نور الحسنین ایک ہمہ پہلو شخصیت

0
426

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


کوثرحیات ، اورنگ آباد
زمانہ قدیم میں داستاں سرائی کا رواج تھا جس میں عملی تفسیر، مافوق الفطرت اور فرضی کہانیاں طوالت پر مبنی ہوتی ۔ جیسے جیسے زمانہ ترقی کے مدارج طئے کرتا گیا ، زندگی مصروف سے مصروف تر ہوتی گئی ۔ اور ماورائی طویل داستان کی جگہ حقیقت پر مبنی مختصر کہانیوں نے لے لی۔مختصراً کہانیوں کا سلسلہ چلا تو افسانہ مقبول ہوتا گیا ۔ آج قارئین کو افسانہ نگاری میں عالمی شہرت یافتہ دکن کے شہر اورنگ آباد کی ہمہ پہلو شخصیت نورالحسنین سے متعارف کرواتے ہیں۔
شہر اور نگ آباد ادب کا گہوارہ رہا ہے ۔ اس شہر نے کئی نامور شاعر اردو ادب کو دئیے وہیں اعلی پایہ کہ قلم کار بھی دئیے ۔ان ہی نامی گرامی قلم کاروں میںنورالحسنین بھی ہے۔ سید نورالحسنین کی پیدائش اسی سر زمین پر ایک متوسط خاندان میں ۱۹؍ مارچ ۱۹۵۰ء کو ہوئی ۔ آپ کا نسب مشہور بزرگ سید شاہ قمر الدین حسینی نقشبندی خانوادہ سے ہیں ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم کنڑضلع اورنگ آباد کے مقامی مکتب سے ہوئی ۔ہائی اسکول کی تعلیم ، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن اورنگ آباد سے مکمل کیا۔آپ کچھ عرصہ پیشہ تدریس سے وابستہ رہے ۔ملک و بیرون ملک میں نورالحسنین کو بطور افسانہ نگار ، بہترین ناول نگار ، بہترین ڈرامہ نگار ، تنقید نگار، خاکہ نگارمیں اپنی علاحدہ شناخت رکھتے ہیں ۔
یوں تو نورالحسنین کا ادبی سفر بہت ہی کم عمری میں شروع ہوا ۔ انہوں نے ساتویں جماعت میں پہلی کہانی ’انسانیت‘ لکھی جو بمبئی کے معروف اردوروزنامہ ’ہندوستان ‘ میں شائع ہوئی ۔اس کے بعد پہلا افسانہ ’کالے ہاتھ ‘ ماہنامہ ’بانو‘ دہلی میں شائع ہوا ۔
نورالحسنین کے افسانے معاشرے کے نشیب و فراز کی عکاسی کرتے ہیں ۔اپنے افسانوں میں وہ انسانی زندگی کے مخصوص پہلوئوں کو مختصراً اور دلچسپ انداز سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ زندگی کا جاوداں حصہ نظر آتا ہے۔ساتھ ہی وہ اپنے افسانے میں خواب، خوشیاں، آرزوئیں ، ناکامی اور تمنائوں کو اس فنی صلاحیت سے پروتے ہیں کہ قاری کے ذہن پر وہ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔
نورالحسنین پچھلے چار دہائیوں سے سے افسانے لکھ رہے ہیں اب تک ان کے چار افسانے ’سمٹتے دائرے ‘، ’مور رقص اورتماشائی ‘ ، ’گڑھی میں اترتی شام‘اور ’فقط بیان‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میں سے ’پیتل کی چھٹیاں‘، ’بیساکھیوں پر کھڑے لوگ‘، ’’بھنور‘، ’بھئی جاگو‘ ، ’ایک اداس شام‘ وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں ۔ اپنے افسانوں میں وہ اشارہ کنائے کی زبان کا استعمال بہت خوبصورتی سے کرتے ہیں ۔ ان اشاروں پر غور کرنے سے زندگی کے مسائل پر تبصرے کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ جیسے افسانہ ’پیپل کی چھٹیاں‘میں پیپل کی کونپل کو اکھاڑ پھینکنا اندھے عقائد ماننے سے انکار کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔ آپ نے اس میں ایک چھوٹے سے اشارہ کے ذریعہ سماج میں رائج برائی اور اس کے خلاف اٹھائے جانے والے قدم کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے ۔ ان کے افسانے نہ صرف معاشرتی شعور کا احساس دلاتے ہیں بلکہ قاری کے ذہن پر انمٹ نقوش ثبت کردیتے ہیں ۔
نورالحسنین کے تمام افسانے زندگی کی حقیقت سے قریب ہوتے ہیں جن میں ’سمٹتے دائرے ‘ (مطبوعہ ۱۹۸۵ء)، ’مور رقص اور تماشائی‘ (مطبوعہ ۱۹۸۸ء) ، ’گڑھی میں اترتی شام‘ (مطبوعہ ۱۹۹۹ء) ، ’فقط بیان‘ (مطبوعہ ۲۰۱۲ء)۔ وہ اپنے افسانوں کے ذریعہ معاشرتی برائیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ساتھ ہی اخلاقی اقدار کی اہمیت کو بھی بڑی خوبصورتی سے اپنے افسانوں کے ذریعہ پیش کیا ہے ۔
