پوپ فرانسس کا مسلم دُنیا کو پیغام- Pope Francis’ message to the Muslim world

0
116
Pope Francis' message to the Muslim world
انیس باقر
جمعہ12مارچ2021
ابھی مشکل سے ہفتہ بھر گزرا ہوگا کہ پوپ فرانسس نے عراق کا تین روزہ دورہ کیا اور ان تین دنوں میں انھوں نے عراق کے چھ قدیم شہروں کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انھوں نے مسلم نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے داعش کو پسپا کرنے میں عیسائی نوجوانوں کا ساتھ دیا۔
خصوصیت کے ساتھ اُرؔشہر جہاں حضرت ِابراہیم پیدا ہوئے تھے وہاں انھوں نے مسلمان علما کی موجودگی میں کرسچن نوجوانوں سے خطاب کیا۔ دورانِ خطاب انھوں نے داعش کی سفاکی اور خونریزی میں مسلم امہ کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔
اس کے علاوہ مسلم نوجوانوں نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کی داعش کے ہاتھوں تباہی کے بعد تعمیر میں جو حصہ لیا اس کی تعریف کی۔ اُر شہر قدیم دورکی یاد تازہ کرتا ہے جہاں انبیا کی قبریں موجود ہیں، جن کو داعش نے تباہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر آیت اللہ سیستانی کے کہنے پر مسلم نوجوانوں نے داعش سے روبرو مورچہ لیا ۔
ماضی میں کئی پوپ حضرات گزرے ہیں مگر انھوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے اشتراک عمل کی اس طرح داد نہ دی جیساکہ پوپ فرانسس نے اکیانوے سالہ آیت اللہ سیستانی کا شکریہ نجف جاکر بالمشافہ ادا کیا۔ اس عمل سے مسلمانوں اور مسیحیوں میں یگانگت، رواداری اور قربت پیدا ہوئی۔ ماضی میں عیسائی  اور مسلمان حکمرانوں میں صلیبی جنگوں کا ایک تسلسل رہا ہے جس کی طوالت تقریباً ایک صدی کے قریب رہی ہے اور مسلمانوں میں صلاح الدین ایوبی کا تذکرہ آج بھی کیا جاتا ہے۔ اس بڑی خلیج کو پُرکرنے کے لیے بڑی حکمت ِعملی درکار ہے ۔
پوپ فرانسس کو اس تاریخی دوری (فاصلے)کا اندازہ تھا۔ اس لیے انھوں نے جن جن شہروں کا دورہ کیا اس کی تھوڑی بہت تفصیل کی ضرورت ہے،ان میں شہر اُر کے علاوہ قرقوش،اربل، ناصریہ، بغداد اور نجف شامل ہیں۔ ان شہروں میں عیسائی تقریباً چالیس فیصد کے قریب ہیں، جو جنگ سے براہ راست متاثر ہوئے۔ آیت اللہ سیستانی نے جن قربانیوں کا تذکرہ کیا اس کا اثر پوپ فرانسس پر کافی رہا۔ کیونکہ انھوں نے جن شہروں میں کرسچن عوام سے خطاب کیا ان کو یہ بتایا کہ عراقی مسلمانوں نے داعش کے خاتمے کے لیے کس قدر قربانیاں دی ہیں۔
پوپ فرانسس کے اس دورہ عراق کے نتیجے میں جو یہودی لابی ہے اس کے بھی اعتدال پسند حلقے پوپ کے اس وزٹ( دورے) کو مثبت خیال کر رہے ہیں، پوپ کے اس دورہ سے بین المذہبی رواداری کا ایک نیا دور چل سکتا ہے۔ اس وزٹ سے اس بات کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ مذاہب کے مابین رواداری رکھنے والی تنظیمیں وجود میں آسکتی ہیں۔ اب تک دنیا میں بین البراعظمی اسلحوں کا دور تو چلتے دیکھا ہے لیکن مذہبی رواداری میں قربت ترلانے والی تنظیمیں اب تک وجود میں نہیں آئیں۔ کاش کہ یہ تنظیمیں وجود میں آجائیں تاکہ انسانی تہذیب کو قتل و غارت سے نجات ملے۔
