’’عوام اپنی حالت بدلنا ہی نہیں چاہتے ،انھیں غلام بنے رہنے کی عادت سی ہو چکی ہے ‘‘

0
110

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 


 

قیصر محمود عراقی
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست کی بنیادکرپشن ہے اور سیاست دانوں کا کام ہی سیاست کر نا ہے ، سیاسی لوگ سیاست کو عبادت نہیں بلکہ کاروبار سمجھ کر کرتے ہیں ۔ سیاست داں سیاست میں آنے سے پہلے کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو ایک دفعہ جب اُسے اقتدار کی کر سی مل جا تی ہے تو پھر اُس کے بینک بیلنس میں ایسے اضافہ ہو تا ہے جیسے اس نے کبھی غربت دیکھی ہی نہیں تھی یا سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوا ہو۔ جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ غریب کا بچہ غریب ہی مر جا تا ہے ، حق حلال سے جینے والے کی معاشرے میں بھی کوئی عزت نہیں ،جس کے پاس جتنے زیادہ پیسے ہیں اس کی اتنی ہی زیادہ عزت ہے ، چاہے اس نے دس بیس قتل ہی کیوں نہ کیئے ہو ں ۔ اللہ معاف کرے ! ہر طرف دو نمبری کا بازار گرم ہے ، کسی بھی ادارے ، محکمے میں چلے جائیں قصاب کھال اُتارنے کے لئے تیار بیٹھے ہو تے ہیں ۔ سیاست دانوں نے تو آزادی کے بعد سے اب تک عوام کو کچھ نہیں دیا، جس وجہہ کر ہندوستانی عوام خوشحال نہیں ہیں اور کبھی خوش حال ہو بھی نہیں پائینگے، کیونکہ اس کی بنیادی وجوہات کچھ یو ں ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اپنے سے نیچے والے کو حقیر اور خود کو( نعوذ باللہ) خدا سمجھتا ہے اور ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کر نے کا خواہشمند ہو تا ہے ۔ آج ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق کرپشن کر نے میں مصروف ہے چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہو ، بچا صرف وہی ہے جس کو موقع نہیں ملا ۔ کرپشن ، لوٹ ، مار ، تھانہ کچری سے عوام کو کچھ لینا دینا نہیں یہ سیاست دانوں کا کام ہے اور وہ اپنے مفادات کے لئے یہ سب کر تے ہیں ۔ غریب عوام کو تو گذر بسر کے لئے دو وقت کی روٹی اور سر چھپا نے کے لئے چھت کی ضرورت ہو تی ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام کے لئے تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ملنا خواب بن چکا ہے ، میرے خیال سے عوام کے موجودہ حالات کے ذمہ دار وہ خود ہیں ۔ شاید عوام اپنی حالت بدلنا ہی نہیں چاہتے یا پھر غلام بنے رہنے کی عادت سی ہو چکی ہے ۔ جبکہ پرندے اپنی مدد آپ کے تحت تنکا تنکا چن کر اپنا آشیانہ بناتے اور خود اپنے رزق کی فراہمی کا بندوبست کر تے ہیں ۔ جنگلی جانور، درندے اور کیڑے مکوڑے حتیٰ کی چیونٹی جیسی حقیر شئے بھی قوت لا یموت کے لئے شب وروز سر گرداں رہتی ہے ، جبکہ انسان کے لئے تو اپنی حالت آپ بدلنے کا جذبہ کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اس کی ساری تگ و دو ، جدوجہد اور ساری کو ششوں کا محرک یہی جذبہ ہو تا ہے ۔ سعی و عمل سے دستبر دار ہو کر دوسروں پر بوجھ بننا انسانی خود داری اور غیر وقار کے منافی ہے ۔ بالخصوص ایک مسلمان کے لئے اپنی مدد آ پ کا طرز عمل اس کے ایمان کا منطقی او ر لازمی تقاضا ہے ۔ ایک مومن کی پوری زندگی جہاد ہے ۔ رسول پاک ﷺ نے اپنے ہاتھ کی کمائی کو بہترین کمائی قرار دیا ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ! اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی شخص نے کبھی نہیں کھا یا ۔ اپنی مدد آپ کا اصول فرد کے لئے جس قدر ضروری ہے ، معاشرے یا قوم کے لئے اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ کوئی قوم جب تک اپنی حالت کو بدلنے کا عزم نہ کر لے اس میں زندگی کا جوش او ر ولولہ پیدا نہیں ہو سکتا اور کار زار حیات میں اس کے بغیر کا میابی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ جو قوم اپنی حالت میں انقلاب لانے کا عزم تازہ کرے گی اسے اس کے بے شمار فوائدحاصل ہو نگے ۔ اس کے افراد میں محنت ، لگن، مستقل مزاجی ، فرض شناسی ، صبر، مستعدی، وقت کی پابندی اور اعتدال کی صفات پیدا ہو نگی ، جو زندگی کی کشمکش میں کامیابی کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ ترقی یا فتہ اقوام کی تاریخ شاہد ہے کہ شد ید محنت اور قلبی لگن کے بغیر زندگی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی جا سکتی ۔ پرانے زمانے کے مسلمانوں کی سر بلندی کا رازیہ تھا کہ انھوں نے زندگی کی ہر مشکل ، ہر پریشانی اور ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے بر داشت کیا ۔ انھوں نے اپنے مقصد زندگی کی خاطر نہ تو صحرائوں کی ہو لنا کیوں کی پروا اور نہ دشت و دریا کے خطرات سے خوف زدہ ہو ئے ۔ مغلوں نے سو سال ہندوستان پر بڑی شان و شوکت کے سات حکومت کی ، اس کا راز مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرا لدین بابر کی مشقت بھری زندگی میں پو شیدہ ہے ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بے لاگ اصول ہے کہ اگر کوئی قوم محنت کر ے اور ہا تھ پائو ں سے کام لینے کی بجا ئے اپنی حالت پر قانع ہو کر بیٹھ رہے اور زندگی کو بہتر بنا نے کا خیال اس کے دل میں پیدا نہ ہو یا وہ قوت بازو پر بھروسہ کر نے اور اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں سے کام لینے کے بجائے دوسروں کی امداد کا محتاج بن کررہے تو وہ تائید و نصرت الہی سے بھی محروم ہو جا تی ہے ، اگر کوئی قوم خدا کے بھروسے پر اپنی مدد آپ کے اصول کو اپنالے تو تائید ایزدی بھی اس کے شامل حال ہو تی ہے ، زوال پزیر قوموں کا المیہ یہی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی دست نگر رہتی ہے ۔ دور حاضر کے اکثر لوگ بڑی طاقتوں کے طفیلی اور کاسہ لیس بنے ہو ئے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان کے سامنے دست سوال دراز کر نے اور اپنی معیشت کو ان کی امداد کے بل بوتے پر چلاتے ہیں ۔ اور بڑی طاقتیں انھیں اپنے قرضوں کے جال میں اُلجھا کر وہاں اپنے ماہرین بھیجتی ہیں ، اپنے تہذیبی اثرات پھیلا تی اور اپنی ثقافت کا پرچار کر تی ہیں ، رفتہ رفتہ اس قوم کی روایات اور اس کے مذہبی رشتے کمزور ہو جا تے ہیں ،اس کے ذہنی قومی جمود ،بے حسی اور تعطل کا شکار ہو جا تے ہیں اور وہ بڑی طاقت کے گھڑے کی مچھلی بن کر ہمیشہ کے لئے اس کی غلام بن جا تی ہے ، صرف وہی اقوام اپنے آپ کو بچا سکتی ہیںجنہوں نے خود اعتمادی سے کام لیتے ہو ئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اور روکھی سکھی کھا کر محنت کی۔
کریگ اسٹریٹ، کمرہٹی،کولکاتا،۵۸
Mob : 8820551001

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here