تحفظ ،حرمتِ نسواں اور اسلام-Protection, sanctity of women and Islam

0
206
ڈاکٹر سیدہ جنیفر رضوی
ڈاکٹر سیدہ جنیفر رضوی

مسلم خواتین کو ایسی سیکڑوں مرا عات حاصل ہیں جنھیں مغربی خواتین آزادی نسواں کے تمام پر شکوہ نعروں کے با وجود ، آج تک نہیں حا صل کر سکی ہیں ، مسلم خواتین کو حقوق کے بیشتر میدا نوں میں مغربی خواتین پر بدر جہا فضیلت حا صل ہے – اس اہم ترین حقیقت کو وا ضح کر نے کے لئےمیں کچھ مثا ل پیش کر نی جا رہی ہو ں جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ حقیقت میں حقوق کے نسواں کا تحفظ اسلام میں کیا ہے۔
25 سال قبل سو ئز ر لینڈ کے ایوان زیریں نے 27 فیصد کے مقابلے 73 فیصد ووٹ سے ملک کے شادی ا یکٹ میں چند تر میم نافذ کرنے کا فیصلہ کیا بعد از ترمیم قانون میں خواتین کو جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے
(1)خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے شادی کے بعد بھی اسی نام کو برقرار رکھے جو اس کے والد ین نے رکھا ہو یا انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا ہو اور وہ اپنے آپ کو شوہر کے نام سے موسوم نہ کریں یا شوہر کے نام کو اپنے نام کا جز نہ بنائیں-
(2) مرد کی طرح عورتو ں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے پسند کے رشتے اورسسر الی گھرانے کا ا نتخاب کریں-
(3)زوجین میں سے ہر ایک کو یہ اختیار ہے کہ وہ دوسرے کی واقعی آمدنی کے متعلق معلومات حاصل کریں-
یہ جدید خاتون مغرب میں حقوق نسواں کے حوالے سے نئی پیش رفت ہے ورنہ اب تک برطانیہ اور جرمنی وغیرہ مغربی ممالک میں اس طرح کے قوا نین بالکل نا یاب تھے ۔اس منظر نامہ سے جو بات وا ضح طور پر سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں پہنچ کر کہیں سو ئز خوا تین کے لئے یہ حق حاصل ہو پا یا کہ شادی کے بعد بھی وہ اپنے حقیقی نام کو بر قرار رکھیں اوروہ بدستور اپنے پیدائشی نام سے پکاری جائیں اس سے پہلے مغرب کے عام رواج کے مطابق یہ خواتین مجبور تھیں کہ وہ شوہر کے نام کو اپنے نام کا جز بنا لیں اور اپنے خاندانی نام یا القاب کو حرف غلط کی طرح مٹا دیں مثلااگر شادی سے پہلے کسی خاتون کا نام موری یا ہا ڈن ہو تا اوراس کے شوہر کا نام جان رو کا ہوتا تو شادی کے بعد فورا سے اپنا نام موری روکا یا مزشروکا رکھناپڑتا اور اپنے خاندانی لقب سے دستبردار ہونا پڑتا اگرچہ سوئز خواتین اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اس جبر ی قانون سے آزادی تو مل گئی اور انہیں اپنے لیے اسمی تحفظ کا حق تو حاصل ہو گیا لیکن ان جیسی دوسری بر طانوی اور جر منی خوا تین بدستور اس قدیم اندھے قا نون کو ماننے اور اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہیں جس کی کچھ جھلکیاں یہ ہے کہ اس سے پہلے سن 1567یعنی سولہویں صدی میں اسکاٹ لینڈ پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا کہ عورت کو کسی چیز کی ملکیت کا حق حا صل نہیں ہو گا – اور اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ انگلستان کی پارلیمنٹ نےقانون پاس کیا جس میں عورت کے لیے انجیل پڑھنا حرام قرار دیا۔ سن 1805 تک انگلستانی قانون کی رو سے شوہر بیوی کے فروخت کرنے کا پورا اختیار رکھتا تھا۔ اسی طرح 1938 میں فرانس میں عورتوں سے متعلق یہ قانون پاس کیا گیا کہ شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے خاص مال میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتی ہے مغرب کے حقوق کے نسواں کے حوالے سے یہ ایک منظر نامہ تھا –

