دوڑ- Race

0
70

حسین قریشی
پچھلے دو دنوں سےستر سالہ “بھگوان کرے” کی طبیعت ناساز گار تھی۔ اسکے سینے کا درد بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اب وہ مزدوری کے لئے کھیت نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی 65 سالہ بیوی “لَتا” کافی پریشان ہو گئی۔ اسے اپنے شوہر سے بے انتہا محبت و لگاؤ تھا۔ زندگی کے 45 سال ایک ساتھ گزارے تھے۔ بھگوان کَرے نے ، لتا کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دیا۔ خوشی ہو یا غم ہوانھوں نے ایک ساتھ ہنستے ہنساتے گزارے مانو جیسے دو جسم ایک جان ہو۔ بھگوان کرے نے ہمیشہ بیوی کے ساتھ مل کر زندگی کے ہر لمحات کو کامیاب بنایا۔ غربت میں کبھی مفلسی کا شکوہ لتا نے نہیں کیا۔ کبھی بڑی آرزو ، تمنا کا اظہار کرکے اپنے شوہر کو بے بسی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ لیکن اب وہ تنہائی محسوس کر رہی تھی۔ اسکا سکونِ حیات اب بسترِ مرگ پر ‌بے چین اور بے یار و مددگار پڑا ہوا تھا۔ جھونپڑی میں تنگی کا ڈیرا تھا۔ روز دن میں، مالک کے کھیت میں جلتے اور شام کو پیٹ کی آگ بجھاتے۔
کبھی غربت کراتی ہے،کبھی دوری کراتی ہے
بہت سے کام ایسے ہیں جو مجبوری کراتی ہے
کون اتنی رات کو اپنے گھر سے نکلتا ہے
یہ شکم کی آگ ہے جو مزدوری کراتی ہے۔
لیکن اب مزدوری کے لئے جسم کے اعضاء ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ حالت نا موافق تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اپنی زندگی، کی زندگی کیسے بچائیں۔ جو کچھ ابتدائی محنت کا نچوڑ تھا۔ جو پائی پائی جوڑ جوڑ کر رکھی تھی۔ اسے اپنی تینوں لڑکیوں کی پرورش اور شادیوں میں صرف کر دیا تھا۔ بیٹیوں کی شادیوں میں اپنا سب کچھ خرچ کرنے کے بعد ایک لڑکے کی تعلیم مکمل کرنا،اب انکے لئے نا ممکن ساہو گیا۔ اسے اپنی تعلیم ترک کر کے والدین کے ساتھ کھیت میں مزدوری کے لئےجانا پڑتا۔ اپنے لڑکے کو اعلیٰ دینے کے خواب کو غربت نے غرق کردیا۔ زندہ رہے گے تبھی تو تعلیم حاصل کر پائیں گے۔ زندگی ہی نہ رہی تو تعلیم کس کام کی۔ لڑکیاں اپنے اپنے گھر اچھی زندگی بسر کر رہی تھی۔ جسکا انھیں دلی سکون، اطمینان اور تسلی تھی۔ اسے ہی وہ کامیابی سمجھتے اور ہر مصیبت کو بخوشی قبول کرتے۔ لتا بہت ہمت والی اور حوصلہ مند عورت تھی ۔ وہ ہر وقت پر مثبت طرز سے عمل کرتی اور اپنے شوہر کی ہمت بنتی۔ اسے اس بات کا اطمینان تھا کہ اسکا شوہر اسکی ہر تکلیف، ہر لاچاری اور ہر مصیبت کا حل نکال کر اسے خوش کر دیتا ہے۔ جس کا اسے تجربہ تھا۔ دراصل وہ دونوں ایک دوسرے کے دل میں ، دماغ میں سمائے ہوئے تھے۔ ایک دوسروں کو اچھی سمجھ گئے تھے۔ ہر وقت ایک کو، دوسرے کی خوشی کی فکر ہوا کرتی تھی۔ وہ خوشی کے لمحات کا انتظار نہیں کرتے بلکہ ہر وقت کو خوشیوں میں تبدیل کرنے کے ہنر میں ماہر ہو گئےتھے۔ وہ حالات سے نہیں خیالات سے دوڑتے تھے۔ بھگوان کَرے کی تکلیف دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ لتا نے پاس پڑوس والوں سے مدد کی درخواست کی۔ غریب پڑوسیوں نے جو کچھ ہو سکا مدد کی۔ اسنے فوراً اپنے شوہر کو ضلع سرکاری اسپتال میں داخل کیا۔ اب اسے اطمینان کی سانس ملی اور جلد صحت مند ہوجانے کی امید بھی۔ دو دنوں بعد ڈاکٹر نے کہا کہ انکے تین بڑے ٹیسٹ کروانا بہت ضروری ہیں۔ لتا نے کہا “جو کرنا ہے صاحب وہ کرو،مگر میرے آدمی کی زندگی بچالو،میں تمھارے ہاتھ جوڑتی ہوں” ڈاکٹر صاحب نے کہا ایسا نہ کرو۔ ہم کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر وہ ٹیسٹوں کی سہولت ہمارے یہاں موجود نہیں ہے۔ تمھیں بڑے اسپتال جانا ہوگا۔ تم ایسا کرو بارامتی کے اسپتال میں انھیں لے جاؤ۔ وہاں یہ ضروری ٹیسٹ بھی اچھے سے ہو جائینگے اور مکمل علاج بھی۔
یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لتا کے ہاتھ میں کاغذ کا لفافہ تھمادیا اور وہاں سے چل دیا۔ اب لتا کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔ بارامتی جانا وہاں کا خرچ کیسے ہوگا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ مصیبت و پریشانیوں میں ہمت انسان کو کام کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہیں۔ لیکن لتا کی ہمت اب کمزور ہو رہی تھی۔ اسکا کلیجہ منہ کو آرہاتھا۔ وہ اسی جگہ بیٹھ گئی۔ کیسے حال سناؤں کون مدد کریگا۔ علاج کیسے کراؤ۔ جس نے میری پوری زندگی میں ساتھ دیا گیا اسے کیا اسی طرح تڑپتا ہوا چھوڑدو۔ اس طرح کے خیالات نے اسے گھیر لیا۔ خاموش دیوار سے سر لگا کر آنکھوں سے آنسودوڑ تے رہے۔ تھوڑی دیر میں جب یہ آنسو خشک ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ آنسوؤں کے نکلنے سے مَن ہلکا ہوجاتا ہے۔ فکر کچھ حد تک کم ہوجاتی ہیں۔ لتا کا بھی دماغ سکون پزیر ہوا تو اسے سمجھ آ گیا کہ جو بھی کرنا ہے اسے ہی کرنا ہے اور شوہر کی زندگی بچانا ہے۔ تو اسنے اسپتال میں حاضر چند لوگوں سے گزارش کی اور شوہر کی کیفیت دکھاتی رہی۔ وہاں موجود لوگوں نے اسکی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کی اور شام تک اسکے بارامتی جانے کا انتظام ہوگیا۔ دوسرے دن صبح وہ اپنے مریض شوہر کو لئے بڑی محنت جد وجہد کے بعد اسپتال پہنچی۔ اسپتال کی چہل پہل رونق اور لوگوں کے ہجوم نے اسے ششدر کردیا۔ لیکن وہاں اسے ذیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ ایک شخص نے لتا سے جانکاری پوچھا اور تھوڑی دیر بعد ہی انھیں ڈاکٹرصاحب سےملوا دیا۔ ڈاکٹر نے نہایت ہی توجہ کے ساتھ مکمل معائینہ کیا۔ تمام رپورٹیں چیک کی۔ لتا سے پوچھا تمھارے ساتھ اور کون ہے؟ کوئی نہیں ہے صاحب بس ہم ساتھ ساتھ ہیں۔ لتا نے افسردگی سے جواب دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ دو بڑے ٹیسٹ کرنا پڑےگے۔ اس کے بعد ہی ہم صحیح علاج کی طرف قدم بڑھا سکے گے۔ ٹیسٹ سنتے ہی لتا چکراگئی، پریشان ہو گئی، سوچنے لگی پھر اور ٹیسٹ! کتنے ٹیسٹ کرنے ہوگے۔علاج کب ہوگا۔ اسے آرام کب ملے گا۔ ڈاکٹر نے کہا”امٌا کیا ہوا؟” لتا نے کہا کچھ نہیں۔۔۔۔ صاحب۔ کتنے پیسے لگے گے؟ لتا نے پوچھا۔ اور جب ڈاکٹر صاحب نے رقم کہی تو اسکی جیسے جان نکل گئی۔ اتنے پیسے کہاں سے لاؤنگی؟ کون مدد کریگا؟ لوگوں سے مانگ مانگ کر تو یہاں تک پہنچی ہوں۔ کیا اسکو جس نے میری زندگی سنواری،میرے لئے تکلیفیں اٹھائی،جس نے اپنی ہر خوشی مجھ پر قربان کی۔ کیا اسے یوں مرتا چھوڑدو۔اسی خیالوں میں گم ہوکر باہر بینچ پر جا کر روتے ہوئے بیٹھ گئی۔ جب آنسوؤں نے اسکے بوجھ کو دل سے بہایا۔ تو اسنے پلو سے چہرہ پوچھتے ہوئے۔ بازو میں پڑے اخبار کو دیکھا۔ جس پر ایک اشتہار تھا۔ “بارامتی میریتھان کا انعقاد” نیچے تھا جو اس دوڑ (میریتھان) میں اول آئیگا۔ اسے اتنے روپئے انعام دیا جائیگا۔ اشتہار پڑھتے ہی اسکی آنکھیں چمک اٹھی اور پل بھر میں بغیر کچھ سوچے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ میں اپنی زندگی کی، زندگی بچانے کے لیے دوڑونگی۔ اور انعام جیتونگی۔ بس پھر اسنے اپنے آپ کو سمیٹا اور اس پتے پر پہنچ گئی۔ جہان دوڑ میراتھان کا انعقاد ہونے والا تھا۔ آرگانائزس حضرات سے کہا کہ میں اس دوڑ میں حصہ لینا چاہتی ہوں۔ مہربانی کرکے میرا نام داخل کیجیے۔ آرگانئزروں نے اسکی جانب دیکھا اور ہنستے ہوئے کیا۔ دادی اماں یہ تمھاری عمر والوں کے لئےنہیں ہیں۔ تمھاری حالت تو دیکھو۔ پاگل ہو گئی ہو کیا؟ کیا تمھیں زندگی پیاری نہیں ہے؟اور ہمارے اصول و قانون کے مطابق تمھیں ہم دوڑنے کی اجازت نہیں دے سکتےہیں۔ ہمیں معاف کرے اور یہاں سے جأییے۔ لتا نے کہا،میں اپنے لئے نہیں دوڑنا چاہتی ہوں۔ میں تو اپنی زندگی کی، زندگی بچانے کے لئے دوڑنا چاہتی ہوں۔ اور انعام کی رقم جیت کر اپنے شوہر کا علاج کرنا چاہتی ہوں۔ جو اس وقت اسپتال میں سانسوں کے چلنے اور جسم میں خون کے دوڑتے رہنے کے لئے بڑی جد و جہد کر رہا ہے‌۔ بسترِ مرض پر تڑپ رہا ہے۔ میرے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ مجھے دوڑنے دیجئے،کہہ کر اسکی آنکھوں نے آنسوؤں کی دوڑ شروع کردی۔ آرگانائزرس نے تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور لتا کے اسرار ، تڑپ اور دوڑنے کی شدت کو دیکھتے ہوئے۔ 65سالہ لتا کو میراتھان مقابلے میں دوڑنے کی اجازت دےدی۔ نہ لتا کے پاس دوڑ کی تربیت تھی۔ نہ ٹریک ڈریس، نہ ہی شوز اور نہ کسی قسم کے لوازمات موجود تھے۔ تھا تو صرف حوصلہ ، جذبہ، ارادہ اور تڑپ اپنے شوہر کی زندگی بچانے کا۔ اسے ہم ذہنی طاقت کہتے ہیں۔ دنیا کی سب سے مضبوط اور موثر طاقت،جس سے انسان بڑے سے بڑا مشکل کام کرسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جو حالات نہیں دیکھتی،جو وسائل پر منحصر نہیں رہتی اور نہ جو لوازمات کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ طاقت کسی دوسرے سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ہر انسان میں مخفی طور موجود ہوتی ہیں۔ جیسے خود کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اور جب انسان بڑا مقصد, ایک مشکل کام کا مثمن ارادہ کرلیتا ہے۔ تو یہ مخفی ذہنی طاقت اسے منزل تک پہنچاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح لتا نے اپنی منزل مقصود طے کرلیا تھا۔ اسے صد فیصد خود پر یقین تھا کہ وہ جیت حاصل کرلے گی۔ اور اپنی جان کی جان بچالے گی۔ لتا کی نظر صرف اور صرف منزل پر تھی اسے راستے، لوازمات، وسائل اور لوگوں کی سوچ کی فکر نہیں تھی۔ جب دوڑ کا وقت آیا تو مقابلے میں شامل تمام افراد اپنی مشق کرتے اور ڈریس کوڈ و شوز وغیرہ سے لیس تھے۔ کچھ لوگ اس بزرگ پر تعجب کا ، تو کچھ رحم کا اظہار کر رہے تھے۔ اتنے میں اٹینشن کی آواز نے سارے مجمع کو خاموش کردیا۔ اور دوڑ کے مقابلے کے جج صاحبان نے اصول و ضوابط سمجھا دئیے۔ سب پارٹیسیپنٹز دوڑ کے لئے اپنی اپنی جگہ تیار ہو گیے۔ اور ون۔۔۔۔۔ ٹو۔۔۔۔۔۔تھری بول کر گولی کی آواز سے دوڑ کا آغاز ہوگیا۔ سب نے دوڑنا شروع کر دیا۔ لتا پوری طاقت و توانائی سے دوڑنے لگی۔ وہ تیز سے تیز تر دوڑتی۔ اسکو پتہ تھا کہ اب رکنا نہیں ہے۔ اگر اسکی دوڑ رکی تو اسکے شوہر کی سانسیں بھی رُک جائینگی۔ اسکا خون دوڑنا بند کردیگا۔ اسی اثناء راستے میں اسکی چپل ٹوٹ جاتی ہیں، مگر وہ چپل پھینک دیتی ہے اور ننگے پاؤں دوڑنا جاری رکھتی ہے۔ اپنی تکلیف کو نظر انداذ کرتے ہوئے دوڑے جارہی ہے۔ بس دوڑے جا رہی ہیں۔ اسے اپنے جسم کا کوئی خیال نہیں ، ہاں اس خیال تھا تو صرف جیت حاصل کرنے کا۔ زندگی بچانے کا۔ اپنے مقابل لوگوں کو چیرتے ہوئے لتا آگے آگے نکل رہی تھی۔ جیسے جیسے وہ مقابل کے لوگوں کو پیچھے کررہی تھی،ویسے ویسے اسکی رفتار میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اسے اپنی منزل قریب سے قریب تر نظر آنے لگتی۔ دوڑ کا آخری مقام آنے ہی والا تھا کہ دونوں بازو کے لوگوں نے لتا کو ہمت دیتے ہوئے،اس بزرگ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے تالیاں بجانا شروع کردی اور زور زور سے اسکی تعریف کرنے لگے۔ کوئئ کہتا بہت خوب تم جیت گئی۔ کوئی کہتا تاریخ بنالی۔ کوئی ہمت کی داد دیتا۔ وغیرہ وغیرہ مگر لتا پُرزور رفتارسے دوڑے جارہی تھی۔ جیسے جیسے وہ قریب آتی اسکی ہمت اور بڑھتی اوروہ تیز دوڑتی۔ دوڑتے دوڑتے بالآخر لتا نے اختتام کی جگہ پر اپنا پہلا قدم ڈالا اور اول نمبر کے ساتھ ہی وہ اپنی زندگی اور زندگی کی خوشی کو بچانے میں کامیاب ہوگئ۔ تمام مجمع سے صرف ایک ہی آواز آرہی تھی۔ کمال ہوگیا۔ اس بزرگ لتا نے تو تاریخ رقم کرلی۔ یہ دنیا کے لئے ایک عمدہ اور زندہ مثال بن گئی۔ سب نے انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بزرگ لتا کی دوڑ کی مجبوری کو بھی سمجھا۔ ساتھ ہی دونوں میاں بیوی کی محبت چاہت اور الفت کے گن بھی گائے جانے لگے۔ بہت سے لوگوں نے لتا کی مدد بھی کی اور اسکے شوہر بھگوان کَرے کے علاج میں معاشی مدد بھی کی۔ اس دوڑ نے اسکو ایسی شہرت بخشی کہ اب اسے ہر کوئی جاننے پہچاننے لگا تھا۔ اور اسے دوسروں کی ہمت افزائی اور موٹیویشن کرنے کے لئے اپنے پروگراموں میں مدعو کرنے لگے۔ لتا کو ان تمام باتوں کا کوئی علم نہیں تھا کہ اسے” دوڑ ” سے اتنا کچھ ملیگا۔ مگر جب انسان کسی بلندی کو بہت ذیادہ محنت و جستجو کی بدولت حاصل کرتا ہے تو پورے جہان میں اسکی تعریف ہوتی ہے۔ اس کے بعد لتا نے اور دو میراتھان میں جیت حاصل کرکے اس بات کو یقینی کردیا کہ انسان میں ضد،پاگل پن ،ہمت اور لگن ہو تو اسے منزل کے حصول کے لئے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ لتا کی دوڑ کی کامیابی نے اسے اتنا مشہور کر دیا کہ اسکی اس” دوڑ ” نے نوجوانوں ، بزرگوں ، سرپرستوں اور بچوں کے لئے مثال راہ بنادی ۔ ہم تو بہانوں کا سہارہ لے کرزندگی کو کامیاب بنانے کی دوڑ شروع ہی نہیں کرتے۔ حالات صحیح و موافق ہونے کا اسی جگہ پر کھڑے ہوکر انتظار کرتے ہیں۔
9850155656@

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here