فاروق ارگلی
موبائل: 9212166170 ،
آج کی دُنیا میں جب حرص و ہوس کے اندھیرے حق و انصاف کی روشنی کو نگل جانے کے درپئے ہیں، محبتوں کے نورانی عقیدے، پریم اور بھکتی کی سچی آستھائیں، نفرتوں اور عداوتوں کا روپ دھارن کر جدال و قتال میں مصروف ہیں۔ حال کی ترقی یافتہ تہی دست اور برہنہ خواہشیں ماضی کی قباپوش پاکیزہ قدروں کو نوچ کھسوٹ کر بے لباس کیے دے رہی ہیں، ایسے میں فکروشعور کی محفل بھی آراستہ ہے، حسینۂ تخلیق حیات و کائنات کی تمام تر سچائیوں کی ہزار رنگ پشواز میں ملبوس وقت کے ساز پر محو رقص ہے اور ایک حساس فنکار ان تمام رنگوں، آوازوں اور منظروں کو سمیٹ کر ایسے آئینوں میں ڈھال رہا ہے جن میں اس کے عہد کا ہر روپ صاف صاف دِکھائی دیتا ہے۔ صدی کے معتبر اُردو فکشن نگار حسین الحق کی تخلیقی آئینہ سازیوں کو اسی سیاق میں دیکھا جاتا ہے، آگے بھی دیکھا جاتا رہے گا اور جس قدر دیکھا جائے گا اس کی اہمیت و معنویت میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس لیے کہ ایسے فنکار کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔
حسین الحق کو صرف کہانی کار کہنا شاید ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، درحقیقت وہ ایک مفکر، فلسفی، تاریخ داں، متصوف، ماہر نفسیات، معلم، مصلح اور عالمی ادبیات کے عارف بھی ہیں، ان کی شخصیت کے یہ پہلو ان کی کہانیوں اور ناولوں میں بخوبی نظر آتے ہیں۔ یہی خصوصیت انھیں ہم عصر فکشن نگاروں سے الگ کرتی ہے اور ان کی کہانیاں صرف کہانیاں نہیں رہتیں وہ ہمارے ادبِ عالیہ کا اہم فن پارہ بن جاتی ہیں۔ حسین الحق کی افسانہ نگاری سے متعلق اب سے دو دہائی پہلے ڈاکٹر قیام نیر نے بڑا بامعنی تبصرہ کیا تھا:
’’حسین الحق صاحب افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے لکھ رہے ہیں، یہ وہ دور تھا جب افسانے میں نئے نئے تجربے ہورہے تھے، علامت نگاری کا بول بالا تھا، شعور کی رو پر کہانیاں لکھنا ایک فیشن بن چکا تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اس رجحان اور اس رویے کو اپنایا، لیکن اس ڈھنگ سے اپنایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جدید افسانوں کی دُنیا میں ان کا نام اہمیت کا حامل بن گیا۔ وہ اُردو افسانوں میں اظہار کی تیز ترین دھار، نئے نئے الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی تخلیقی سطح کی وجہ سے اپنے ہم عصروں سے کافی آگے بڑھ گئے ہیں۔ وہ کسی مسئلے کو سننے سے زیادہ محسوس کرتے ہیں اور بے باک ہوکر گفتگو کرتے ہیں۔ یہی ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ وہ پوری کائنات کو سانسوں میں اُتار لینا چاہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ماہنامہ ’شاعر‘ بمبئی کے افسانہ نمبر (دسمبر 1981ء) سے طارق سعید کی یہ رائے بھی درج کی ہے:
’’حسین الحق کا فن علامت، استعارہ اور تمثیل کے بوتے پر مہملیت سے کنارہ کشی اور ماورائی کائنات اور اقدار کی کہانی عبارت ہے۔ خارجی حالات کی نامساعد کیفیات کا لامتناہی سلسلہ ایک طرف اور ہزاروں خواہشات کی تکمیلیت دوسری طرف ایسی صورت میں انسانی زندگی میں تضاد کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر قیام نیر آگے لکھتے ہیں:’’حسین الحق نے ماضی کے حالات علامتوں کے پرپیچ تنوع کے ساتھ پیش کیا ہے۔ خصوصیت سے تقسیم ہند کے بعد ہونے والے ہولناک واقعات، فرقہ وارانہ فسادات کے اثرات، سماج میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، گندگی، تہذیبی زوال اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیاسی پس منظر کو پراسرار انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں فضا آفرینی اور تجریدیت کی بوقلمونی ان کے افسانوں میں موجود ہے۔‘‘
