اسرائیل پر نفسیاتی دباؤ-Psychological pressure on Israel

0
315

Psychological pressure on Israel

اسرائیل اور فلسطین کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔میزائلوں کے حملے مستقل تباہیاں مچا رہے ہیں۔اسرائیلی فضائی حملوں میں 213 سے زیادہ فلسطینیوں اور 61 معصوم بچوں کے شہید ہونے کی خبر ہے۔ثالثی کا ذکر بھی آ رہا ہے لیکن ابھیی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ایک طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ اسرائیل نے خود اندر خانہ یہ کوشش کی ہے کہ جنگ بند ہو جائے کیونکہ اس کا نقصان بہت ہو رہا ہے دوسری طرف سرائیل کے فضائی حملوں میں درجنوں بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں جسے روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ رپورٹ کے مطابق منگل کی صبح غزہ کی ایک اور عمارت اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ ہوگئی۔بمباری کے خاتمے کے عالمی مطالبے کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ رات کہا تھا کہ اسرائیل ‘دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے جاری رکھے گا۔
ایسے میںیہ خیال اور سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کا نتیجہ کیانکلے گا۔کیا یہ جنگ کسی نئے ورلڈ آرڈر کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔اور یہ جنگ مسلم ممالک پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے یا یہ کہ اسرائیل اس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بعض ماہرین اسے جنگ ہی نہیں مانتے ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک طاقتور ملک کا ایک کمزور ترین ملک پر اپنی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ وہ ایک ٹیسٹ کر رہا ہے اور اس طرح کا ٹیسٹ وہ وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہے تاکہ اپنی آبادی کا تناسب درست رکھ سکے۔ اسرائیل اور فلسطین کی طاقت میں کوئی تناسب نہیں ہے۔ فی الوقت جو تصادم جاری ہے اس میں فلسطین کے حق میں صرف ایک بات جاتی ہے کہ فلسطینیوں کے اندر موت کا خوف نہیں ہے جبکہ اسرائیل موت سے بری طرح خائف ہیں۔ اس تصادم کے ذریعے دراصل اسرائیل فلسطین میں موجود ان طاقتوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اس کے توسیعی منصوبے میں کسی نہ کسی شکل میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہیں۔ فی الوقت اس رکاوٹ کا سب سے بڑا علمبردار حماس ہے اس لیے وہ غزہ پرمسلسل بمباری کررہا ہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حماس کوئی بہت بڑی جنگ جیتنے جا رہا ہے تو یہ حقیقت سے انکار ہوگا۔ اس بار بھی وہی سب ہو رہا ہے جو اس سے پہلے ہوا۔ وہی اقوامِ متحدہ کی اپیل، وہی او آئی سی کے بیانات اور وہی کچھ مسلم ممالک کے ذریعے دی جانے والی دھمکیاں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ ان سب سے اسرائیل پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ جب تک نیتن یاہو چاہیں گے جنگ جاری رہے گی اور جب وہ چاہیں گے جنگ بند ہوجائے گی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں ہتھیاروں کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی ہے۔ کبھی افرادی قوت سب سے بڑا ہتھیار ہوا کرتی تھی تو کبھی تعلیمی قوت۔ لیکن آج کے دور میں معیشت دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ امریکی معیشت پر پوری طرح یہودیوں کا قبضہ ہے اس لیے وہ امریکہ سے جو چاہتے ہیں کروا لیتے ہیں۔ یہی صورت حال عربوں کے ساتھ بھی ہے کہ عربوں کی بھی پوری معیشت پر کسی نہ کسی طرح اسرائیل حاوی ہے۔ اس لیے اگر اسرائیل کو شکشت دینا ہے تو دنیا کے سب سے بڑے ہتھیار کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ہتھیار کو استعمال کرنے کے بعد نہ صرف فلسطین ومسجد اقصیٰ کی حفاظت کی جاسکتی ہے، بلکہ اسرائیل سمیت پوری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا جاسکتا ہے۔
بعضوں کا کہنا ہے کہ حماس کو اسی طرح تیار کیا جا رہا ہے جس طرح اس سے قبل صدام حسین کو تیار کیا گیا تھا۔ ایک کمزور مخالف کو اسرائیل اپنی میڈیا کے ذریعے ایک طاقتور دشمن بناکر پیش کررہا ہے تاکہ وقت آنے پر وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کروا سکے۔ ترکی اور ایران کی جانب سے اسرائیل کو دی جا رہی دھمکیوں کے بارے میں کہاجا رہا ہے کہ یہ محض بیان بازی ہے اور کچھ نہیں کیونکہ جب تک آپ گراؤنڈ پر نہیں ہیں، آپ کی کمک وہاں نہیں پہنچ سکتی ہے تو آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہاتھ توڑ دیں گے یا اسرائیل کو سبق سکھائیں گے۔ جہاں تک ترکی کا سوال ہے تو اسرائیل سے اس کے تجارتی وسفارتی تعلقات ہیں، اگر ترکی اسرائیل کا ہاتھ توڑتا ہے تو پھر ان تجارتی مفاد کا کیا ہوگا جو کئی بلین ڈالر میں ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح او آئی سی نے کہا ہے کہ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔ سچائی یہ ہے کہ کوئی عملی اقدام فی الوقت اسلامی دنیا کی جانب سے ممکن نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہوا ہے اس بار کہ پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جو ابھی تک کی تاریخ میں نہیں ہوئے تھے۔ اسرائیل پر اس کا نفسیاتی اثر ضرور ہوا ہے لیکن اس کا کوئی مادیاتی اثر بھی پڑے گا یہ کہنا مشکل ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کا ایک ایک بچہ اسرائیلی فوجی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہےاور فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ خطرے کی ڈھال پر اسرائیل بیٹھا ہوا ہے اور فلسطینیوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here