دبستانِ اہل قلم، لکھنؤ، ایک ایسی تنظیم ھے جس نے نئے اور پرانے لکھنے والوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کر دیا ھے، عامر قدوائی کویت
لکھنؤ پریس ریلیز
فیسبک گروپ دبستانِ اہلِ قلم لکھنؤ، پر ایک طرحی عالمی مشاعرہ “بعنوان ،، عشرۂ مشاعرہ ( مرزا اسداللہ خان غالب) کے مصرعۂ طرح ،، آتا ہے ابھی دیکھئے کیا کیا مرے آگے ،، پر منعقد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر عامر قدوائی،کویت، نے کی اور نظامت کے فرائض عاشق اُنَّاوی نے بحسن و خوبی انجام دئے، صدر مشاعرہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ دبستانِ اہل قلم، لکھنؤ، ایک ایسی تنظیم ھے جس نے نئے اور پرانے لکھنے والوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کر دیا ھے تا کہ پرانے شعراء کے زیر سایہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تربیت ھوتی رھے. دبستان اہل قلم، کے زیرِ اہتمام آئے دن پروگرام ھوتے رہتے ہیں جہاں لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملتا رہتا ھے اور اس بہانے اردو کی آبیاری بھی ھوتی رہتی ھے.
اس بزم کے روحِ رواں معید رہبر اور صدر ڈاکٹر مخمور کاکوروی ہیں جو گا ھے بہ گاھے ناچیز کو مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں.آج کے مشاعرے میں غالب کا مصرع ،،آتا ھے ابھی دیکھئے کیا کیا مرے آگے،، دیا گیا تھا،
جس پر شعراء نے خوب طبع آزمائی کی اور بہت اچھے اچھے اشعار سے نوازا. بہت سے نئے لکھنے والوں نے بھی خوب شعر کہے،اور بعض ایسے بھی رہے جو جلد بازی میں ناموزوں تک کہہ گئے، لیکن جو سینیر شعراء ہیں انھوں نے ان کی اصلاح فرمائ اور نئے لکھنے والوں نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
ایسے پروگراموں کے لیے دبستان اور ان کے کارکنان لائق تحسین ہیں. میں انھیں دلی مبارکباد پیش کرتا ھوں اور دعا کرتا ھوں کہ یہ سلسلہ ھمیشہ جاری رھے. آمین
مشاعرہ کے پسندیدہ اشعار نذر قارئین ہیں،
ظلمت میں پڑھوں جب بھی درودِ شہِ کونین
ہوتا چلا جاتا ہے اجالا مرے آگے
عامر قدوائی
منت کشِ درماں نہ ہوا درد محبت
انگشت بدنداں ہے مسیحا مرے آگے
ڈاکٹر مخمور کاکوروی
جب عرشِ معلیٰ پہ مرے نقشِ قدم ہیں
کیا چیز ہے پھر اوجِ ثُریّا مرے آگے
معید رہبر لکھنؤ
اللّٰہ نے بخشا ہے عروج اتنا مجھے اب
کرتا ہے جبیں خم یہ زمانہ مرے آگے
عاشق اُنَّاوی
ٹوٹا نہ مگر نشّۂ صہبائے الستی
ہر چند رہے ساگر و مینا مرے آگے
عاصی بیاروی
کیا خاک ملے گا مجھے منزل کا پتہ اب
آتا ہے سمندر کبھی دریا مرے آگے
اعجاز قریشی لاہور
آیا یہ بڑی جیت کا تحفہ مرے آگے
پہنچا نہ مجھے کھینچنے والا مرے آگے
فیاض حسین لکھنؤ
مانا کہ مرے قد کے برابر ہوا لیکن
اے بیٹے تو بچہ ہی رہے گا مرے آگے
سراج الدین سیف
فردوس حرم چھوڑ کے آیا ہوں میں پیچھے