قمر التوحید صاحب کی طرح حسین الحق صاحب نے بھی آدمی پر ہونے والے مظالم کو دِکھانے کی کوشش کی ہے۔ خود ان ہی کے لفظوں میں: ’’آدمی پر ہونے والے مظالم کمزور اقوام کے خلاف ظالم و جابر انسانی گروہوں کی سازشیں، فنی اقدار کا پھیلاؤ، وحدتِ آدم، وحدتِ کائنات، سماج میں پھیلی گندگی، تقسیم ہند کے ہولناک اثرات، فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں انسانی درندگی کی روداد، اقتدار کے ذریعہ ہماری طاقت احتجاج، مظلومیت کی حمایت کے بدترین نتائج، وحدتِ وجود کی تہذیبی اہمیت، کھوئے ہوؤں کی جستجو، 1947ء کے بعد جوجھنے کا جذبہ رکھنے والی ہندوستانی مسلم قوم کی جدوجہد، انسانی درد کی یکسانیت وغیرہ کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔‘‘ (بہار میں اُردو افسانہ نگاری، ابتدا تا حال، 1996ء)
گزشتہ دو عشروں میں گنگا اور سون میں بہت پانی بہہ چکا ہے۔ اس دورانیے میں حسین الحق فکروفن اور علم و بصیرت کے اس بلند مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمہ شما بار نہیں پاسکے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ افسانوں اور دو عہد ساز ناولوں کے خالق حسین الحق کے افسانوی مجموعے ’پس پردۂ شب‘ (1991)، صورتِ حال (1982)، گھنے جنگلوں میں (1989)، مطلع (1996)، سوئی کی نوک پر رُکا لمحہ (1996)، نیو کی اینٹ (2010) غور سے دیکھیں تو ایک سو سے زیادہ حسین الحق کے افسانے اُردو فکشن کی آبرو قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن ’نیو کی اینٹ‘، ’چپ رہنے والا کون‘، ’ندی کنارے دھواں‘، ’استعارہ‘، ’ایندھن‘، ’مورپاؤں‘، ’جلیبی کا رس‘، ’کربلا‘، ’زخمی پرندے‘، ’گونگا بولنا چاہتا ہے‘، ’سبحان اللہ‘، ’وقنا عذاب النار‘، ’انحد‘، ’کہاسے میں خواب‘، ’مردہ راڈار‘، ’لڑکی کو رونا منع ہے‘ اور ’جلتے صحرا میں ننگے پیروں رقص‘ وغیرہ ایسی تخلیقات ہیں جنھیں افسانوی ادب میں دوام کا درجہ دیا جاتا ہے۔ حسین الحق کی کہانیوں کے بارے میں یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ تاریخ، کلچر، مذہب اور اساطیر سے کم آگاہ قاری ان سے پوری طرح محظوظ نہیں ہوسکے گا۔ دراصل ان کا تخصص یہ ہے کہ انھوں نے ماضی کے واقعات اور اساطیر کے حوالے سے اپنے عہد کی سنگین حقیقتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نامور افسانہ نگار، ناقد اور محقق کلام حیدری کے بقول ’’حسین الحق کے پاس روایات کا خزانہ ہے اور وہ انھیں عہد جدید کے Relevent بنا کر پیش کرتا ہے۔ مذہب اس کی تربیت کا پس منظر ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی کلام حیدری کی یہ رائے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حسین الحق کے یہاں حق و باطل کی کشمکش ایک خاص موضوع ہے، یوں اپنی گفتگوؤں میں وہ ایسے موضوعات چھیڑتے رہتے ہیں، لیکن یہ کشمکش تو ازلی ہے، لیکن حسین الحق اسے حالاتِ حاضرہ پر منطبق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی تاریخی واقعہ نئے منظرنامے کا جزو بن جاتا ہے اس لیے کہ یہ کشمکش Unending ہے۔ دیکھئے وہ کس طرح اپنے افسانے ’کربلا‘ میں ایسے کرب کو نئے حالات سے وابستہ کرتے ہیں۔ انسان ایک دہشت میں مبتلا ہے۔ یہ دہشت ماورائی نہیں ارضی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال کا پیدا کرنا انسانی سرشت کی ایک بدصورت تصویر ہے لیکن جو اس سے لڑتا ہے اس کا ردّ پیش کرتا ہے، وہ انسان کی دوسری سرشت کا علمبردار ہے جو مثبت ہے، میں نے ایک زمانہ پہلے حسین الحق کی ایک کہانی وقنا عذاب النار‘ دیکھئے۔ تیس برسوں سے ایک لاش کمرے میں گل سڑ رہی ہے، اب لوگوں کو اس کا احساس ہوا ہے، لوگ اس سے نجات حاصل کرنے کی فکر میں ہیں کہ یہ لاش غائب ہوجاتی ہے اور دو حصوں میں تقسیم ہوکر وقت بے وقت گھروں پر دستک دیتی ہے اور انھیں شکار بناتی ہے۔ ہوسکتا ہے حسین الحق ہندو مسلم نفاق کا استعارہ لاش کو بنائے ہوئے ہوں کہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی کے درپے ہیں۔ یہ لاش ہندو مسلم فساد کی ہے۔ یہ لاش انسانیت کی ہے جو برسوں سے لوگوں کی بے حسی سے تنگ آکر اب خود انھیں جگانے چلی آتی ہے۔ ’نیو کی اینٹ‘ میں مسلمانوں حالات پر روشنی پڑتی ہے خصوصاً اس نقطئہ نظر سے کہ کس طرح انھیں فنڈامنٹلزم کی آڑ میں بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ سازش مسلمانوں کی اہمیت پر ضرب لگانے کی ایک نامشکور کوشش ہے۔ حسین الحق نے اس موضوع کو کسی عامیانہ انداز میں پیش نہیں کیا بلکہ ایک فنی صورت اس طرح دی کہ اثرات دوررس ہوجاتے ہیں۔ دراصل آج کے ہندو مسلم افتراق کی جو غیرفطری صورتِ حال پیدا ہوتی ہے وہ افسانہ نگار کو مسلسل پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ تخلیقی سطح پر بیدار ہوکر اسے برتنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے۔ اسی سلسلے کی کہانی ’مورپاؤں‘ بھی ہے جس میں غیرفطری طور پر جس طرح ہندو اور مسلمان کے درمیان دیوار کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کلچرل طریقے پر ان کی تقسیم کا بگل بجایا جارہا ہے وہ حسین الحق کے کرب کی ایک صورت ہے جسے تخلیقی طور پر برت کر ایک طرح کی کتھارسس کرتے نظر آتے ہیں۔ گلوبل ایشوز میں عراق آج کے مبحث کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس کی ایک صورت ’گونگا بولنا چاہتے ہے‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دوسری کہانیوں میں بھی بعض ایسے حالات کو کہانی کی شکل دی گئی ہے جس میں عالمی مسائل در آئے ہیں۔ خود مسلمانوں کی سطح پر عالموں کا ایک جم غفیر ہے جس میں چند عالم باعمل ہیں اور زیادہ تعداد بے عمل عالموں کی ہے۔ یہ حالات کا جبر ہے، عالم باطل مسلسل فروغ پارہے ہیں۔ ایسی تصویر دیکھنی ہو تو ’زخمی پرندہ‘ پر ایک نگاہ ڈالنا چاہیے۔‘‘ (تاریخ ادب اُردو، جلد سوم)
بابری مسجد کی شہادت پر لاتعداد کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ حسین الحق کی لازوال کہانی ’نیو کی اینٹ‘ بھی اسی المیہ پر مبنی ہے لیکن ’نیو کی اینٹ‘ کو اس لیے بابری مسجد المیہ کے ضمن میں شاہکار کا درجہ حاصل ہے کہ یہ واحد تخلیق ہے جو حیرت ناک طور پر اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے سماجی اور تہذیبی رشتوں کے روایتی استحکام کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بہار کے گیا کے شہر شیوپوجن اور سلامت اللہ کی دوستی کی کہانی ہے۔ بابری مسجد شہید ہوچکی ہے، فتح کی علامت مسجد کی اینٹوں کی شہر شہر میں نمائش ہورہی ہے۔ شیوپوجن کے یہاں بھی اینٹ آتی ہے، اس کے گھر پر بڑی رونق ہوگئی ہے لیکن جب اس سے نقص امن کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے تو سرکار پکڑ دھکڑ شروع کردیتی ہے۔شیوپوجن پکڑے جانے کے ڈر سے مسجد کی اینٹ سلامت اللہ کے حوالے کردیتا ہے کیونکہ اس کے گھر پر چھاپیہ پڑنے کا خطرہ نہیں تھا۔ کہانی کا یہ آخری حصہ دیکھئے۔ سلامت اللہ شیوپوجن سے پوچھتا ہے:
’’اچھا یہ تو بتائیے یہ کس حصے کی ہے؟‘‘ اچانک سلامت اللہ نے ایک بہت ہی عجیب سوال کرڈالا۔
’’یہ۔۔۔۔؟ یہ نیوکی ہے۔ اوپر کا تو زیادہ حصہ بربادہی ہوچکا۔‘‘ شیوپوجن نے بلاجھجھک بڑی صفائی سے جواب دیا مگر جب وہ اسے لیے ہوئے اپنے گھر پہنچا تو بیوی بالکل بلبلا اٹھی اور شیرنی کی طرح جیسے اس پر جھپٹ پڑی۔ آپ کی عقل ماری گئی ہے کیا؟ کل اسی کو لے کر اتنا پریشان تھے اور آج اسی کو گھر اٹھالائے؟‘‘
