مسلمانوں پر استحصالی قوانین کا جابرانہ کھیل

0
156

سبطین محشر مصباحی ۔البرکات
وطنِ عزیز بھارت مختلف تہذیبوںکا امین اور مختلف نظریات کا گہوارہ ہے ملک کا آئین انسانی نفوس کا پاسدار مذہبی آزادی کا علم بردار اور مساوات کا گہربار ہے جو رہنے والے تمام لوگوں کے طبقات کے تحفظ کی یکساں طور پر ضمانت فراہم کرتا ہے جس کی بنیادی خصوصیت ہی یہی ہے کہ آئین میں عوام الناس کو بالادستی حاصل ہے کسی اکثریت والے طبقے کو نہیں تمام افراد باعتبارِ انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں کسی قسم کی اونچ نیچ،چھو چھات اور ادنی اعلی کی کوئی تفریق نہیں بلکہ تمام باشندے بلا تفریقِ مذہب و ملت گنگا جمنا تہذیب کی طرح ایک مشترکہ جمہوریت کا اٹوٹ حصہ ہے۔مگر بھارت کا بدلتا ہوا منظرنامہ اور قومی مفاد کہیں نہ کہیں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کسی خاص مذہب کے اعمال و عقائد اور معمولات کو ملک کے استحکام و یک جہتی کے نام پر جبرا مسلط کیا جارہاہے جس کی وجہ سے اکثریت کی بالادستی نے اقلیتی طبقات کا جینا دو بھر کردیا ہے اور ابھی حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں اقلیتوں کی جان و مال عزت و آبروکا تحفظ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔حقیقی تصویر بھی یہی ہے کہ بنیادی حقوق کی پامالی ہورہی ہے مذہبی آزادی سلب کرنے کی کوشش ہورہی ہے ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت نے اقلیتوں پر استحصالی قوانین و پالیسی کاجابرانہ کھیل کھیلنے کی قسم کھا رکھی ہے مسلم اقلیت پر ظلم طغیان کی جو بارشیں ہورہی ہے وہ محتاجِ بیاں نہیں۔لسانی،سیاسی،سماجی،عدالتی،اور دستوری غرض کہ ہر محاذ پرمسلماناں کا عرصے حیات تنگ کرنے پر ہوئے ہیں اور جب مسلمانوں نے بنیادی حقوق کی حق تلفی میں آواز اٹھائی یا تو ان کی آواز صد بصحراثابت ہوئی یا ان پر فرقہ واریت کا لیبل لگاکر خاموش کردیاگیا اب موجودہ حکومت ملک میں کس طرح قانون نافذ کرنا چاہتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔ موجودہ سرکار کی متعصبانہ قوانین و پالیسی مسلم ا قلیت پر کسی دستِ ظلم سے کم نہیں جو دورخی و بے روخی سے نافذ کررہی ہے جس کے پاداش میںخود مختار ادارے و غیر مختار ادرے بھی مسلمانوں کے خلاف متعصب ہوگئے،جیسے پولس کا مسلم اقلیت کو تحفظ دینے کے بجاے انتہاپسندوں کا ساتھ دینا،عدلیہ کا اتنی جرأت نہیں ہونا کہ انتہاپسندوں کے ظلم و ستم کے خلاف دائر مقدمات کا آزادی سے فیصلہ کرسکے، مسلم اکثریت والی ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اور وہاں خاص فرقہ کی آبادکاری کو فروغ دینا وغیریہ سب کسی منظم سازشی استحصال اور جابرانہ کھیل کی طرف اشارہ ہے جن میں سرِ فہرست شہریوں کا نیشنل رجسٹر ی یعنی این آر سی ہے ۔موجودہ سرکار جس کو پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہے جس کی مثال آسام ہے جہاں ۱نیس لاکھ باشندوں کو شہریت کی فہرست سے باہر کیاگیا ہے جس میں حکومت کا مذموم مقصد یہ تھا کہ این آرسی کے عمل سے لاکھوں مسلمان غیر ملکیوں کی فہرست میں آجائیںگے لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا جس میں الٹا ہندو اکثریت ہی غیر ملکی باشندوں کی فہرست میں آگئے ،اس کے بعد مسلمانوں پر ستم بالاے ستم کا جابرانہ کھیل دیکھیے پھر موجودہ حکومت نے شہریت کے متنازع قانون کو یعنی سی اے اے کو پاس کیا جس کے تحت بنگلہ دیش ،پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو،بودھ،جین،سکھ،عیسائی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کو شہریت حاصل تو ہوگی مگر اس میں مسلمان کواس مین شامل نہیں کیا گیا