پاکستان کے لاچار محاجر بنام خوشحال ہندوستانی مسلمان- Pakistan’s helpless immigrants as prosperous Indian Muslims

0
146

مکرمی!
سنہ 1947 ء میں زبردست خون خرابہ کے بعد جب بھارت سے پاکستان الگ ہوا تو سندھیوں نے اپنی خودمختاری کی حفاظت کی اُمید میں مذہبی بنیاد پر بنے پاکستان کو منتخب کیا، جبکہ بھارت کے بڑی تعداد میں اُردو بولنے والے مسلمانوں نے سندھ صوبہ میں آباد ہونے کی توجہ دی۔ بھارت چلے جانے والے ہندوئوں کے ذریعہ چھوڑی گئی جائیداد بھارت سے گئے مسلمانوں کو دے دی گئی، جنہیں عام طور پر مہاجر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مہاجر لفظ کا استعمال پاکستان حکومت نے بھارت سے آئے سبھی مسلمانوں کی پہچان کیلئے کیا تھا۔ تبھی سے پاکستان میں مہاجر مسلسل تفریق و تعصب کا سامنا کررہے ہیں۔
سنہ 1984 ء میں اپنی سیاسی وجود اور اختیارات کے دعوے کیلئے مہاجروں نے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر الطاف حسین کی پیشوائی میں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (ایم کیو ایم) قائم کی جس نے سنہ 1987 ء سے ہونے والے ہر الیکشن میں شہری سندھ علاقے میں بڑی جیت درج کی۔ مہاجروں نے جون 1992 ء میں پاکستانی فوج، پولیس کے زوال کا سامنا کیا، جس میں ناجائز طریقے سے قتل عام کے ذریعے ہزاروں مہاجروں کو اذیتیں دی گئیں۔ پاکستان میں سندھی اور مہاجر آج بھی ڈرے و سہمے ہوئے ہیں اور دونوں طبقے نسلی تفریق، استحصال اور دوئم درجہ کے شہری ہونے کے درد کے شکار ہیں۔
بٹوارے کے 73 سال بعد بھی مہاجر مسلمانوں کے لئے یہ سمجھ پانا مشکل ہے کہ اسلام کی بنیاد پر قائم پاکستان ملک کو انتخاب کرنے کا فیصلہ ٹھیک تھا یا بھارت جیسے کثیر المذاہب ملک کو ٹھکرانا ان کی خطرناک بھول تھی۔ حالانکہ بھارت میں مسلمان اقلیتی ہیں پھر بھی وہ یہاں پر ان سبھی فائدوں کو لے رہے ہیں جو دیگر لوگوں کو مل رہا ہے۔ بھارتیہ مسلمانوں کو یہاں کا نظام قانون اور ریت رواجوں میں یقین رکھنا چاہئے اور حکومت کے ذریعہ سبھی طبقوں کی بہتری کیلئے کئے جانے والی کوششوں اور فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے۔
ابواشرف ذیشان،
صدر ایم ایس او، اترپردیش

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here