’’یہ بہرحال اپنی چیز ہے۔‘‘ سلامت اللہ نے سمجھانا چاہا۔
’’اپنی چیز؟‘‘ بیوی غصہ میں ناچ ناچ گئی۔ ’’کسی کونا سوریا پھوڑا ہوجائے تو وہ بھی تو اس کی اپنی چیز ہوتا ہے تو کیا وہ سینت سینت کر اپنے پاس رکھے رہتا ہے؟‘‘
’’لاحول ولاقوۃ‘’ سلامت اللہ بگڑا تھا۔ ’’کیا بے ہودہ باتیں کرتی ہو؟ کہاں ناسور؟ کہاں یہ ! ارے اس کی حفاظت کرنا اور اسے بچانا ہمارا فرض ہے۔‘‘
’’اچھا ابّا ایک بات بتائیے۔‘‘ اچانک کالج میں پڑھنے والا بیٹا بول پڑا۔ ’’آپ ہی نے بتایا تھا کہ واجد علی شاہ کے وقت سے یہ ہمارے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے، تو پھر ایک ایسی چیز جوہر زمانے میں ہر آدمی کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے، حد یہ ہے کہ اب شیو پوجن چاچا کے لیے بھی مسئلہ بن گئی۔ اسے اپنے سرمنڈھ لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ سلامت اللہ نے آنکھیں پھاڑ کر سامنے دیکھا۔۔۔۔ وہاں اس کا بیٹا ہی تھا مگر دھند گہری تھی اس لیے پہچاننے میں دشواری ہورہی تھی۔‘‘
پھر بیوی کی آواز سنائی دی، کورٹ، کچہری، تھانہ۔۔۔۔ ان کا کوئی ٹھکانہ! کہیں یہ شیوپوجن کے گھر جاتے جاتے ہماری طرف مڑ گئے تو؟ نابانا۔۔۔۔ بیوی بالکل مرنے مارنے پر تلی ہوئی تھی۔
’’دیکھو تم لوگ سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ سلامت اللہ کو لگا کہ اب وہ اپنے گھر میں بھی ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہا ہے۔
’’ارے جائیے، جائیے‘‘ بیوی غصہ میں ہاتھ نچاتے ہوئے بولی۔ ’’کسی اور کو جاکر سمجھائیے اور اس سے پہلے خود سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ دلّی میں بیٹھے سورما تو اس آگ سے گھبراکر بھاگ کھڑے ہوئے ہم لاچار لوگ کس گنتی میں ہیں۔‘‘
یہ بات سلامت اللہ کے جی کو بھی لگ گئی۔ سچ مچ جب آگ لگی تو دلّی میں بیٹھے سورما بھی تو صرف دور دور ہی سے اگ آگ کا شور مچاتے رہے۔
’’مگر قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ جب وہ باہر آیا تو دیکھا کہ شیوپوجن کے گھر والے کہیں جارہے ہیں۔
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ اس نے شیوپوجن کے لڑکے سے پوچھا جو گھر میں تالا لگارہا تھا۔
’’جی ہم لوگ موسی کے یہاں کاشی جارہے ہیں۔‘‘
’’اور شیو پوجن جی۔۔۔۔؟‘‘
وہ پہلے ہی اسٹیشن جاچکے، اتنا کہتے ہوئے لڑکا بھی رکشہ پر بیٹھ گیا۔
شاید باپ کے حکم کے مطابق وہ بھی زیادہ بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ شیوپوجن کی اسٹریٹجی سلامت اللہ کی سمجھ میں آگئی۔ بال بچوں والا آدمی ڈر کے بھاگے نہیں تو اور کیا کرے۔
مگر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ شیو پوجن تو گیا سے نکلتا ہے اور کاشی چلا جاتا ہے۔ اور چاہے گا تو کاشی سے اپنے ماما کے گھر متھرا چلا جائے گا لیکن سلامت اللہ کیا کرے جس کو شیوپوجن نے زبردستی نیو کی اینٹ سونپ دی ہے۔
’مورپاؤں‘ بھی ایک سینئر کانگریس کارکن لکشمی جی اور ان کے مسلمان دوست کی کہانی ہے۔ لوکیش خواجہ کی نگری اجمیر ہے۔ کہانی کے فرسٹ پرسن میاں صاحب اور لکشمن جی کی گفتگو:
’’کل آپ کی ایک بات نے مجھے بے چین کردیا ہے۔‘‘
’’کونسی بات بندھو؟‘‘ انھوں نے حیرت سے مجھے تکا۔
’’آپ نے کہا تھا بھارت ماتا کو ایک آبجیکٹ کے طور پر ہمارا ماڈل بننا چاہیے۔‘‘
’’ہاں کہا تو تھا۔‘‘
’’آپ تو کانگریس کے بہت ایکٹیو ممبر رہے ہیں۔ آپ کا Defination سیکولرزم سے میل نہیں کھارہا ہے۔‘‘
