پریکٹس – Practice

0
140

Practice

پچھلے کئی مہینوں سے میں اپنے ماسٹر ڈگری کورس کے متعلق مواد کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ آج سہ پہر کا وقت تھا اور میں ایک لائبریری سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہونے کے لئے ٹرین میں سوار ہوئی۔ لیکن دوران سفر اسی کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔ میرا ذہن اسی بات سے الجھا ہوا تھا کہ مجھے ایسی کتابیں کہاں ملیں گی جو ماسٹر ڈگری کی تھیسس مکمل کرنے میں مددگار ہوں۔ کالج کی لائبریری میں ماسٹر ڈگری کے موضوع سے متعلق کتابیں بہت کم دستیاب تھیں۔ میں نے ترکی کی تمام لائبریریوں اور انٹرنٹ پر کتابیں تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ کتابیں نہیں ملیں جو درکار تھیں۔ میرا کافی وقت اسی ادھیڑ بن میں گزرتا جا رہا تھا۔ پھر اچانک مجھے معروف اسکالر ایان سر کی یاد آئی۔ جو ایک سال پہلے ہماری یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے آئے تھے۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ ترکی کے طلباء کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار ہیں اور طلباء کو رابطے کے لیے اپنا فون نمبر دیا تھا۔ ایان سر کی یاد نے یہ احساس دلایا کہ اب شاید میرا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔ میں نے سکون کا سانس لیا اوریہ یقین ہونے لگا کہ ایان سر کی مدد سے اب تمام کتابیں مل جائیں گی اور میری پریشانی ختم ہو جائے گی۔ ٹرین اپنی رفتار کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھی جا رہی تھی اور خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ میں نے کامیابی سے ماسٹر ڈگری حاصل کر لی ہےاور مجھے اوّل اعزاز بھی مل گیاہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ایک معروف یونیورسٹی میں اچھی ملازمت بھی مل گئی ہے۔۔۔ اور میں اپنی ماہانہ آمدنی سے اپنے غریب کنبے کے اخراجات میں کچھ مدد کر پا رہی ہوں۔ اپنے کنبے کے احوال کے بارے میں سوچتے ہی میری آنکھیں بھر آئی تھیں ۔۔۔ میں نے ایک لمبی اور سرد آہ کھینچی اورتصور کرنے لگی کہ میرے سارے خواب پورے ہو جائیں گے۔
گھر پہنچتے ہی میں نے سب سے پہلے ٹیلی فون انڈیکس میں اس اسکالر کا نمبر تلاش کرنا شروع کیا۔ جلد ہی مجھے، اس کا نام اور نمبر مل گیا۔ میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا، کیونکہ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ اسکالر میری ضرور مدد کرے گا۔ میں نے مزید انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور آناً فاناً اس اسکالر کے وہاٹس ایپ پر ایک مسیج بھیج دیا ۔۔۔
’ایان صاحب! کیا حال ہیں؟! مجھے علم نہیں کہ آپ مجھے جانتے ہیں یا نہیں!‘
’میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ تم بتاؤ ۔۔ تم کون ہو؟! اور میرا نمبر کیسے ملا؟!‘ دوسرے ہی لمحے ایان سر کا جواب آیا۔
’جب آپ ترکی آئے تھے تو ملاقات ہوئی تھی۔ آپ ہماری یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں تشریف لائے تھے اور آپ نے مجھے اپنا فون نمبر دیا تھا۔‘
