نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ 2 دوستوں میں ایک دوست ہے جس کو پھل اور سبزی فروخت کرنے کا اختیار ہے۔ اس سے نقصان ٹھیلہ والوں کا ہوگا، چھوٹے تاجروں کا ہوگا، منڈی میں کام کرنے والے لوگوں کا ہوگا۔ دوسرے دوست کو پورے ملک میں اناج، پھل اور سبزی کو اسٹور کرنا ہے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ ’’جب یہ قانون نافذ ہوں گے، ملک کے کسانوں اور مزدوروں و تاجروں کا دھندا بند ہو جائے گا۔ کسانوں کا کھیت چلا جائے گا۔ صحیح قیمت نہیں ملے گی اور صرف دو لوگ ’ہم دو اور ہمارے دو‘ لوگ اسے چلائیں گے۔ سالوں بعد ہندوستان کے لوگوں کو بھوک سے مرنا پڑے گا۔ دیہی معیشت تباہ ہو جائے گی۔‘‘
لوک سبھا میں مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ حکومت کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے اسے نوٹ بندی سے شروع کیا تھا۔ پہلی چوٹ نوٹ بندی تھی۔ آئیڈیا تھا کسانوں-غریبوں سے پیسہ لو اور صنعت کاروں کی جیب میں ڈالو۔ اس کے بعد جی ایس ٹی لایا گیا اور کسانوں-مزدوروں پر حملہ کیا گیا۔‘‘ انھوں نے آگے کہا کہ ’’کورونا آتا ہے۔ کورونا کے وقت مزدور کہتے ہیں بس ٹکٹ دیجیے۔ حکومت کہتی ہے نہیں ملے گا۔ لیکن حکومت کہتی ہے صنعت کار دوستوں کا قرض ضرور معاف ہوگا۔‘‘
کسان تحریک سے متعلق اپنی بات رکھتے ہوئے راہل گاندھی کہتے ہیں کہ ’’یہ کسانوں کی تحریک نہیں ہے، یہ ملک کی تحریک ہے۔ کسان صرف راستہ دکھا رہا ہے۔ کسان اندھیرے میں ٹارچ دکھا رہا ہے۔ ایک آواز سے پورا ملک ’ہم دو ہمارے دو‘کے خلاف اٹھنے جا رہا ہے۔ کسان ایک انچ پیچھے نہیں ہٹنے والا، کسان آپ کو ہٹا دے گا۔ آپ کو قانون واپس لینا ہی ہوگا۔‘‘
پنی تقریر کے آخر میں راہل گاندھی نے کہا کہ ’’حکومت کسانوں کے ایشو پر بحث نہیں چاہتی ہے۔ یہاں میں بجٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، میں احتجاجاً بجٹ پر کچھ بھی نہیں بولوں گا۔ کسان تحریک کے دوران شہید ہوئے کسانوں کو ایوان میں خراج عقیدت پیش نہیں کیا گیا۔ میں تقریر کے بعد دو منٹ کے لیے کسانوں کے لیے خاموشی اختیار کروں گا۔‘‘ اس کے بعد کانگریس کے اراکین نے کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کر لی۔