لکشمن جی نے چھیلی ہوئی الائچی ٹرے میں رکھ دی اور بہت آہستگی کے ساتھ لیکن بہت پراعتماد لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولے، ’’میں کانگریسی ضرور ہوں لیکن آپ نے مجھے سیکولر کیسے سمجھ لیا، یہ غلط بات ہے، میں ہندو ہوں۔‘‘
اس کے بعد لکشمن جی بھی چپ ہوگئے اور میری سمجھ میں بھی نہیں آیا کہ اب ہمیں آگے کیا بات کروں، لکشمن جی میرے سامنے بیٹھے تھے اور میں ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، پھر بھی مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان بھیانک لاتعلقی پھنکار مار رہی ہے۔ میں شاید چاہ کر بھی الٹا اچانک اُبھری اس لاتعلقی کو اُکھاڑ پھینکنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، لکشمن جی نے ہی پہل کی۔
’’اور سنائیے کیا حال چال ہیں، آپ لوگ ابھی کہاں سے لوٹے؟‘‘
’’درگاہ سے۔‘‘ میں نے اپنی آواز کسی اندھے کنویں سے باہر آتی محسوس کی۔
’’ارے تو ہمیں بھی کہا ہوتا، ہم بھی چلتے، اجمیر میں تو آستھا کے دو ہی کیندر ہے، پشکر ناتھ اور دوسرے کھاجا صاحب۔‘‘
سیاست کے میدان میں کامیابی اور عہدوں کی آرزو میں ضمیر اور ناموس کا سودا کرنے والے کرداروں پر بہار کے کئی فکشن نگاروں نے بے نظیر افسانے اور ناول لکھے ہیں، لیکن حسین الحق کی کہانی ’جلیبی کا رس‘ اس موضوع پر دلچسپ، بالکل سچی، سیاسی گلیاروں میں حرص و ہوس اور لالچ کا تعفن پھیلانے والے ایک اولوالعزم سیاسی کارکن کی کہانی ہے، جو مکھیہ منتری کے بااثر سیکریٹری کو اپنی بیوی کے ساتھ اپنی خوابگاہ میں قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر اسے قتل کردینا چاہتا ہے لیکن جب وہ شخص اسے ایک بڑے عہدے کا تقرری نامہ تھماتا ہے تو وہ اس کے پاؤں چھونے لگتا ہے۔
حسین الحق نے ہندوستانی مسلمانوں کی قدیم روایات، سماجی اقدار، زوال اور تباہی کی کبھی نہ بھولنے والی کہانیاں تخلیق کی ہیں، انھوں نے زندگی اور ہندوستانی معاشرے کے جس پہلو پر بھی افسانہ لکھا وہ ناقابل فراموش بن گیا۔ انھوں نے دو ناول لکھے، پہلا ناول ’بولو مت چپ رہو‘ 1990ء میں منظرعام پر آیا۔ آج کی دُنیا میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کے مسئلے پر یہ ناول اُردو ادب کو حسین الحق کی فکر انگیز دین ہے۔ ناول میں جس فنکارانہ خلوص اور مفکرانہ اسلوب میں، ہندوستان کے تعلیمی نظام کا محاکمہ کیا ہے، اس کے بارے میں پروفیسر سیّد محمد عقیل کا یہ کہنا ناول کا بہترین تعارف ہے کہ ’بولو مت چپ رہو‘ اس موضوع پر اب تک کا سب سے اچھا ناول ہے۔ لیکن ان کا شہرۂ آفاق ناول ’فرات‘ اُردو کی عصری ناول نگاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’فرات‘ کو ملک گیر سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس پر تبصرے اور تجزیاتی مضامین ادبی جرائد میں شائع ہوئے، انھیں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ’فرات مطالعہ، محاسبہ‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کردیا۔ ’فرات‘ کے بارے میں نامور دانشور ڈاکٹر جاوید حیات کا یہ تجزیہ صائب اور حقیقت پسندانہ ہے:
’’فرات عمل اور ردّعمل کے مسلسل اور پیچیدہ دام میں گرفتار اور زندگی کا اعلامیہ ہے جو فرات کے مانند ہے اور جس کے کنارے کھڑی تشنہ لب انسانیت کرب و بلا گرفتار ہے اور اس سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ کائنات کا انتہائی تسلسل ہر گزرے ہوئے لمحے کو کہانی بتاتا چلا جارہا ہے اور نور و تاریکی کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ حسین الحق نے نور و تاریکی کی اسی آنکھ مچولی کو صفحۂ قرطاس پر اُتار دیا ہے جہاں ان کا تجربہ اور اظہار گھل مل کر ایک عضویاتی کل کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔‘‘
