اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی
فلسطین اور اسرئیل کے تنازع کو لیکر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا 16 مئی کا اجلاس جیسا کہ توقع تھی ایک بار پھر بے نتیجہ ثابت ہوا ہے ۔ ایسا اس مسئلے کو لیکر اس سے قبل منظور کی گئی تمام قراردادوں اور ان پر امریکہ کے ویٹو کے رکارڈ کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر کہا جاسکتا تھا۔ اس بار کی لڑائی مسجد اقصیٰ میں اسرائلی سیکیورٹی ایجنسیوں کی پر تشدد کاروائیوں کا نتیجہ ہے جسے اسرائیل حماس کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ مسجدِ اقصیٰ کے واقعے میں کئی افراد ہلاک اور معتدد ذخمی ہوئے۔ اس کے جواب میں حماس نے راکٹ فائر کئے کچھ معمولی سے نقصان کے بدلے ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، اسرائیل کی غازہ پر وحشیانہ بمباری جاری ہے ۔ ڈھائی سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ساٹھ سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں بے شمار کثیر منزلہ عمارتیں اور مکانات زمیں بوس ہو چکے ہیں برج الجلاء ٹاور جس میں الجزیرہ ایسوسی ،ایٹد پریس اور دوسرے میڈیا ہائوس کے دفاتر تھے زمیں بوس کر دیا گیا۔ پانی اور بجلی کا نظام تحس نہس ہو چکا ہے۔ اسکولوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا اجلاس 14 مئی کو متوقع تھا لیکن امریکہ کی ایما پر اس کو ٹال دیا گیا۔اس دوران 57 اسلامی ملکوں کی نمائندہ تنظیم OIC کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس سعودی عرب کی درخواست پر طلب کیا گیا جس میں اسرائیلی حملوں اور فلسطین کی موجودہ صورتِ حال پر غور کیا گیا ہمیشہ کی طرح OIC کا کردار Oh, I see تک محدود رہا ۔ تقریریں کی گئیں اور گزشتہ کئی موقعوں کی طرح فلسطین کے حق میں اور اسرائلی مظالم کے خلاف قرار داد منظور کی گئی ۔ قرار داد میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بند کرنے کے لئے کہا گیا اور مقامات مقدسہ کی تاریخی حیثیت کو بحال رکھنے کو کہا گیا ۔ قرار داد میں اقتصادی بائیکاٹ یا کسی اور اقدام کے لئے خاموشی اختیار کی گئی۔ اجلاس نشستن، گفتن ،برخواستن تک محدود رہا ،ظاہر ہے ایسی کسی قرارداد کا اسرائیل پر کیا اثر پڑ سکتا ہے ، لہٰذا بمباری بدستور جاری ہے۔ اور اب زمینی حملوں کی تیاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کا واحد مقصدیہودی ریاست اسرئیل کا قیام ہی تھا۔ ورنہ آج تک کسی بڑے تنازعے کو حل کرنے میں کوئی کامیابی نہیں ملی ،قابض طاقتوں نے قبضے کے خلاف چلنے والی تحریکوں کو دہشت گردی قرار دے کر تحریکوں کو کچلنے اور ظلم ڈھانے کا جواز بھی حاصل کر لیا۔ اور اقوام متحدہ کچھ نہ کر سکا۔ وہی اسرائیل جس کے قیام کا وعدہ برطانوی حکمراں یہودیوں سے 1917 میں ہی کر چکے تھے ۔ پہلی جنگ کے خاتمے کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا اور فلسطین کا علاقہ بر طانوی قبضے میں تھا۔ فلسطین میں یہودیوں نے زمینیں خریدنی شر وع کر دی تھیں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے سلسلہ شروع ہوا۔ جو دو سری جنگِ عظیم تک چلتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے خوف سے بڑے پیمانے پر یہودی پناہ گزین فلسطین میں داخل ہو گئے۔اب تک فلسطین میں یہودی کافی بڑی تعداد میں آباد ہو گئے تھے۔ ا گر چہ فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر بر طانوی حکومت کاربند تھی۔ لیکن فلسطینی اس پر راضی نہ تھے۔ برطانوی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا او ر فلسطینیوں کا قتل عام شروع ہو گیا جس کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل میں اب تک فلسطین اور اسرائیل کو لیکر سیکڑوں قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں۔ ایسی ہر قرارداد جس میں اسرائیل کو مقبوضہ علاقے خالی کرنے کی ہدایت دی گئی ہویا جس میں اسرائیل کی انسانیت سوز حرکتوں کی مزمت کی گئی ہو ان کو امریکہ ویٹو کرتا رہا اور اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ نومبر1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ۔ ایک قرارداد منظور کی گئی اس کے مطابق فلسطین کو تقسیم کرتے ہوئے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔یروشلم کے علاقے کو اسپیشل انٹرنیشنل زون قرار دیا گیا۔عربوں نے اس تقسیم کو مسترد کر دیا۔14 مئی 1948 کو برطانوی فوج کے انخلاء کے بعد اسرائیل نے آذادی کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں عربوں اور اسرائیل میں جنگ شروع ہو گئی۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینی پڑی۔11 مئی 1949 کو اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل ہو گئی۔22نومبر 1967 کو سلامتی کونسل میں وہ قرارداد منظور کی گئی جس کے تحت اسرائیل کو ان مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کو کہا گیا تھا جن پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اس قرار داد پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔25 ستمبر 1971 کو سلامتی کونسل نے اسرائیل کے یوروشلم کے اسپیشل انٹرنیشنل زون کی حیثیت تبدیل کرنے پر بجائے کسی تادیبی کاروائی کے صرف مذمت پر اکتفاء کیا۔13نومبر 1974 کو یاسر عرفات کی قیادت میں پی ایل او کو اقوام مٹحدہ میں ایک مبصر کی حیثیت حاصل ہوئی۔12 مارچ 2002 کو سلامتی کونسل کی ایک قرارداد میں پہلی مرتبہ فلسطینی ریاست کا ذکر کیا گیا۔19 نومبر 2003 کو سلامتی کونسل میں امن منصوبے کے تنا ظر میں دو ریاستی حل کی توثیق کی گئی۔ پانچ سال کے وقفے کے بعد 16 دسمبر 2008 کو مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لئے پیش کی گئی قرار داد کو منظور کیا گیا۔ ا گرچہ امریکہ اسرائیل کی مخالفت میں اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی ہر قرارداد کو ویٹو کرتا آیا تھا لیکن 18 فروری2011 کو پیش کی گئی اس قرارداد کی جس میں مقبوضہ علاقوں میں اسرئیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا امریکہ نے حمایت کی۔اس مسلے کا دو ریاستی حل ہی ممکن ہے جس میں اسرائلی ریاست کے ساتھ ساتھ ایک آذاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے امریکہ کے پچھلے صدر ڈونالڈ ٹر مپ نے مسلہ حل کرنے میں مدد کرنے کے بجائے یوروشلم کو اسرائیل کی راج دھانی تسلیم کر کے حالات مزید پیچیدہ بنا دئے۔موجودہ بحران میں بھی امریکہ کے نئے صدر نے اسرئیل کی حکومت کی حمایت میں بیان دے کر کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے اسرائلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے نہ صرف حوصلے بلند کئے بلکہ ان کو مزید حملوں کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ سوال کیا جانا چاہئے کہ فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا کیوں نہیں ہے۔ ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے فریقوں سے صبر تحمل کی اپیل کی ہے۔ بالکل واضح ہے بڑی طاقتوں کے ویٹو کے اختیارنے اقوام متحدہ کے اختیار محدود کر دئے ہیںاس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے فنڈ بند کر دئے جانے کی دھمکی بھی دی جاتی رہی ہے ۔ مسئلہ حل نہ ہونے کی اصل وجہ اقوام متحدہ کی یہی بیچارگی ہے۔
Mb.9450191754
مسئلہِ فلسطین اوراقوام متحدہ کی’ بے چارگی‘-Palestine issue and UN’s ‘helplessness’
Also read