گزشتہ ماہ مریخ تک جانے کے لیے دوڑ لگی رہی۔ ممکن ہے کہ کوئی سیارہ ایسا بھی مل جائے جہاں انسان نئے علاقائی اصول ترتیب دے اور دنیا میں کیے گئے تمام مظالم کو ترک کرکے رواداری کے نئے اصول بنا کر ایک نئی دنیا کا آغازکریں۔کیونکہ دنیا میں نوآبادیاتی طرز حکومت کی دوڑ نے جو خلفشار پیدا کیا وہی تمام جنگوں کی بنیاد ہے۔ مغربی دنیا نے پوپ فرانسس کے عراق وزٹ کو بڑی اہمیت دی۔اخباری مضامین میں یہی عندیہ دیا گیا کہ پوپ فرانسس اور آیت اللہ سیستانی کے مابین آیندہ ملاقاتیں اور روابط بھی ہوتے رہیں گے۔ جس سے مسلم دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
سائنسی دُنیا تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ وہ روشنی کی رفتار کو کس طرح اپنا اسیر بنا سکتی ہے۔ روشنی کی رفتار پر قدرت پا لینے کے بعد دنیا ایک نئے آفتابی انقلاب سے دوچار ہوجائے گی، امن اور سلامتی انسان کی تقدیر کا پہلا بولتا پہلو ہے خواہ وہ زمین پر ہو یا کسی اور سیارے پر مگر سیارے کے سفر میں  سائنس دانوں کو یہی یقین ہے کہ اگر وہ دوسرے سیاروں کے سفر پر جانے کی تگ و دو کرتے رہے تو ممکن ہے کہ وہ کامیاب ہو جائیں۔ مگر اس کامیابی سے قبل انسان کو انسانی مساوات کا درس پوری طرح سے وجود میں لانا ہوگا۔
دنیا کے جو بھی مذاہب عوام تک پہنچے ان سب میں سلامتی اور رواداری کا درس دیا گیا اور اس درس پر عمل پیرا ہو کر تمام انسان ایک دوسرے کے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن سکتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہر مذہب میں امن کو مرکزی درجہ حاصل ہے اور فساد کو انسانیت کے لیے خطرناک ترین عنصر قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا جو زمین پر فساد برپا کرتے ہیں اور مذاہب کے نام پر ایک دوسرے کے حقوق کو غصب کرتے ہیں ان کو کوئی مذہب اچھا قرار نہیں دیتا۔ لہٰذا  پوپ فرانسس کے وزٹ سے مسلم امہ اور کرسچن ورلڈ کے مابین تلخیاں کم ہوں گی۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ پوپ فرانسس خود عراق کے اس دورے کے بعد مزید اپنی تقریرکو کس قدر عملی شکل دیتے ہیں۔
اگر انھوں نے اُر ؔشہر میں کی گئی تقریر کو عملی شکل دے دی تو پھر مسلم امہ اور عیسائیت میں فاصلے نہ صرف کم ہو سکتے ہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مزید قریب آسکتے ہیں۔ اس لیے ہم کرسچن رائٹر کے خیال کو بڑی حد تک مثبت خیال کرتے ہیں اور پوپ فرانسس کا یہ وزٹ آیندہ آنے والے دنوں میں نئی روشنی کی امید رکھتا ہے۔
**
روزنامہ ایکسپریس، کراچی


Black Lives Matter
عبداللہ بابراعوان
تاریخ اشاعت     2021-03-15
یہ ایک خوش حال گوری فیملی کی کہانی ہے ‘ جس نے گھر سے باہر نکلتے ہوئے پڑوس میں رہنے والی بچی کو جھولے میں پڑے نومولود کا خیال رکھنے کیلئے کہا۔ امریکن جوڑا چند منٹ میں گھر واپس آجانے کے خیال سے باہر نکلا تھا۔ اس دوران بچی نے نومولود کو پالنے سے اُٹھالیا‘ بچہ اس کے ہاتھوں سے پھسل کر سر کے بَل نیچے جا گرا اورفوت ہوگیا۔ یہ واقعہ چونکہ المناک حادثہ تھا‘ کوئی سوچی سمجھی کرمنل واردات نہیں تھی‘ اس لئے بچے کے والدین نے بچی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔

دوسری جانب متعلقہ امریکی ریاست کی میونسپلٹی نے بچی کا نام ایسی فہرست میں شامل کر دیا جسے