مقتدر محقق، نقاد اور دانشور پروفیسر صغیر افراہیم نے اپنی تازہ ترین کتاب ’اُردو ناول: تعریف اور تجزیہ‘ میں عہد حاضر کے اس گرانقدر ناول کا تنقیدی مطالعہ، فرات تشنہ لب انسانیت کا اعلامیہ کے عنوان سے سپردِ قلم کیا ہے۔ افراہیم صاحب کے طویل و بسیط مقالے کا درج ذیل حصہ حسین الحق کے اس تاریخ ساز ناول کی تفہیم کا بہترین وسیلہ ہے:
’’حسین الحق نے تاریخ، تہذیب، ثقافت اور معاشرتی شعور سے اپنا تخلیقی نظام قائم کیا ہے۔ انھوں نے فکشن کے رائج سانچوں کو توڑ کر اظہار کے نئے رویوں کو فروغ دیا ہے۔ ناول ’فرات‘ اس کی واضح مثال ہے جو تشنہ لب انسانیت کا اعلامیہ ہے۔ دو سو چھیانوے صفحات پر مشتمل یہ ناول 1992ء میں شائع ہوا۔ یہ سال صرف بابری مسجد کی شہادت کا سال نہیں بلکہ آپسی رشتوں اوراعتماد کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا سال ہے۔ ’فرات‘ کی اہمیت اور افادیت ہر پرآشوب دَور میں اور تشنہ عصر میں محسوس ہوتی ہے لہٰذا حسین الحق نے وقار احمد کے توسط سے پانچ نسلوں پر مشتمل ایک کہانی قاری کے سامنے پیش کردی اور سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے نئے در کھول دیئے۔ اس عبرت ناک کہانی میں مرکزیت وقار احمد کو حاصل ہے جن کی پشت پر اباجان اور دادا حضرت کی یادیں، سامنے بیٹے بیٹی، پوتے پوتی اور درمیان میں خود وقار احمد اور اُن کی پچھتّر سالہ زندگی کے نشیب و فراز ہیں۔ ابا جان اور دادا حضرت تو پس منظر کا کام دیتے ہیں، پیش منظر میں بڑے بیٹے فیصل کا کنفیوزڈ مگر قابل توجہ کردار ہے جو نہ تو پوری طرح جدید بن سکا اور نہ ہی قدیم روایات سے وابستہ ہوسکا۔ دوسرا بیٹا تبریز ہے جو ذہنی ہیجان میں مبتلا، مذہب سے بے بہرہ، گھر سے بیگانہ اور خود سے اکتایا ہوا نظر آتا ہے۔ تیسرا کردار بیٹی شبل کا ہے۔ پینتیس سالہ روشن خیال لڑکی شبل جمہوریت، سیکولرزم اور کمیونزم کی دلدادہ ہے اور سب کو اپنے طور پر زندگی گزارنے کا حق دلانا چاہتی ہے مگر فسادیوں کی بربریت کا شکار ہوتی ہے اور جس کے بارے میں کمیشن آج تک فیصلہ نہ کرسکا کہ وہ پولیس کی گولی سے مری یا حملہ آوروں کے وار سے۔ ’فرات‘ کی کہانی بظاہر ایک خاندان کی کہانی کی طرح اُبھرتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اُس کا کینوس وسیع ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں ماضی کا جبر، جنریشن گیپ، مذہبی رویے، سیاست، تہذیب، ثقافت غرض زندگی کے مختلف پہلوؤں کے در کھلتے چلے جاتے ہیں اور وہ بھی اس تخلیقی خوبی اور فنی چابک دستی کے ساتھ کہ قاری کی دلچسپی ناول کے آخری صفحات تک مسلسل برقرار رہتی ہے۔ آئیڈیالوجیکل مسائل اور اقدار کے تصادم کی عکاسی کے علاوہ مذکورہ ناول اُس کرب کا بھی شدت سے احاطہ کرتا ہے جس میں ہندوستانی مسلمان تقسیم وطن کے بعد سے آج تک عدم تحفظ کے حالات سے دوچار ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کس طرح صرف مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتے ہیں اور پولیس اُس میں کس طرح برابر کی شریک رہتی ہے، یہ ناول اُس کی نشاندہی کرتا ہے اور لاشعوری طور پر یہ بھی احساس احساس دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس یا تو عظمتِ رفتہ کی داستانیں ہیں یا حال کی بدحالیاں اور وہ ان ہی کے وسیلوں سے جی رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ زندگی کی چاہت بار بار انھیں ٹھونکے مار رہی ہے اور آگے بڑھنے پر اُکسا رہی ہے۔