اس قانون کو لانے کا مقصد سمجھیں تو پتا چلے گا کہ اس کے ذریعے بنگال میں بنگلہ دیش سے آکر بسے ہوئے مسلمانوں کو نکالنا ہے اور بنگالی ہندووں کا ووٹ حاصل کرنا ہے نیز یہ آئینِ ہند کے منافی بھی ہے دستورِ ہند کے دفعہ ۱۴ میں ہے کہ مملکت کسی شخص کو ملک کے اندر قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کریں گی اور مملکت محض مذہب،نسل،ذات،اور جنس میں سے کسی کی بناپر کسی طرھ کا کوئی امتیاز نہیں برتے گی مگر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا اور ایک خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنایاگیا۔ مسلم اکثریت والی ریاست کشمیر کی خصوصی درجہ کا خاتمہ بھی جبر پر ہوا کہ اولا کشمیریوں پر ناکہ بندی کی گئی پھر ریاست کی مقامی اسمبلیوں سے ریاست کے درجہ کی کمی بیشی پر آمادگی کو ملحوظ نہ رکھا گیا اور پھر کشمیر کا ڈھانچہ الٹ پلٹ کردیاگیا جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا اگر کسی بھی ریاست کے درجہ کو کم و زیادہ کرنا ہے تو سب سے پہلے ریاست کی مقامی اسمبلیوں کی آمادگی لی جاتی یا پھر وہاں کے لوگوں کے ریاست سے متعلق مطالبہ کو دیکھا جاتا جیسا کہ جھارکھنڈ کو بہار سے،اترا کھنڈ کو اترپردیش سے،تیلنگانہ کو آندھرا پردیش سے علاحدہ کرکے ریاست کا درجہ دیا گیا تھا کہ وہاں کی مقامی اسمبلیوں کی آمادگی سے کی گئیں اور ان تبدیلیوں کے لیے عرصے سے وہاں کے لوگ مطالبہ کررہے تھے مگر ایسا کشمیر میں کچھ نہیں ہوا۔صرف اس بات کو دلیل بناکر وہاں کی مسلم اکثریت کا سیاسی استحصال کر کے بے دست و پاں کیاگیا کہ کشمیر کو نئے سیاست کی ضرورت ہے تاکہ دوخانداں کی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ ہو اس کے بعد نیا کشمیر ابھرے گا جن سے اشارہ عبد اللہ اور مفتی خاندان ہے اور جبرا کشمیر کا درجہ کم کرکے اسے مرکزی انتظام والا علاقہ قرار دیاگیا مگر کشمیر کی موجودہ صورتِ حال تو یہ ہے کہ وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم ہے وہاں کے سرکردہ رہنماوں کو حراست مین لیا گیا احتجاج کرنے والے کشمیری نوجوانوں جیلوں میں بند کیا گیا اور سیکولرزام کی آڑ میں مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرکے انھیں بے دست و پاں کیا گیا ،ا س کے بعد بات آتی ہے لوجہاد کی، ان دنوں لوجہاد نامی ایک افسانوی اصطلاح موضوعِ سخن ہے جو محض ایک پروپگنڈا ہے جس کہ تشہیر بنیادی طور پر کسی خاص مذہب کے لوگوں کو ٹارگیٹ کرنا ہے اور اس مذہب کے ماننے والے افراد کی سماجی جیثیت کو مجروح کرکے معدوم کرنا یے جس کی آڑ میں مسلمانوں کا استحصال مقصود ہے کہ اس کے ذریعے مسلمانوں جیلوں میں بند کیا جائے مگر یوپی حکومت نے اس گڑھی ہوئی اصطلاح کو حقیقی تصویر دے کر اس کے خلاف قانون بنا دیا اب یہ بات کہاں تک درست ہے کہ ایک گڑھی ہوئی بات کو سچ مان کر اس پر قانون بنایا جائے؟الغرض ان تمام باتوں کی تناظر میں یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وطن عزیز میں مسلم اقلیت اکثریت کی بالا دستی اور اس کے ظلم سے محفوظ نہیں، حکومت اور ریاست کا قوانین تشکیل دینے میں مسلمانوں کے ساتھ دو رخی و بے رخی کسی منظم تخریبی منصوبہ کی طرف اشارہ ہے جس کو تسلسل کے ساتھ مسلمانوں پر تھوپہ جاریا ہے لہذا آج کی حالات اس بات کی متقاضی ہے کہ بنیانِ مرصوص پر قائم ایک مضبوط قوم کا ثبوت پیش کریں خوف کے دائرہ کو توڑ کر خود ارادی و خود اعتمادی کا مظاہرہ پیش کریں تاکہ غیر جانب دارانہ عادلانہ قوانین کا نفاذ ہو جس کے لیے انتھک محنت اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہے ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here