Infant Killers
کا رجسٹر کہا جاتا تھا۔ کافی عرصہ گزر گیا اور لوگ اس دردناک کہانی کو بھول گئے۔ اس دوران پڑوس کی بچی بڑی ہو کر یو ایس اے کے فنانشل کیپٹل میں ایک معروف بینک میں جاب کرنے لگ گئی۔ اس واقعے کے کافی سال گزرنے کے بعد کسی
Investigative
رپورٹر نے معصوم بچوں کی ہلاکت والی فہرست حاصل کرلی۔ اس طرح فہرست میں لکھے ہوئے نام شائع ہو کر پبلک ہوگئے۔ تب تک وہ بچی 42 سال کی میچور خاتون اور بینکر بن چکی تھی۔ جب یہ فہرست شائع ہوئی تو کسی دوست نے بینکر خاتون کی توجہ اس کی طرف دلائی؛ چنانچہ لیڈی بینکر نے فوری طور پر ایک وکیل سے رابطہ کیا اور ازالۂ حیثیت ِعرفی یا پرسنل انجری کا لاء سوٹ میونسپلٹی کے خلاف دائر کردیاگیا۔ لاء سوٹ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ خاتون بے قصور تھی اور میونسپلٹی نے اپنی انٹرنل فہرست کو پبلک کر کے اس کی سماجی زندگی برباد کردی ہے۔ مجاز عدالت نے لاء سوٹ میں خاتون کے حق میں ڈگری جاری کردی‘ جس پر امریکن اخباروں نے لکھا کہ اگر وہ خاتون 42 سال تک کسی بینک کی چیف ایگزیکٹیو کے عہدے پر لگی ہوتی تب بھی وہ اتنی رقم نہیں کما سکتی تھی جتنی اسے میونسپلٹی کے خلاف ہرجانے کے طور پر مل گئی ہے۔ یہ ایک طرح کا ریکارڈ تھا‘ امریکن جسٹس سسٹم کی تاریخ میں پاورفُل ادارے کے خلاف عدالت میں ایک نہتی خاتون کے حق میں ایک لینڈ مارک عدالتی فیصلے کی صورت میں۔
ادھر ‘ بڑا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد 2021ء میں 12 مارچ کے دن جار ج فلائیڈ کے مقدمے نے 42 سالہ خاتون کے مقدمے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ریاست
Minnesota
کے سٹی
Minneapolis
میں جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں سٹی آف منیاپولس کے خلاف جارج فلائیڈکی فیملی کے فائل کردہ لاء سوٹ میں ریکارڈ رقم کا ہرجانہ مقتول کی فیملی کو دینے کی سیٹلمنٹ ہوئی۔ امریکی پریس اور یو ایس لائیرز نے اس طرح کے لاء سوٹ میں موجودہ ہرجانے کو سب سے بڑی رقم قرار دیا‘ جو پاکستانی کرنسی میں چار ارب 24 کروڑ 3 لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے۔ اس کی بنیاد نومنٹ کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ کو بنایا گیا جو ایک عام شہری نے ریکارڈ کی تھی‘ جس کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ اس ویڈیو کلپ میں سٹی آف منیاپولس کے ایک پولیس آفیسر‘ جس کا نام ڈیریک چاون ہے‘ نے جارج فلائیڈ کو سڑک پر گرا رکھا ہے اوراُس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا ہوا ہے۔ جس وقت جارج فلائیڈ کے لاء سوٹ میں منیاپولس کے سٹی آفیشلز اور جارج فلائیڈ فیملی کے وکلا 27 ملین یو ایس ڈالرز کے سیٹلمنٹ کا اعلان کر رہے تھے‘ عین اُسی وقت قتل کا ملزم ڈیرک چاون‘ سٹی ہائوس سے آدھے میل سے بھی کم فاصلے پر ایک عدالت کے ٹرائل روم میں بیٹھا ہوا تھا جہاں پراسیکیوٹرز اور اس کے وکلا کی موجودگی میں ٹرائل کیلئے جیوری کے ممبران کا انتخاب کیا جارہا تھا۔ اس موقع پر سٹی آف منیاپولس کے میئر جیکب فرے‘ سول رائٹس لائیر‘ بین کرمپ‘ جو سیاہ فام جارج فلائیڈ کی فیملی کے وکیل تھے‘ دونوں نے تاریخی جملے کہے جس کی طرف بعد میں آتے ہیں۔ پہلے آئیے اس تاریخ ساز مگر المناک ٹرائل اور امریکن جسٹس اینڈ جوڈیشل سسٹم پر ایک نظرڈال لیتے ہیں۔