ہے جلوہ فگن جنتِ طیبہ میرے آگے
عرفان بارہ بنکوی
رفتار تو کم اس کی رہی مجھ سے سفر بھر
حیرت ہے کہ منزل پہ وہ پہنچا مرے آگے
شاذ جہانی
اک روز کہا تھا کسی درویش نے مجھ سے
دنیا ہے فقط کھیل و تماشا مرے آگے
سلیم تابش
جس شخص کے کاندھے پہ انا جھول رہی ہو
وہ شخص لگے ہے مجھے بونا مرے آگے
احسن لکھنوی
شاید کہ مرے دل کی جلا سے نہیں واقف
کرتے ہیں وہ جو حسن کا چرچا مرے آگے
امان اللہ خالد
میں وارث مجنوں ہوں اسے خوب پتہ ہے
آتا ہی نہیں اس لئے خطرہ میرے آگے
چاند ککرالوی
حاوی نہ ہوئ تشنہ لبی میری حوس پر
قدموں میں مچلتا رہا دریا مرے آگے
عطاء اللہ انصاری
رشتہ جو یہاں صرف ہو دولت کی ہوس میں
اچھا نہیں بیٹوں کا وہ رشتہ مرے آگے
صوفی بستوی
ماضی کا تصور بھی جب آتا مرے آگے
بہتا ہے وہی موت کا دریا مرے آگے
ارشد طالب
مت چھیڑئے سوغات کی پڑیا مرے آگے
لبریز ہے جزبات کا دریا مرے آگے
تجمل حسین بلرام پوری
جتنا بھی ادا شکر کروں رب کا وہ کم ہے
باندھے ہے کھڑی ہاتھ یہ دنیا مرے آگے
تعظیم احمد محمدوی
احساس کی چادر میں لپیٹے ہوئے غم کو
آتا ہے نظر اشک کا دریا مرے آگے
سعیدہ جعفری
کانٹے جو ہمیشہ رہے بوتے مرے آگے
بن کر وہی آئے ہیں مسیحا مرے آگے
نوشاد خان
ہو جائے نہ برپا کہیں اک اور قیامت
کیوں نام لیا کرتے ہو اسکا مرے آگے
مجاہد لالٹین الہ آبادی
تو ظالم و جابر ہے ستم گر ہے سراسر
ہوتا ہے ترے ظلم کا چرچا مرے آگے
ساحل سردھنوی
لے جائگی اے وحشتِ دل مجھ کو کہاں تو
گلشن مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
عبدالسلام فریدی میرٹھ
آسان نہیں میر کی غالب کی زمینیں
میں قطرہ ہوں وہ لوگ تھے دریا مرے آگے
نفیس سیتا پوری
سج دھج کے رہے لاکھ یہ دنیا مرے آگے
مومن ہوں بہرحال ہے عقبیٰ مرے آگے
ملک نوید بھوپالی
وہ شعلہ بیانی میں بڑا طاق ہے لیکن
انداز بیاں پڑ گیا پھیکا مرے آگے
انوار الحق شاداں پھلاؤدوی
نفرت ہے مری ذات سے اس شخص کو لیکن
کرتاہے مگر پیار کا دعویٰ مرے آگے
آزاد مانجھا گڑھی
برسا ہی کیا ابر کرم جھوم کے لیکن
برسا کبھی پیچھے کبھی برسا مرے آگے
عکرمہ ارقم نعیمی
میں جب سے ہوا تیری محبت میں گرفتار
عشاق جہاں کرتے ہیں سجدہ مرے آگے
ارشد انصاری فتحپوری
کچھ بولنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہوتا
خاموش کھڑا رہتا ہے نیتا مرے آگے
انسان پریم نگری
رکھنا نہ غلط کوئ ارادہ مرے آگے
ظالم نہ کسی دور کا ٹھہرا مرے آگے
دلشاد نقوی
ان کے علاوہ دیگر اور شعراء کرام ، نے بھی اپنی حاضری درج کرائی جن میں، سلیم رہبر، سید محمود حسین، آصف خان لکھنؤ وغیرہ، کے نام شامل ہیں،
مشاعرہ کے اختتام پر دبستان کے جنرل سکریٹری معید رہبر نے تمام شرکاء مشاعرہ کا شکریہ ادا کیا، اور اعلان کیا کہ اگلا مشاعرہ ان شاءاللہ 26فروری کو ہوگا جسکا مصرعہ طرح 20 فروری کو دبستان کے سر ورق پر نظر آئیگا،
Also read