Protection, sanctity of women and Islam

اب ذرا اس مغربی منظر نامہ سے ہٹ کر اسلا می منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ حقوق جو مغربی خواتین کو20 ویں صدی کے نصف آخر میں حاصل ہوئے ہیں وہ حقوق مسلم خواتین کو اسی وقت سے حاصل ہیں جبکہ اسلام کا آفتاب عا لم تاب آسمان دنیا پر طلوع ہوا۔ گذشتہ منظر نامہ میں جن حقوق کی وکالت کی گئی وہ سارے کے سارے اسلامی خواتین کو صدیوں پہلے سے حا صل ہیں ۔ہمیں اسلام کی روشن تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جس میں قانونی طور پر کسی بھی خاتون کو کو شادی کے بعد اپنا نام بدلنے اور شوہر کے نام کو اپنے نام کا جزبنانے پر مجبور کیا گیا ہو۔ مشہور اسلامی خواتین اپنے والد اور خاندان کے نام سے موسوم ہوتی رہیں اپنے شوہر کے نام سے نہیں-اسی طرح مسلم خواتین کو اپنے لئے پسند یدہ رشتے کے انتخاب کا حق بھی 14 سو سال سے حا صل ہے –
چنانچہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شادہے کہ غیر شادی شدہ عورت(رشتے کے انتخاب کے سلسلے میں ) اپنی ذات کی اپنے ولی کے مقابلے میں زیادہ حقدار ہیں ۔(مسلم شریف 400)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اکرم کے پاس آکر کہا کہ میرے وا لد نے میری ناپسندیدگی کے باوجود ایک شخص سے میرا نکاح کردیا تو حضور اکرم نے فرمایا کہ تمہارا نکاح منعقد نہیں ہوا۔ جاؤ اور جس سے نکاح کرنا چاہو کر سکتی ہو (سنن سعید ابن منصور )
سوئز لینڈ کے نئے قانون میں شوہر کی واقعی آمدنی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا جو حق بیوی کو دیا گیا ہے اس میں بھی کوئی تجدد اور امتیاز نہیں ہے اس لئےکہ اسلا می خواتین کو شروع سے ہی نہ صرف یہ بلکہ ا س سے اعلی ترین حقوق حا صل ہیں۔ اس لیے کہ اسلامی شریعت میں بیوی پر مالیات کی فرا ہمی کی ذمہ داری سرے سے ہے ہی نہیں اس کے پاس جتنا بھی مال کیوں نہ ہو کوئی اس سے زبردستی مال کامطالبہ نہیں کر سکتا ک بلکہ ہر حا ل میں اس کے شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی پر خرچ کرے چنانچہ حضرت علی نے فرما یا کہ عورت کو کھا نا دینے اور انھیں کپڑا دینے کی ذمہ داری شوہر پر ہے ۔رواج کے مطابق ایک صحابی نے سوال کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے حضرت علی نے فرمایا جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھا نا کھلا و جب تم کپرا پہنو تو انھیں بھی پہنا و اور اس کے چہرے پر طمانچہ مت مارو ، (ابو داو 291)
دیھئےک تمام احا دیث اور روایات و آ یا تی قرآ نی کے ذریعہ بات ثابت ہے کہ حقوق نسواں کا تحفظ جتنا اسلام نے کیا ہے اتنا دنیا کے کسی قا نون نے نہیں کیا ہے لیکن وضا حت بھی ضروری ہے کہ اسلام کی نظر میں حقوق کا ایک اعلی تصور ہے وہ عیا شی و فحا شی اور بے حیا ئی و بد اطوا ری کو قطعا حقوق کے زمرے میں دا خل نہیں کرتا بلکہ حجۃ الوداع کے آ خری خطبہ میں حضور اکرم نے فرمایا کہ
جس طرح تمہارے حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اسی طرح تمہارے اوپر بھی تمہاری بیویوں کے حقوق ہیں
ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ عورتوں کی عزت وہی لوگ کرتے ہیں جو شریف ہیں اورعورتوں کی بےعزتی وہی لوگ کرتے ہیں جو کمینے ہوتے ہیں (ابن عساکر)
اس کی وضا حت اس حدیث سے ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز نیک بیوی سے بڑھ کر نہیں ہے بہرکیف آ خیر میں میں یہ کہنا چا ہتی ہوں کہ عورت ہر انسان کی ضرورت ہے ۔عورت کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے ۔صرف اس کی زندگی ادھوری نہیں رہتی بلکہ دین بھی ادھورا رہا جاتا ہے۔ اس لئے عورت کی حفاظت اس کی قدر اور تعظیم کرنا ضروری ہے اسکو عزت و احترام دینا ہما را فریضہ ہے یہی حکم قرآن و اسلام ہے ۔
7872873542

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here