پہلا پہلو: یہاں آپ کو اپنے ہاں کے کرمنل جسٹس سسٹم اور جوڈیشل سسٹم میں صاف فرق نظر آئے گا۔ آپ اسے اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان میں الیکشن سے پہلے ایک امیدوار کے بیٹے کی ویڈیو کلپ ہر روز ٹی وی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی تھی جس میں والد کے الیکشن میں شریک ووٹروں کے ووٹ ریجیکٹ کر کے اُن کو ضائع کرنے کی ٹیوشن پڑھائی جا رہی ہے۔ یہ الیکشن پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہوا‘ جہاں ٹیوشن پڑھانے والے صاحب کے والد صاحب مخالف امیدوار کے سات ووٹ ریجیکٹ ہونے کی وجہ سے الیکشن جیت گئے‘ لیکن شاہراہ دستور پر واقع پارلیمنٹ کے اسی کمپائونڈ میں اسی ہفتے کے اندر اندر سینیٹ فلور پر عین اُسی طرح سے پورے سات ووٹ ریجیکٹ ہونے کی وجہ سے بیٹے کے پڑھائے ہوئے ٹیوشن کے عین مطابق ابا جی کو شکست ہوگئی۔ آپ چاہیں تواسے نیچرل جسٹس سسٹم کا شاخسانہ کہہ لیں۔

پاکستان میں کرمنل لاء ترمیمی آرڈیننس 1972ء سے پہلے فوجداری جرائم کے ٹرائل میں سیشن جج صاحب کے ساتھ
assessors
بیٹھا کرتے تھے جو ایک طرح سے جیوری کا کردار ادا کرتے تھے۔ تب سیشن ٹرائل سے پہلے دفعہ 30 کے جوڈیشل مجسٹریٹ ساری شہادتیں ریکارڈ کرتے‘ پھر اس بات کا فیصلہ کرتے کہ یہ قتل کا مقدمہ بنتا بھی ہے یا نہیں۔ تب مقدمہ سیشن کے سپرد ہوتا۔ اُس دور میں قتل کے مقدموں کی فوری سماعت کی عدالتیں نہیں تھیں مگر کرمنل جسٹس سسٹم میں فیصلوں کو سالہا سال تک لٹکانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

امریکہ میں برطانیہ کی طرح قتل کے مقدمات متعلقہ ریاست میں باری آنے پر چلائے جاتے ہیں۔ 46 سالہ امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار سابق پولیس آفیسر ڈیرک چاون کا مقدمہ آج سوموار کے دن شروع کیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے سے عدالتی کارروائی میں شرکت کیلئے 16 ارکان کی جیوری سلیکٹ ہو رہی ہے‘ جو ڈیرک چاون کے ساتھ تین دیگر پولیس اہلکاروں کے کورٹ ٹرائل میں بیٹھے گی۔ کیس کی سماعت سے قبل بے نیپن کائونٹی کے جج نے مقامی شہریوں کی بڑی تعداد کو طلب کیا تاکہ ان میں سے اہل اور واردات کے بارے میں زیادہ معلومات رکھنے والے افراد کو چنا جا سکے۔
دوسرا پہلو: ان شہریوں کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے پہلے ہی 16 صفحات پر مشتمل سوال نامہ بھیجا گیا تھا۔ جیوری میں شامل کرنے سے پہلے ان شہریوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ جارج فلائیڈ قتل کیس میں منصفانہ انصاف کی فراہمی کے اہل ہیں یا نہیں؟
تیسرا پہلو: جارج فلائیڈ قتل کیس کی پیروی کرنے والی پراسیکیوشن ٹیم کے ممبرز اور ڈیفنس وکیل‘ دونوں کو اجازت دے دی گئی کہ وہ جج پیٹر کاہل سے کسی بھی جیوری ممبر کو متعصبانہ رائے رکھنے کی بنیا د پر جیوری سے نکالنے کی سفارش کر سکتے ہیں۔ ایک دفعہ جیوری مکمل ہونے کے بعد اصل ٹرائل کا باقاعدہ آغاز 29 مارچ سے ہوگا۔