’کیا نام ہے تمہارا؟!‘
’میرا نام تولین ہے۔ اور میں بھی ہندوستانی زبان کی ایک طالبہ ہوں۔‘
’یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم ہندوستانی زبان کی طالبہ ہو۔ امید ہے کہ ہم دونوں رابطے میں رہیں گے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتاؤ۔ مجھے خوشی ہوگی۔‘ ایان سر نے محبت اور اپنائیت کا اظہار کیا۔
’ جی سر! سچ میں، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے؟!‘
’ضرور!‘
’بہت شکریہ سر! آپ سے ایک گزارش ہے کہ مجھے اپنے ماسٹر ڈگری کے لئے کچھ ضروری کتابوں کی ضرورت ہے۔‘
’جی، جو تم چاہتی ہو ضرور بھیجوں گا۔ اپنا ای میل بھیجو، تاکہ تم کو کتابیں بھیج سکوں۔ اور تم بھی مجھے گوگل پر ایان حکیم کے نام سے تلاش کر سکتی ہو۔ اور میری ویب سائٹ بھی ضرور دیکھو اور اس پر اپنے تاثرات دو۔‘
’جی سر ضرور! آپ کا بے حد شکریہ!‘
ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ایان سر نے اپنے وعدے کے مطابق مجھ کو کچھ نہیں بھیجا تھا۔ میں روزانہ تین چار بار اپنے ای میل چیک کرتی تھی کہ شاید ایان سر نے کتابیں بھیجی ہوں، لیکن مجھے کافی مایوسی ہوئی۔ اسی دوران میں ایان سر کو یاد دہانی کے لئے وہاٹس ایپ پر پیغام بھیجنا چاہتی تھی، تاہم مجھے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں ایان سر ناراض نہ ہو جائیں۔ اس طرح کئی روز گزر گئے اور مجھے ان سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔ میں اپنی اسی حالت کی بابت پریشانی کے عالم میں سوچتی رہتی تھی کہ اچانک میرے موبائل پر پیغام آنے کی گھنٹی بجی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ پیغام ایان سر کا ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔
’سوری! کل رات دیر ہوگئی تھی اور میں مسیج کا جواب نہیں دے پایا۔ خیر! کیسی ہو؟ معذرت خواہ ہوں، کیونکہ میں تو بھول گیا اور تمہیں کتابیں اب تک نہیں بھیج پایا۔ ابھی میں تم کو دو کتابیں بھیجنے جا رہا ہوں۔ موقع ملتے ہی جلد مزید کتابیں بھیجوں گا۔‘
مسیج دیکھ کر میں بہت خوش ہوئی۔ میں نے ای میل کھول کر دیکھا، کتابیں مل چکی تھیں۔ پھرمیں نے فوراً شکریے کا پیغام ایان سر کو بھیج دیا کہ ان کی مدد سے میں اب اپنی ریسرچ مکمل کر سکوں گی۔
دوسرے دن میں اپنے کالج کی لائبریری میں بیٹھی کتابوں کا مطالعہ کر رہی تھی کہ ایان سر کا فون بجنے لگا۔ میں نے فون کا جواب نہ دے کر ایک پیغام بھیج دیا:
’سر معافی چاہتی ہوں۔ میں لائبریری میں ہوں، اس لئے آپ کی کال کا جواب نہیں دے سکتی۔‘
’کوئی بات نہیں! بس میں نے تم کو کچھ مضامین ای میل پر بھیجے ہیں ۔۔۔ اسی کے بارے میں بات کرنے کے لئے فون کیا۔ میں آج تعطیل پر ہوں اور ممکن ہو تو اپنی آواز سناؤ ۔۔۔ یعنی کال کے ذریعے۔۔۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تم ہندوستانی زبان میں گفتگو کرنے میں کمزور ہو، ایک بات عرض کروں، میں تمہیں بولنے کی پریکٹس کرا سکتا ہوں ۔۔۔ اس طرح سے ہمارا رابطہ رہے گا اور تمہارے بولنے کی پریکٹس بھی ہوتی رہے گی۔‘ ایان سر نے لکھا۔