نورالحسنین نے افسانے کے ساتھ ساتھ ناول میں بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے قارئین سے داد حاصل کی ہے ۔ ادب کی اس مقبول صنف میں اُنہوں نے فرضی نثر میں حقیقی زندگی کی عکاسی کی ہے۔آپ کا پہلا ناول ’آہنکار‘ جو ۲۰۰۵ء جس نے ادب کی دنیا میں آپ کی تحریر کا لوہا منوا لیا ۔ اس کے علاوہ دیگر بہترین ناول میں’ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘، ’چاند ہم سے باتیں کرتا ہے ‘ اور ’ تلک الایام ‘ شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں زندگی کی مسرت اور بصیرت ، غم و الم مختلف واقعات اور حادثات کو دلچسپ پیرائے میں پیش کیا ہے ۔ ان کی تحریر میں تسلسل بڑی ہنر مندی کے ساتھ ہوتا ہے جس کے باعث قاری کا تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے ۔ وہ اپنے ناول میں زندگی کی تصویر کشی کا فن بھی جانتے ہیں ۔جس سے قاری کے ذہن کے کینوس پر کردار ابھر کر آجاتے ہیں ۔ بحیثیت ناول نگار آپ پلاٹ کے موضوع کا انتخاب دلچسپ کرتے ہیں جو کہ سماج بہترین عکاس ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی کردار نگاری پر آپ کوعبور حاصل ہے ۔
نورالحسنین اورنگ آباد کے اردو روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز میں کئی برسوں تک مزاحیہ کالم لکھتے رہے ۔ اور روزنامہ ’آج‘ میںبطور صحافی اپنی خدمات انجام دیں۔اس کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف خاکہ نگاری اور تنقید نگاری پر بھی آپ نے کام کیا ہے ۔ آپ کے خاکہ کا مجموعہ بعنوان ’خوش بیانیاں‘ اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’نیا افسانہ نئے نام‘ جلداول و دوم شائع ہوئیںجو آپ کی حسن تحریر کا بہترین نمونہ اورادبی اثاثہ ہے ۔
نور الحسنین نے بے شمار اسٹیج ڈرامے اور ریڈیائی ڈرامے لکھے ہیں جو کافی مشہور بھی ہوئے اور آکاشوانی اورنگ آباد پر نشر کئے گئے ۔آکاشوانی اورنگ آباد کا نام لیتے ہی نورالحسنین کی دلکش اور مسحور کن آواز ذہن میں گونج اٹھتی ہے۔ دوستانہ آواز رکھنے والی نورالحسنین کی شخصیت جہاں ادبی دنیا میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے آج بھی روز اول کی طرح مقبول و معروف ہے وہیں ریڈیائی دنیا میں معزز و ہر دل عزیز میزبان کے طور پراپنی انفرادیت رکھتی ہے ۔
آپ نے آکاشوانی اورنگ آباد کے لیے سب سے پہلا ڈرامہ ’’انتظار‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جس میں کلیدی کردار خود ادا کیا۔ وہ ایک بہترین صداکار بھی رہے ۔ اپنے ریڈیائی ڈرامہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ میں انہوں نے جاگیردارانہ نظام کی بہترین منظر کشی کی ۔ اسی طرح ڈرامہ ’’بندھن‘‘ میں ہندوستانی تہذیب اور راکھی کا تہوار پیش کیا گیا ۔ اس ڈرامہ میں کردار نگاری کے ساتھ مکالمہ نگاری بھی قارئین کی توجہ اپنے طرف مرکوز کراتی ہیں ۔ نورالحسنین کی ڈرامہ نویسی کی یہ صلاحیت تھی کہ کردار کے مکالمے مختصراً ہوتے ہیں اور ان کے ڈراموں میں لمبی تقریریں نہیں ہوتیں کہ جس سے پڑھنے اور سننے والا اکتاہٹ محسوس کرے، ان کے مکالمے فطری نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے ڈراموں میں زندگی کی متحرک اور حقیقی صورت قارئین کے سامنے لے آتے ہیں ۔ مجموعی طور پر ان کے ڈرامے فنی اصولوں کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر کا مقصد صحت مند معاشرہ وجود میں لانا ہے ۔
اس کے علاوہ نورالحسنین کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کی نہایت احسن طریقے سے ہمت افزائی کرتے اور انہیں اپنے فن میں آگے بڑھنے کی تلقین کرتے اور حسب ضرورت ان کی اصلاح بھی فرماتے ہیں۔اس کی ایک مثال راقم خود ہے والد محترم جناب خواجہ ناصرالدین صاحب کے نورالحسنین صاحب سے دوستانہ مراسم ہونے کی بدولت مجھے کئی بار ادب کی اس مایہ ناز شخصیت سے بلمشافہ ملاقات اور بات چیت کا موقع ملتا رہا ۔ راقم کی خوش نصیبی رہی کہ ریڈیائی ٹاک کے لیے آپ کی رہبری کا فیض حاصل ہوتا رہا ۔ آپ سے ملاقات پر آپ کو علم دوست ہستی کے ساتھ ساتھ مشفق و منکسرالمزاج شخصیت کے طور پر پایا عام بول چال میں بھی آپ کا انداز نپا تلا اور شیریں گفتار ہے ۔آپ کے انداز تکلم پر وزیر آغا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا مختصر رہنا
نورالحسنین اپنے ادبی اثاثہ کے ساتھ ساتھ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے قارئین و سامعین کے دلوں میں منفرد مقام رکھتے ہیں ۔
Email: [email protected]
ضضضض

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here