چوتھاپہلو: شہریوں کو بھیجے گئے سوال نامے میں پوچھا گیا ہے کہ انہوں نے کتنی دفعہ جارج فلائیڈ کی موت والی ویڈیو دیکھی ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ انہوں نے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی؟ تیسرا سوال یہ کہ پولیس کے حق میں نکالے گئے مظاہروں‘ جن میں ’’بلیو لائیوز میٹر‘‘ کے نعرے درج تھے‘ اس پر آپ کے کیا تاثرات اور خیالات ہیں؟ اہم ترین سوال یہ تھا‘ کیا آپ کو یقین ہے کہ ہمارا انصاف کا نظام کام کرتا ہے؟

میئر جیکب اور وکیل بین نے کہا ’’منیاپولس کے سیاہ ترین وقت میں دنیا کی آنکھیں یہاں لگی ہوئی تھیں‘ مگر اب شہر نئی اُمید‘ روشنی اور تبدیلی کی شمع بن گیا ہے۔ امریکہ سمیت تمام گلوبل شہروں کیلئے‘‘۔
**
 روزنامہ دُنیا،کراچی
 
ایک نظریاتی جاسوس
اوریا مقبول جان
اتوار 14 مارچ 2021ء
آٓج کے دور میں کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو محض ایک جاسوس کہنا، اس کی شخصیت اور کام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت طاقت، قوت ، معیشت اور غلبے کی جو بساط بچھی ہوئی ہے اس کے پیچھے عالمی قوتوں کے خفیہ ادارے ہی متحرک ہیں ۔یہ تمام ادارے اپنی ایک آئیڈیالوجی رکھتے ہیں اور ہر ادارے کا سربراہ ایک ’’نظریاتی‘‘ شخص ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک زمانے تک آئی ایس آئی کو یہ اعزاز حاصل تھاکہ وہ ایک مکمل نظریہ رکھتی تھی ،پھر وقت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی میں اب ایک سادہ سی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ نظریہ بنیادی طور پر مشن سٹیٹمنٹ جیسی کارپوریٹ چیزوں سے بالا تر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر کسی ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو’’Chief Spy Master‘‘یعنی جاسوسوں کا نگران یا سب سے بڑا جاسوس کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ لقب بھی اس کی موجودہ دور میں تمام تر ذمہ داریوں اور کردار کا احاطہ نہیں کرتا۔ جس شخص کو میں نے ایک ’’نظریاتی جاسوس‘‘ کہا ہے وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘(R&AW) کا سابق سربراہ وکرم سود(Vikram Sood) ہے۔ اس کی تازہ ترین کتاب ایسی ہے کہ جسے دنیا کے ہر بڑے قومی ادارے، خصوصاً خفیہ اداروں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ کتاب کا نام ہے ’’حتمی منزلِ مقصود‘‘ ۔ خطے میں جنرل حمید گل کے بعد یہ دوسرا متاثر کن ’’جاسوس‘‘ ہے جسے حالات و واقعات، تاریخ ، نظریہ اور جدید و قدیم علوم پر دسترس حاصل ہے۔ کتاب اسقدر مسحورکن ہے کہ آپ اسے پڑھنا شروع کردیں تو اس کا سحر آپ کو آخر تک لے جائے گا اور آپ انہماک سے پڑھتے چلے جائیں گے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘کا یہ سربراہ آپ کو اس لیے بھی مزید حیران کر تا ہے کہ وہ ایک سابق فوجی نہیں ہے ،بلکہ اس کا زندگی بھر فوج سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ وکرم سود بھارت کی سول سروس کی سب سے غیر اہم ’’پوسٹل سروس‘‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ اپنی افتادِ طبع اور میلان کی وجہ سے اس نے 1966ء میں ’’رائ‘‘میں ڈیپوٹیشن حاصل کر لی۔ اس کے بقول وہ ایک ایسی شخصیت سے بہت متاثر ہوا جو انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (IAS)سے بھارتی خفیہ ایجنسی میں آیاتھا۔ یہ شخص بی رامن تھا جو ’’را ‘‘کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ وکرم سود، واحد شخص ہے جس کا نہ فوج میں کسی قسم کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی اس پولیس یا بارڈر سیکورٹی فورس میں کبھی نوکری کی تھی۔ وہ صرف اور صرف اپنی قابلیت کی بنیاد پر را کا چیف بنا۔ پاکستان کے رہنے والوں کے لیے ایک اور بات بھی حیران کن ہو گی کہ وکرم سود نے جس شخص سے را کے چیف کا چارج لیا، وہ شخص سندرا جن بھی کوئی فوجی نہیں تھا بلکہ انڈین پولیس سروس سے تھا۔ وکرم سود را کا واحد سربراہ تھا جسے بھارتی بیوروکریسی میں سیکرٹری کا درجہ بھی دے دیا گیا تھا اور وہ ڈائریکٹر جنرل سیکورٹی بھی تھا۔عمومی طور پر را کا سربراہ سیکرٹری کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس کی کتاب میں لکھے ہوئے حقائق ہمیں اس لیے بھی حیران کن لگیں گے کیونکہ بھارت میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک قومی نظریہ مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے اور ہمارے ہاں نظریے کی موت واقع ہوئی ہے۔ وکرم سود کی یہ کتاب کسی بھی قوم کے لیے ایک نظریے کی ضرورت کے گرد گھومتی ہے۔ وہ کہتا ہے کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے معاشی قوت اور فوجی طاقت کے ساتھ ایک جاندار نظریے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اسے بیانیہ (Narrative)کہتا ہے۔اس کے نزدیک آج کی دنیا میں بیانیہ صرف اور صرف طاقت ور کا ہوتا ہے جسے وہ پوری قوت کے ساتھ دنیا بھر میں نافذ کرتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا ہو توقومیں معاشی قوت یا فوجی طاقت سے نہیں بلکہ بیانیے کی بنیاد پر سرخرو ہوسکتی ہیں۔ کوئی بھی قوم جس کا اپنا کوئی نظریہ یا بیانیہ نہ ہو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور معیشت کے باوجود کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ کتاب جدید عالمی منظر نامے کی ایک ایسی مکمل تصویر ہے، جس میں مصنف نے جدید مغربی تہذیب کے منہ سے نقاب نوچ ڈالا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ ، برطانیہ اور دیگر قوتوں نے اپنے لیے ایک طاقتور میڈیا تخلیق کیا۔ اس کے بعد میڈیا کے ذریعے یہ تصور عام کر دیا کہ جنگِ عظیم دوم میں برطانیہ اور اتحادیوں نے تو ایک پرندے کو بھی گولی نہیں ماری تھی۔ تمام دس کروڑ انسانوں کا قاتل صرف اور صرف ہٹلر تھا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم بھی انسانیت کو مزید ظلم سے بچانے کے لیے پھینکے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی ہندو قوم پرست ہے، تو کیا اسے کرسچن قوم پرست ہونا چاہیے۔ ہمارے بچپن میں بی بی سی کی ڈاکومنٹریاں آتی تھیں جن میں گائے کو دُم گھماتے دکھایا جاتا تھا اور پھر خاص انداز میں تمسخر کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ دیکھو ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ہمیں ایسی قوم بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے جو سانپ کے آگے بین بجانے والی اور ریچھ بندر نچانے والی ہے۔ بیانیہ جیتنے والی قوت تخلیق کرتی ہے۔ اگر ہٹلر جیت جاتا تو آج اس کا بیانیہ پوری دنیا کا بیانیہ ہوتا۔ جنگِ عظیم دوم سے لے کر سویت یونین کے خاتمے تک امریکی اور مغربی طاقتیں سرد جنگ لڑتی رہی ہیں۔ اس دوران یہ انسانی حقوق کانام تک نہیںلیتی تھیں۔ اس وقت تووہ صرف دنیا میں جمہوریت نافذ کرنا چاہتی تھیں۔ کسقدر حیرت انگیز بات ہے کہ سرد جنگ کے دوران دنیا کے 65 ممالک کے ڈکٹیٹر امریکہ کے ساتھ مل کر دنیا میں جمہوریت نافذ کررہے تھے۔ بھارت کے پاس اگر فوج ہے تو ہماری فوج میں مشرقی، مغربی یا جنوبی کمانڈہوتی ہے۔ ہمارے جرنیلوں کی پوسٹنگ ملک کے اندر ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ اپنی فوج کی کمانڈ اپنے ملک کے باہر رکھتا ہے۔ یہ یورپین کمانڈ ہے، یہ انڈو پیسیفک ہے، یہ مڈل ایسٹ ہے، فارایسٹ ہے۔ جیسے ہم اپنے ملک کے مختلف حصوں میں افواج رکھتے ہیں ویسے ہی امریکہ ، برطانیہ، روس، چین، اور فرانس پوری دنیا کے مختلف حصوں میں افواج رکھتے ہیں۔ ہمارے کورکمانڈر اپنے ملک میںہوتے ہیں، ان کے کورکمانڈر دنیا میں پھیلے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ایک بہت بڑا تھنک ٹینک ہے کونسل آف فارن ریلیشنز۔ یہ 1918ء سے قائم ہے اور اس میں امریکہ کے تمام صدور ممبر ہیں۔ اسے ایک قسم کا دوسرا دفتر خارجہ کہتے ہیں۔ یہ امریکہ کا بیانیہ بناتا ہے۔ کہانی گھڑتا ہے اور پھر اس کہانی اور بیانیے کے ذریعے پوری دنیا پر حکومت کرتا ہے۔ صرف ایک ملک عراق میں آزاد اندازے کے مطابق امریکی افواج نے بیس لاکھ انسانوں کا خون بہایا ہے، جبکہ امریکہ کے ادارے جان ہاپکنز کے نزدیک چودہ لاکھ لوگوں کا قتل ہوا۔ کیا دنیا کا کوئی غریب ملک صرف چودہ ہزار لوگ بھی اس طرح قتل کر کے دنیا کے نقشے پر قائم رہ سکتا تھا۔اس کی تکا بوٹی کر دیتے۔ جس ملک نے بھی قتل کرنے ہیں،تواسے بڑی طاقتوں کی مرضی سے کرنا ہوں گے۔
وکرم کہتا ہے یاد رکھو! دنیا میں جمہوریت صرف اپنے ملک کے اندر ہوتی ہے اور وہ بھی جتنی اس کی ضرورت ہو،ملک سے باہر تو اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty)ہوتا ہے، غلبہ ہوتا ہے۔ آپ معاشی قوت بن جائیں، فوجی طاقت حاصل کر لیں، آپ پھر بھی غلام رہیں گے، ذہنی طور پر خود کو پسماندہ ہی تصور کرتے رہیںگے ۔ جب تک آپ اپنے لیے کوئی کہانی نہیں گھڑتے، کوئی بیانیہ نہیں بناتے، آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ، فرانس، روس سب کے ہاتھ انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔سب کا ماضی ظالموں کا ماضی ہے، سب نے کئی کئی کروڑ  افرادمارے ہیں۔ ہر ایک کے ماضی میں کوئی نہ کوئی ریڈ انڈین موجود ہے اور کوئی ایک نو آبادیاتی کالونی بھی۔لیکن انہوں نے دنیا کے سامنے خود کو ایسے پیش کر رکھا ہے، جیسے ان کا دامن بہت صاف ہے اور یہ صرف انصاف، امن اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ ان کا بیانیہ اس لیے بھی کامیاب ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس بیانیہ ہوتا ہے۔ ہم اس لیے ناکام ہیں کہ ہمارا اپنا کوئی بیانیہ نہیں ہوتا، ہم ان کے بیانیے پر چلتے ہیںاور ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔
**
روزنامہ 92کراچی
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here