’سر! مجھے سمجھ نہیں آر ہا، میں کیسے آپ سے بات کروں؟!‘ میں نے جھجکتے ہوئے لکھا۔
’بہت آسان ہے۔ وہاٹس ایپ پر کال کر کے بات چیت کر سکتے ہیں۔ اس سے تمہارا اعتماد بڑھے گا۔‘ ایان سر نے میرے سوال کا جواب دیا۔
تھوڑی دیر کے لئے میں خاموش رہی، پھر میں نے لکھا:
’جی سر! کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔ لیکن ابھی نہیں …‘
“ٹھیک ہے!! بس اگر ہندوستانی زبان بہتر کرنی ہے تو تمہیں سیرئیس ہونا ہوگا”
پتہ نہیں کیوں مجھے ایان سر کے مسیجز سے کچھ ڈر محسوس ہوا اور میں مسیجز کا جواب دینے میں ہچکچا رہی تھی، لیکن پھر میں نے سوچا مجھے جواب دینا چاہئے۔ میں نے کچھ سوچتے ہوئے پیغام بھیج دیا:
’ٹھیک ہے سر! وہاٹس ایپ پر بات کر سکتے ہیں، لیکن یقینا ًآپ مصروف رہتے ہیں اور میں بھی اپنی پڑھائی میں مصروف ہوں۔ مجھے معلوم نہیں، بات کرنا کس وقت مناسب ہوگا؟!‘
’تم وقت نکالو! کیونکہ سیکھنا تم کو ہے! اور میں تمہارے لئے وقت نکال لوں گا۔ اس طرح ہمارے درمیان ایک مضبوط تعلیمی رشتہ قائم ہوگا۔‘ ایان سر کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔
’ٹھیک ہے سر!‘
’تم بہتر انداز میں ہندوستانی زبان بولو گی۔ اور پھر میں تم کو عالمی کانفرنس میں موقع بھی دلواؤں گا۔‘
’مطلب میں کانفرنس کے لئے سفر کروں گی؟!‘ میں پرجوش ہو کر بولی۔
’جی ہاں! ایک اسکالر کی حیثیت سے …‘
اسی دوران ایان سر نے اپنی ذاتی تصاویر اور کانفرنسوں میں ادیبوں کے ساتھ لی گئیں تصاویر مجھے بھیجنا شروع کیں۔
کچھ دن بعد، رات کو میں کتابوں کے اوراق پلٹ رہی تھی ۔۔۔ میں اکثر دیر رات اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی، کیونکہ اپنی ریسرچ مکمل کرنے کی فکر نے پریشان کر رکھا تھا ۔۔ کہ اچانک ایان سر کا میسج آیا۔
’تولین مدت سے تم غائب ہو! سب خیریت تو ہے! بتاؤ! آج بات کرنا چاہتی ہو؟ ابھی میں فری ہوں۔‘
’ پتہ نہیں سر! مجھے دیر رات کو کسی سے بات کرنے میں جھجھک ہوتی ہے۔‘
’تو کیسے سیکھو گی ہندوستانی زبان؟ تم کوشش کرو۔ اگر ایک بار کرو تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں مدد کروں گا۔ تم مت گھبراؤ۔‘
مجھے ایان سر کے اندازِ بیان اور بے باکی سے آج کچھ شک گزرا، اسی لئے میں نے ان کو ایک پیغام بھیج دیا:
’ سر! میں ہندوستانی زبان اچھی طرح بول سکتی ہوں۔ بات کرنا آپ سے ابھی مشکل ہے۔ معذرت چاہتی ہوں۔‘
’سر! کیا آپ شادی شدہ ہیں؟!‘ میں نے ایان سر کے ساتھ بات چیت کا رُخ دوسری طرف موڑ کر پوچھا۔
’جی ہاں۔ شادی شدہ ہوں۔ سنو! اگر تم مجھ سے پریکٹس کرو گی تو تمہاری ہندوستانی زبان اور اچھی ہو جائے گی۔ ایک ریکارڈ میں اپنی آواز بھیجو ۔۔۔ تم اپنی تصویریں کیوں نہیں بھیجتی؟! ۔۔۔ میں نے تمہاری وہاٹس ایپ پروفائل فوٹو دیکھی ہے۔ بہت دلکش ہے۔ تمہاری مسکراتی تصویر دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔۔ پھولوں کی طرح ۔۔۔ تمہاری آنکھیں ہرن کی طرح ہیں ۔۔۔ اور بتاؤں؟! ‘
کچھ لمحوں کے لئے میں پتھر کے بت کی طرح منجمد تھی۔ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ بے ساختہ میں نے لکھا:
’ سر! مجھے لگتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے ۔۔۔ یہاں بہت رات ہو گئی اور مجھے نیند آ رہی ہے۔‘
’کوئی مسئلہ نہیں! اب زیادہ پریشان نہیں کروں گا، لیکن میں نیند سے پہلے تم کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔’ ایان مجھ سے چیٹ کرنے کے لئے مصر تھا۔ اور اس نے ایک وائس ریکارڈ مجھے بھیج دیا:
’ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ اُس شیر کو روزانہ ایک نئے شکار کی تلاش تھی، ایک دن اُسے ایک لڑکی نظر آئی جس کا نام تولین تھا۔ تولین شیر کو پسند کرتی تھی، لیکن وہ ڈرتی تھی کہ شیر اُسے کھا نہ جائے۔ شیر کو تولین بہت پسند تھی لیکن وہ بھی متذبذب تھا کہ تولین کو کیسے بتائے کہ وہ اس سے پیار کرتا ہے۔ شیر اس بات سے پریشان تھا کہ وہ تولین کو کھا جائے یا پھر اسے بتائے کیوں اسے چاہتا ہے۔‘
’یہ کہانی تم کو پسند آئی؟!‘ ایان نے پھر پوچھا۔ ’جی سر!‘ ایک اور بار نہ جانے کیوں میں نے اثبات میں جواب دیا۔
میں خاموش رہی اور ایان نے پھر سے چیٹ شروع کی ۔۔۔ ایان کچھ زیادہ لکھ رہا تھا: تم کیوں خاموش ہوگئیں۔ کیا تم کو میری باتیں پسند نہیں؟ مجھے معاف کر دو اگر تم کو میری باتیں اچھی نہ لگیں، لیکن حقیقت میں نے بیان کر دی ۔۔۔ صداقت کے ساتھ ‘
مجھے ایان سر کے مسیجز سے ڈر محسوس ہوا ۔۔۔ میں نے چیٹ بند کر دیا۔ لیکن ایک بار پھر ایان کا مسیج آنے کی آواز آئی۔ میں نے میسج کو سرسری نگاہ سے پڑھا اور میرا تجسس بڑھ گیا۔ اس لیے کہ اس مسیج میں لکھا ہوا تھا کہ’میں جلد ترکی آ رہا ہوں۔‘ ’سچ! آپ ترکی آ رہے ہیں؟! کب؟‘ میں نے ایک اور بار مسیج کھولا اور جواب میں لکھا۔
’جی ۔۔ بہت جلد ۔۔ تم سے ملنے کی میری خواہش ہے۔ تم سے میں ضرور ملنا چاہتا ہوں، تم کو دیکھنا چاہتا ہوں، آواز سننا چاہتا ہوں، کوئی صورت نکلے تاکہ میں تمہارے قریب آ جاؤں ۔۔۔ یہ تو پیار ہے تولین۔ ‘
مجھے اپنے پورے جسم میں ٹھنڈ سی محسوس ہوئی۔ میرا چہرہ زرد پڑ گیا۔ میں ایان کی ان باتوں سے کافی پریشان ہوگئی ۔ کچھ لکھتے لکھتے رک گئی، کیونکہ میں نے ایان سر کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
آدھی رات تھی، چاند کی مدھم کرن جو میرے گھر کے باہر کھڑے، بے جان اور گونگے درختوں سے میرے کمرے کے اندر چپکے سے داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور میں بے بسی کے عالم میں کرسی پر بیٹھی تھی۔ اچانک کمرے میں بجلی غائب ہوگئی۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا۔ میں چراغ لینے کے لیے میز تک پہنچی، لیکن ہوا تیز چلنے لگی ۔۔۔ ہوا کے جھونکے نے چراغ کو گل کر دیا۔ اور تیز آندھیوں سے درخت ہلنے لگے۔۔۔ تبھی ایان سر کا ایک پیغام موپائل پر نمودار ہوا۔
’پتہ ہے تولین میں تم سے اب تک نہیں ملا، لیکن لگتا ہے کہ تم کو جانتا ہوں۔ تم پر بھروسہ بھی کرتا ہوں۔ تم مجھے کوئی حکم کرو ۔۔ میں حاضر ہوں ۔۔۔ ہر وقت تمہارے لئے ۔۔۔ اگر ترکی میں ہماری ملاقات ہو تو تم میرے ساتھ رہو۔ مجھ سے ملو گی تو پاگل ہو جاؤ گی۔ تم کو پیسے بھی دوں گا، جیسے تم چاہتی ہو، تحفے بھی ۔۔۔ جب آؤں گا تو میرے ساتھ ساتھ رہنا۔ جہاں جہاں میں جاؤں گا، تم طے کرنا، کیا تم ترکی میں میرے ساتھ رات میں ٹھہرو گی ‘
