9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
یاد رکھیں کہ دوا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کورونا ایسی بیماری ہے جس کے قہر سے غریب کیا ترقی یافتہ ممالک بھی نہ بچ سکے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افرادکی جان چلی گئی۔ لوگ اپنے پیاروں کو بے بسی سے مرتا ہوا دیکھتے رہے،کیوں کہ کسی کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ کورونا کی وجہ سے دنیا میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ غریبی وبے روزگاری بڑھی، معیشت تباہ ہوئی اور پورا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اس دوران کئی حکمرانوں کے چہرے سے عوامی ہمدردی کا نقاب بھی کھسک گیا۔ البتہ عالمی سطح پر کورونا سے بچاؤ کیلئے دوا بنانے کی کامیاب جدوجہد جاری رہی۔ وائرس، بیکٹیریا سے تحفظ کا آزمودہ طریقہ ٹیکہ یعنی ویکسین ہے۔ سائنسدانوں کو اسے بنانے کیلئے سخت محنت اور تجربہ سے گزرنا پڑا۔ سال بھر کی جاں فشانی کے بعد جان بچانے والی کورونا ویکسین کا ملنا ممکن ہوا ہے۔ مگر ویکسین آنے سے قبل ہی اس کے بارے میں غلط فہمی اور افواہ کا بازار گرم ہو گیاہے۔
اس بار بحث ویکسین کے حرام و حلال کو لے کر شروع ہوئی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس کی ابتدا مسلم اکثریتی ممالک انڈونیشیا اور ملیشیا میں اس وقت شروع ہوئی جب انڈونیشیا کے ایک اعلیٰ ادارے انڈونیشیا علماء کونسل سے ویکسین کے حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو کہا گیا۔ جنوب مشرقی ایشیاء میں انڈونیشیا کورونا وائرس کا ہاٹ اسپاٹ بنا ہوا ہے۔ ملیشیا نے اسی بیچ فائزر اور چین کی سنوویک بائیوٹک (اس کمپنی کی ویکسین کا ٹرائل چل رہا ہے) کے ساتھ ویکسین کیلئے قرار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ اس طرح کی افواہ پھیلائی گئی ہے کہ کئی مسلم ممالک میں حرام حلال کی بحث کے بعد ویکسین کو حرام قرار دے دیا گیا ہے، لیکن سچائی یہی ہے کہ ابھی تک انڈونیشیا اور ملیشیا میں ہی اس پر گفتگو ہوئی ہے۔ بحث اس شک کی بنیاد پر شروع ہوئی کہ کہیں کورونا ویکسین کو لمبے وقت تک محفوظ رکھنے کیلئے خنزیر کی ہڈی، چربی یا چمڑی سے بنی جیلیٹن کا استعمال تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ کئی کمپنیوں نے اس کے بغیر ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
جیلیٹن کے استعمال کو لے کر مسلمانوں کو ہی نہیں یہودیوں کو بھی تشویش ہے۔ قدامت پرست یہودی بھی خنزیر سے بنی کسی چیز کو استعمال نہیں کرتے۔ حرام حلال کی بحث کے دوران فائزر، موڈیرنا اور ایسٹرازینیکا کمپنیوں نے بیان جاری کر کے کہا ہے کہ ان کی ویکسین میں خنزیر کے اجزاء کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی حمایت میں برطانیہ کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (برٹش آئی ایم اے) نے بھی بیان جاری کر کے فائزر کی ویکسین کو ہر طرح محفوظ قرار دیا ہے۔ واضح رہے فائزر کی ویکسین کو ترک نژاد مسلم ڈاکٹر جوڑے نے تیار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی فتویٰ کونسل نے کورونا وائرس کی ویکسین کا استعمال مسلمانوں کیلئے جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ حرام اجزا پر مشتمل ویکسین کے استعمال کی اسلام میں ممانعت ہے۔ لیکن اگر وبا کے خلاف کوئی متبادل موجود نہ ہو تو پھر ایسی ویکسین کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح اب متحدہ عرب امارات میں بھی شہریوں کو کورونا وائرس کی ویکسین مفت لگانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
فتویٰ کونسل نے کہا کہ کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے۔ اور یہ ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتا ہے، اس سے ہزاروں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور اس غرض سے وبائی امراض کے وقت ایسی ادویہ کا استعمال جائز ہے تاکہ کسی بھی ایک متاثرہ شخص سے پورا معاشرہ ہی دوچار نہ ہو جائے۔ اسرائیل میں ربّی نکل آرگنائزیشن کے چیئرمین ربّی ڈیوڈ اسٹاو نیوز ایجنسی اے پی سے کہتے ہیں کہ یہودی قانون میں فطری طریقہ سے پورک کے استعمال یا اس کے کھانے پر پابندی ہے۔ اگر اسے منھ کے بجائے انجکشن سے دیا جا رہا ہے تو اس پر کوئی روک نہیں ہے خاص کر تب جب یہ بیماری کا معاملہ ہو۔ ادھر ہندوستان میںرضا اکیڈمی ممبئی نے فتویٰ جاری کر کہا ہے کہ اس طرح کی اطلاعات ہیں کہ چین میں تیار ہونے والی ویکسین میں خنزیر کے اجزا شامل ہیں۔جس کی وجہ سے اس ویکسین کا استعمال مسلمانوں کیلئے جائز نہیں ہے۔ حالانکہ چین نے اس سلسلہ میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کی ویکسین بھارت میں لوگوں کو دی جا رہی ہے۔
مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور ماہر اسلامیات پروفیسر اخترالواسع نے بی بی سی کو دیئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انسانی جان بچانے کیلئے اگر کوئی بھوکا ہے اور اس کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے تو ایسی صورت میں حرام بھی حلال ہو جاتا ہے۔ یہ اسلام کے قانون انصاف کا ماننا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پولیو کی ویکسین کو لے کر کس طرح کی تصویر بنائی گئی تھی۔ اس طرح کی بحث سے دنیا میں اسلام کی شبیہ خراب ہی ہوگی۔ بھارت میں مسلم مذہبی رہنماؤں نے پولیو کی نزاکت کو سمجھا اور اس ویکسین کی حمایت کی۔ پولیو سے ملک کو نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کورونا کیلئے کون سی ویکسین زیادہ مفید ہے، اس کا فیصلہ ڈاکٹروں کو کرنا چاہئے۔ شعیہ عالم دین کلب جواد نے اس سلسلہ میں دیئے اپنے بیان میں کہا کہ اسلام میں انسانی جان بچانے کو فوقیت دی گئی ہے۔ جو چیزیں حرام ہیں جب وہ انسانی جان بچانے کیلئے ضروری ہوں اور اس کا کوئی متبادل نہ ہو تو یہ حلال ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کورونا ویکسین حرام کیسے ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ کورونا سے تحفظ کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ویکسین کس چیز سے بنائی گئی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی کا کہنا ہے کہ ویکسین تیار کرنے میں کن چیزوں کا استعمال کیا گیا ہے، اس کے ثبوت ابھی سامنے نہیں آئے ہیں اس لئے ویکسین کے خلاف فتویٰ دینا بے معنیٰ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالعلوم کے نام سے سوشل میڈیا پر ایک فتویٰ وائرل ہو رہا ہے جس میں کورونا ویکسین میں پورک کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے اسے حرام بتایا جا رہا ہے جبکہ دارالعلوم کی طرف سے اس بارے میں فتویٰ یا بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ مرکزی دارالعلوم بریلی کے مفتی عبدالرحیم نشتر فاروقی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی کورونا ویکسین کے بارے میں تصویر صاف نہیں ہے، اس لئے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن اگر ویکسین میں ناجائز جانور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو یہ جائز نہیں ہو سکتا لیکن اگر اس کا کوئی بدل نہیں ہے اور جان بچانے کیلئے ضروری ہے تو غور کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی آخری فیصلہ ویکسین آنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کورونا ویکسین پر چل رہی بحث پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنی سنائی باتوں پر فیصلہ لینا ہی ناجائز ہے۔ بغیر تصدیق کے کسی بھی چیز کو حرام یا حلال کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ کورونا ویکسین کو حرام کہہ رہے ہیں انہیں یہ بتانا چاہئے کہ انہوں نے کس ڈاکٹر سے جانکاری لی ہے۔ اسلام میں جان کی حفاظت کو سب سے اہم بتایا گیا ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے دوا کے ذریعہ علاج کرانے کا حکم دیا ہے۔ اس بیماری سے دنیا بھر میں لوگ مر چکے ہیں۔ اس بیماری کے علاج کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر کسی دوا میں کوئی حرام چیز بھی شامل ہو اور جان بچانے کیلئے اس کا کوئی بدل نہ ہو تو وہ لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے سبھی سے اپیل کی کہ پولیو ویکسین کی طرح کورونا ویکسین کے بارے میں افواہ نہ پھلائیں۔ بلکہ ویکسین کا انتظار کریں اور ڈاکٹر سے صلاح لیں۔
اس مختصر گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ انسانی جان سب سے مقدم ہے۔ حرام و حلال کی بحث میں نہ پڑ کر کورونا سے تحفظ پر توجہ مرکوز کی جائے۔ حکومت ہند نے ویکسین لینے کیلئے گائیڈ لائن جاری کر دی ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی اور اپنے ملنے والوں کی زندگی کی حفاظت کی جائے۔ کتنی ہی اچھی مہم ہو وہ عوام کی شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جس طرح بیماری مذہب، زبان، علاقہ، امیر غریب دیکھ کر نہیں آتی۔ اسی طرح دوا کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ایک مرض کیلئے سب کو ایک ہی دوائی دی جاتی ہے۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم دوا کو استعمال کرکے صحت مند رہیں یا افواہوں کی وجہ سے اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں جوکھم میں ڈال دیں۔
٭٭٭