حسین الحق کا یہ ناول عمل اور ردّعمل کے پیہم اور پیچیدہ دام میں گرفتار اُس زندگی کا اعلامیہ ہے جو فرات کی مانند ہے اور جس کے کنارے کھڑی تشنہ لب انسانیت کرب و بلا میں گرفتار ہے اور اُس سے نجات حاصل کرنے کی مسلسل جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔ اس ہمہ گیر علامت کی روشنی میں جو اہم پہلو ہمارے سامنے اُبھر آتا ہے وہ یہ کہ قوم کو نہ صرف اپنی تاریخ سے واقف ہونا چاہیے بلکہ اُس سے سبق بھی لینا چاہیے۔ ماضی کی طرف مراجعت کا سفر کل، آج اور کل کے پل کو پاٹنے میں معاون ہوتا ہے۔ اسی کے توسط سے وہ محرکات اُجاگر ہوتے ہیں جو ہمیں مہمیز کرتے ہیں، جدوجہد پر اُکساتے ہیں اور ہمیں Nostalgic بھی بناتے ہیں۔ بس انتخاب کا اہتمام اور واقعات کی روح کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔ حسین الحق تقسیم ہند کا ذکر کرتے ہوئے اس سائیکی کو بہت خوبصورت ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں: مملکتِ خداداد اسلامیہ پاکستان اور سیکولر جمہوریہ ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے خون سے وہ ہولی کھیلی گئی کہ مہابھارت کی جنگ ایک چھوٹا سا حادثہ محسوس ہونے لگی اور راتوں رات انسانی تقدیر کے کلینڈر کا ایک ورق زوردار ہوا کے جھونکے سے پھٹ کر کہیں دور پھینکا گیا اور اب مسلمان ہندوستان میں ایک نمبر کے شہری کا بلا لگائے، دو نمبر کے شہری کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ ناول ’فرات‘ اپنی تنظیم کا احساس دلاتا ہے، مسائل سے دوچار کرتا ہے اور حساس قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے تمام کردار اپنی اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے بعد ناآسودہ نظر آتے ہیں اور خودشناسی اور خوددریافتگی کے عمل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مثلا کے طور پر تبریز اپنے اردگرد کے حبس زدہ ماحول سے گھبراکر خود سے پوچھتا ہے: میں کیا ہوں؟۔۔۔ میں کیوں ہوں؟۔۔۔۔ میں کب سے ہوں۔۔۔۔‘‘ (’اُردو ناول تعریف تاریخ تجزیہ)
حسین الحق کا تعلق شیر شاہ کے شہر سہسرام کے عظیم صوفی خانوادے سے ہے، ان کے والد حضرت مولانا انوار الحق شہودی نازش سہسرامی مشہور عالم دین، خطیب، شاعر اور ادیب تھے۔ حسین الحق 2نومبر 1949ء کو سہسرام میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانوادے کی روایات کے مطابق اپنے والد ماجد کے زیر سایہ دینی تعلیم سے ہوئی۔ انھوں نے مدرسہ کبیریہ سے مولوی کا امتحان پاس کیا۔ اپنے تعلیمی اور ادبی اور تدریسی سفر کی روداد خود حسین الحق صاحب کے الفاظ میں:
’’میں ۲؍نومبر ۱۹۴۹ء کو سہسرام میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آرہ ضلع اسکول سے میٹرک کیا۔ ایس۔پی۔جین کالج سے گریجویشن کیا اور یونیورسٹی میں فرسٹ کلاس فرسٹ آیا۔ پٹنہ یونیورسٹی سے اُردو میں ایم۔اے۔کیا اور اس میں بھی ٹاپ کیا۔ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا سے فارسی میں ایم۔اے۔کیا اور رفرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن پائی۔ اُردو افسانوں میں علامت نگاری کے موضوع پر ۱۹۸۷۵ء میں پی۔ایچ۔ڈی کا کام مکمل ہوا۔ ایم۔اے کرنے کے فوراً بعد گروگووند سنگھ کالج، پٹنہ سٹی میں عارضی طور پر بحیثیت لیکچرار جوائن کیا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد یو۔جی۔سی۔ سے جونیر فیلوشپ ملی اور غالباً ۱۹۷۴ء تک ریسرچ فیلو کی حیثیت سے پٹنہ یونیورسٹی میں ریسرچ کا کام بھی کرتا رہا۔ اور آئی۔اے۔ سے ایم۔اے تک کی کلاسیں بھی لیتا رہا۔ میرے اس زمانہ کے شاگردوں میں پروفیسر شاداب رضی، ڈاکٹر انیس صدری، ڈاکٹر نعیم فاروقی اور آج کے کانگریسی لیڈر شکیل الزماں کا نام قابلِ ذکر ہے۔ اسی درمیان کمیشن سے ایس۔پی۔کالج دمکا میں بحالی ہوئی۔ ۱۹۸۱ء میں مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا کے پوسٹ گریجویٹ ڈپارٹمنٹ میں تبادلہ ہوگیا اور اس وقت سے اب تک وہیں مصروف کار ہوں۔ (اب سبکدوش) میری شادی نشاط آرا خاتون بنت سیّد محمد اسرارالحق رٹائرڈ اسسٹنٹ رجسٹرار و سکریٹری ٹو۔وی۔سی سے ۱۹۷۷ء میں ہوئی۔ اہلیہ گیا کے ایک ہائی اسکول میں اُردو ٹیچر ہیں۔ دو بیٹی اور دو بیٹے اللہ نے عطا کئے۔ (ماشاء اللہ تینوں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہیں) لکھنے پڑھنے کا کام دس برس کی عمر سے شروع ہوگیا تھا۔ پہلی کہانی ’عزت کا انتقال‘ صوفی بلیاوی کے نام سے ماہنامہ ’کلیاں‘ لکھنؤ میں غالباً ۱۹۶۴ء یا ۱۹۵۶ء میں چھپی۔ اسی زمانہ میں پہلا افسانہ ’پسند‘ ماہنامہ ’جمیلہ‘ دہلی میں چھپا۔ ۱۹۶۶ء میں شفقؔ اور فخرؔ رضوی کے ساتھ مل کر میں نے بچوں کا ایک رسالہ ’انوار صبح‘ سہسرام سے نکالا۔ میرا پہلا مضمون ’بہار کی خبریں‘ پٹنہ میں غالباً ۱۹۶۹ء میں چھپا جس کا عنوان تھا ’اُردو شاعری پر گاندھی جی کے اثرات‘ آج تقریباً دو سو افسانے، ڈیڑھ سو مضامین، پانچ افسانوی مجموعے، دوناول، چار نثری کتابیں شائع ہوچکی ہیں جس میں ’مطلع‘ کو بہار اُردو اکیڈمی نے پہلے انعام کا اور ناول ’فرات‘ کو دوسرے انعام کا اور افسانوی مجموعوں ’پس پردہ شب‘ اور ’صورت حال‘ کو بھی دوسرے انعام کا مستحق سمجھا۔ وزارتِ فروغ انسانی حکومت ہند کی طرف سے جونیئر فیلو شپ اور سینئر فیلوشپ دونوں سے نوازا گیا۔ پچاسوں سیمینار، کانفرنسوں اور جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ حتیٰ الامکان اور اپنی بساط بھر زبان و ادب سے جڑے رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ باقی آپ جانیں اور اُردو والے جانیں۔‘‘ (اُردو دنیا دسمبر ۲۰۰۳ء)
درس و تدریس کی اہم ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف میں وہ آج تک پوری ذہنی شعوری، تخلیقی توانائی کے ساتھ مشغول ہیں۔ تصوف کا ذوق ان کے اسلاف کی وراثت ہے۔ انھوں نے تصوف و روحانیت کے موضوع پر مسلسل مقالات تحریر کیے۔ اس بات میں ان کی خدمات کا اربابِ تصوف و معرفت نے اعتراف کیا ہے۔ آپ نے آثار حضرت وحید (تصنیف حضرت سرور اورنگ آبادی)، غیاث الطالبین (تصنیف حضرت مولانا غیاث الدین اخلاقی)، فوز و فلاح کی گمشدہ کڑی اور شرفِ آدم کا نقطئہ عروج (تصنیف مولانا انوارلحق شہودی) وغیرہ کی ازسر نو تالیف و تدوین کی۔ برگزیدہ دینی و روحانی شخصیت حضرت وصی کی سوانح اور عظیم مجاہد بزرگ حضرت قاضی علی کا تذکرہ ’آثارِ بغاوت‘ ان کی مشہور تالیفات ہیں۔ انھوں نے اپنے والد حضرت مولانا انوارلحق شہودی سہسرامی کے دو شعری مجموعے مرتب کرکے شائع کیے۔ انھوں نے قاضی علی حق اکیڈمی کے نام سے باقاعدہ اشاعتی ادارہ ’آمڈاری ہاؤس سہسرام‘ میں قائم کیا، جہاں سے اپنی اور اپنے والد محترم کی نگارشات کے علاوہ دیگر شعراء و ادباء کی معیاری کتابیں بھی شائع کیں۔ شروع میں شاعری سے خوب لگاؤ رہا۔ انھوں نے لاتعداد غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’آخری گیت‘ بہت پہلے 1971ء میں شائع ہوچکا تھا۔ ان سب کے علاوہ ’اتحاد اساتذہ کی اہمیت‘ ،’نثر کی اہمیت‘ اور ’اُردو فکشن ہندوستان میں‘ ان کی گرانقدر تنقیدی تحقیقی کاوشیں ہیں۔ انجمن تصوف پسند مصنّفین ایک تعارف اور تاریخ تصور، دائرۂ حضرت وصی، مقالاتِ مولانا انوار الحق اور تصوف منصب اور صورتِ حال بھی ان کی اہم نگارشات ہیں۔ ان کا تازہ ترین ناول ’اماوس میں خواب‘ جلد ہی منظرعام پر آنے والا ہے۔
حسین الحق کے فن اور شخصیت پر یہ باقاعدہ مضمون نہیں، محض چند تعارفی جھلکیاں ہیں۔
نوٹ: حسین الحق کا نیا ناول ’اماوس کی رات‘ کتاب کے پریس جاتے وقت نومبر 2017ء میں منظرِعام پر آچکا ہے۔ (ف۔ا)