مجھے ایان سر کا پیغام پڑھ کر بے پناہ خوف محسوس ہوا ہے۔ میں کانپ رہی تھی ۔۔۔ میرا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ میری سانسوں کا اتار چڑھاؤ ۔۔۔ گویا ایان سر کے پیغام نے میرے وجود کو ہلا کر کر رکھ دیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری زندگی ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے۔ میں ایان سر کی باتوں میں الجھ گئی تھی ۔۔۔ بے بس سی محسوس کر رہی تھی۔۔۔جانے کدھر مجھے جانا تھا ۔۔۔میں بالکونی کی طرف بھاگ گئی۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس وقت مجھ پر بے چین سی خاموشی طاری ہوگئی۔ میرے ذہن میں کئی سوالات امڈ رہے تھے ۔۔ ان سوالات نے خاموشی توڑی ۔۔۔ یہ کیا ہے؟ ۔۔ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ایسا کتنی لڑکیوں کے ساتھ ہوا ہوگا؟ کتنی لڑکیاں ایسے اسکالر کی شکار ہوئی ہوں گی؟ میری عقل نے کس طرح مجھے دھوکہ دیا ہے؟ کیوں ایان سر کے اشارے پا کر میں دور نہیں ہو گئی؟ مجھے خود کو اس اسکالر کا شکار نہیں ہونے دینا چاہئے تھا۔۔۔ جب اس کا اصلی رنگ نظر آیا تھا ۔۔۔ مجھے اس خیال سے نفرت ہے کہ میں اس اسکالر کے ساتھ اس طرح کی پریکٹس کروں!!!!
مجھ پر اور میرے آس پاس کی بے جان کائنات پر خاموشی لوٹ آئی۔ میں نے لمبی سانس لے کر اوپر نظر اٹھائی ۔۔۔ آسمان پر دھندلے سے ستارے کو تکنے لگی اور سوچ میں ڈوب گئی کہ کیسے مجھے اپنے خواب کی خوبصورت تعبیر دیکھنے کے بجائے میرے خواب بخارات کی مانند اڑ گئے۔ آخر کیسے یہ خوبصورت خواب ایک دہشت ناک خواب میں بدل گیا۔ اس وقت مجھے اس احمق دیہاتی کی کہانی یاد آ گئی۔ جو انڈوں کی ٹوکری لے کر گاؤں کے بازار جا رہی تھی۔ راستہ بھر وہ بڑے بڑے خواب دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنی متوقع کمائی کو شمار کرنا شروع کر دیا۔ لمبی لمبی امیدوں کو قائم کر رہی تھی۔ سب سے پہلے اس نے ایک بھیڑ خرید لی جو باڑے کو جنم دے گی۔ پھر اس کے ہر قدم کے ساتھ اس کے خواب بڑے بڑے ہو رہے تھے۔ اور جب فارم خریدنے جا رہی تھی تبھی اس کو ٹھوکر لگی۔ ٹوکری گر گئی اور انڈے ٹوٹ گئے۔
اس وقت میری خواہش تھی کہ اس رات اس کے ساتھ جو ہوا ہے، وہ صرف ایک عارضی خواب ہو۔ جب دن کی روشنی اپنی چمک بکھیرے تو وہ غائب ہوجائے گا۔ اور میرا پیچھا چھوڑ دے گا تاکہ میں اپنی جد وجہد جاری رکھوں۔
مجھے اپنے اندر سے ایک آواز سنائی دی: یہ کیسی پریکٹس ہے؟! اللّٰہ نہ کرے کہ میں اس طرح کی پریکٹس کروں!! اور کسی کی ہوس کا شکار بنوں؟! میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ میں اسکالر ایان کی پریکٹس کے تانے بانے میں الجھ کر پریشان ہو گئی، تبھی میرے کانوں میں پاس والی مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ اور میں نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئی۔
عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here