قدرت ناظم کی غزلوں کا مجموعہ ’’ارتعاش‘‘

0
145

مبصر: قاضی مشتاق احمد، پونا
کتاب کا نام: ارتعاش
شاعر: قدرت ناظم
سن اشاعت:2021
قیمت: 150 روپے
ملنے کا پتہ: قدرت ناظم پیٹھ محلہ پولس اسٹیشن کے پیچھے ناندورہ، ضلع بلڈانہ (مہاراشٹر)
2020 عالمی تاریخ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس وبائی مرض نے سارے نظام حیات کو تہہ و بالا کردیا۔ ہنوز اس کا قہر جاری ہے۔ البتہ لوگوں نے ” کورونا ” کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لیاہے۔ جب جب بلائیں آئیں۔ بہترین ادب کی تخلیق ہوئی۔ محدود پیمانہ پر کاروبار حیات شروع ہوتے ہی” لاک ڈاؤن ” ، کورونا” کے موضع پر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ادب ایسے بے چین و بیقرار ماحول میں مرہم کا کام کرتا ہے۔ قدرت ناظم کی غزلوں کا مجموعہ ” ارتعاش” ایک دھماکہ کی صورت منظر عام پر آیا ہے۔ کہتے ہیں جان ہے تو جہان ہے۔ تمام راستے مسدود ہوجائیں۔ زندگی اپنے راستے خود بنالیتی ہے۔ کہتے ہیں
ہم کہاں ساز پہ گانے کو غزل کہتے ہیں
اپنے دکھ درد بھلانے کو غزل کہتے ہیں
سخت چٹان یا سنگلاخ زمیں پر ناظم
پیار کے پھول کھلانے کو غزل کہتے ہیں
قدرت ناظم کی عام فہم زبان پر مضبوط گرفت ہے۔ عام انسان کے روز مرہ کے مسائل کو اسی کی زبانی میں پیش کرکے انہوں نے اپنے دور کے سماجی و سیاسی خلفشار پر تیکھے انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ آج بے ایمانی ، ناانصافی ، کا دور دورہ ہے۔ ہر انسان صرف اپنے مفاد کے لئے کام کررہا ہے۔ ایمانداری کی راہ پر چلنے والوں کی زندگی دشوار ہوگئی ہے۔ سیاسی اٹھا پٹک پر انہوں نے کھرے پن سے لکھ کر قارئین کو فسادی ذہنیت کے شر انگیزیوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے
پیاسا ہے آج خون کا یہ اور بات ہے
کل تک شمار اس کا میرے بھائیوں میں تھا
دوت ہو امن اور شانتی کے اگر
شر پسندو! بغل میں چھری کس لئے
کوئی مونس کوئی غمخوار نظر آتا ہے
آج ہر شخص اداکار نظر آتا ہے
کوئی مقصد نہیں جی رہے ہیں فقط
زندگی ایسے لوگوں کی بے سود ہے
کسی مفکر نے کہا ہے کہ ’’قلم کی سیاہی صبح صادق کی سفیدی ہے۔‘‘ مجھے پوری امید ہے کہ قدرت ناظم کی غزلیں جو دل درمند کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں اپنی منفرد شناخت بنانے میں ضرور کامیابی حاصل کریں گی اور اس مجموعہ کا خوش دلی سے استقبال کیا جائے گا
یوں تو دکھ درد کی پٹاری ہے
زندگی پھر بھی کتنی پیاری ہے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here