‘نوبل انعام یافتہ مسلم خاتون ’ توکّل کرمان

0
330

آ ہنی خاتون ‘ مادرِ انقلاب ‘ صحافی ‘ سیاست داں ‘ محافظِ انسانی حقوق

ڈاکٹر جی ۔ایم۔ پٹیل
۲۰۱۰ء میں مشرق وسطیٰ ممالک خصوصی طورسے شام، مملکتِ بحرین، مصر ، جمہوریہ تیونس اور یمن میں خانہ جنگیاں شروع ہوئیں اور سُلگتے ،دہکتے انقلابی شعلے جو تیونس سے شروع ہوئے اورقریبی کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کئی بادشاہوں کے تخت اس آگ میں جھُلس کر خاک ہوگئے ۔ خونین خانہ جنگیوں کے خو فناک،ہیبت ناک دہشتی مناظر سے روح کانپ اُٹھی ، ریاستوں میں خون میں نہائی انسانی لاشیں میلوں بکھری پڑی تھیں ۔افسوس کہ بیچارے بے بس ،غریب انسان پیدا ہوئے ہی ہیںبے موت ، زندہ درگور ہونے کے لئے۔ ان ممالک میں احتجاجی مظاہرے، انقلابی تحریکیں بھی شروع ہوئیں اور کامیاب بھی ہوئیںیعنی کہ عرب دُنیا کی کو موروثی بادشاہت اور فوجی آمریت پر انقلابیوں نے غلبہ پالیا انکے تسلط سے انہیں آزا د ی ملی اور ملکوں پر جمہوریت کی بہار

چھائی رہی۔شام، مملکتِ بحرین، مصر ، جمہوریہ تیونس اور یمن وغیرہ ممالک بھی عرب بہار میں شامل ہیں۔
خلیفہ عمربن خطاب الفاروق کے ایک لازوال فقرے سے توکّل کرمان بے حد متاثر ہوئیں ’ ’ انسان ماں کی کوکھ سے آزاد پیدا ہوتاہے تب اسکا نہ کوئی مذہب ،نہ کوئی فرقہ اور نہ ہی کوئی ذات پات ہوتی ہے۔ حکمرانوں اور فوجی آمیروں کو اس آزاد بنی نوع انسان کو غلام بنانے کا کوئی حق نہیں ‘‘ اسی بنیادی اُصول کی رہنمائی میں توکّل کرمان نے یمن قوم کی آزادی ،انکے امن و امان کے لئے لڑنے کا عزم کرلیا۔ توکّل کرمان نے ۲۰۰۵ میں اپنی انقلابی تحریکِ آزادی کا آغاز کیا۔ جس میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لئے، انکے حقوق کی پامالیوں کی آزادانہ اظہارِ رائے کے لئے ’’women journalists without chains ‘‘ اس تنظیم کی بنیاد رکھی اور خود آپکی صدار ت میں تمام خواتین کو ہمراہ لئے خالص خواتین کے کاروانِ انقلاب کی رہبری و رہنمائی کرتی رہیں ۔آ پ نے یمن میں امن کے قیامِ ، خواتین کے جائز حقوق کے حصول کے لئے عدمِ تشدد کی بنیادی اُصول اور اپنی خود اعتمادی، ضد و ضوابط کے ساتھ یمن قوم کی آزادی کی جنگ لڑتی رہیں اور اس اعتراف میںآپکو ’’آہنی خاتوں‘‘اور ’’مادرِ انقلاب ‘‘ کا لقب عطا ہوا ۔
۳۲ سالہ توکّل کرمان امن کے لئے بین الاقوامی نوبل کمیٹی کی جانب سے منتخب ہوئیں اور آ پ کو بین ا لاقوامی فخریہ ’’نوبل انعام ‘‘ سے نوازا گیا ۔امن کے لئے ’’ نوبل انعام ‘‘ پانے والی ’ توکّل کرمان یہ دوسری مسلم خاتوں ہیں۔
’’توکّل ‘‘جمہوریہ یمن کے صوبہ میخلاف کے تیسرے مشہور شہر تعز میں ۷؍ فروری کو پیدا ہوئیں۔ آپ کے آبا ؤ اجدا کا تعلق اناطولیہ سے ہے اور وہ ترکی کے شہر ’کرمان‘ سے ہیں۔ اسی بنیاد پر توکّل خاندانی افراد کے نام کے ساتھ’ کرمان‘ استعمال ہوتا ہے۔ آپ کے والد عبدالسلام خالد کرمان پیشے سے وکیل ہیں لیکن سیاست میں بھی خوب سرگرم رہے۔ علی عبد ا للہ صالح حکومت سے بطور قانونی امور کے وزیر کے عہدے سے باہمی نفاق کی وجہ سے استعفیٰ دیا اور ملک میں آمریت کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اس سانحہ کے بعد توکّل کرمان میں انقلاب کی چنگاری سُلگ گئی اور آہستہ آہستہ یہ چنگاری لپکتی اور دہکتی شعلوں کی شکل اختیا ر کر تی گئی ۔ توکّل کا فلسفۂ حیات کی گر تصریح کی جائے تو تو آپ جس خاندان میں پیدا ہوئیں وہاں صداقت اور انصاف اُصول ِ اول تھا ۔آپ کے والد قانون کے رکھوالے تھے جنہوں نے ابتدائی ریاستی قانون سازی میں قومی آئین کو زیادہ اہمیت دی۔ بد عنوانیوں اور اقربا پروری کے خلاف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور وہ اپنے استقلال ، استحکام ،تقویت کے سخت علم برادار تھے۔ عبدالسلام خالد کی صحبت کے انکے زیرِ ِ اثر توکّل نے قانونی پابندیاں، قانونی ثقافت ، اعلیٰ حسنِ معاشرت کی اہمیت کو بخوبی سمجھ گئیں اور والد صاحب کی تعلیم ِ و رہنمائی میں انکے نقشِ قدم پر گامزن رہیں۔آپ نے اپنی والدہ سے اسلام ایک کامل ضابطۂ حیات اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ایک مثالی منشور شاہراہ ٔ حیات ، جس میں ہر شعبۂ زندگی سے متعلق امور کے بارے میں انسانیت کی بھر پور رہنمائی میں امتیازی بنیادی تعلیم حاصل کرلی اور ممتا کی شفیق آغوش میں شفقت اور محبت کی بنیادی تعلیم سے اپنا دامن بھر لیا اوراسے اپنے وجود میں سمو لیا اور زیست کے نشیب و فراز ، اُتا رچڑھاؤ اور مشکل سے مشکل مرحلوں کو شکست دینے کی ان تمام صلاحیتیں سیکھ لئے۔آپ کے بھائی طارق کرمان شاعرہیںاور آپکی چھوٹی بہن صفہ کرمان معروف نیوز چینل’ الجزیرہ ‘ کی کارکن ہیں ۔
محمد اسماعیل العظیمی سے آپکا نکاح ہوا اور ایک کامیاب ازدوجی زندگی کی صورت میں آپ ۳ بچوں کی والدہ ہیں ۔آپ نے یونیورسٹی آف سائینس اینڈ ٹکنالوجی ثنا ‘سے پولیٹکل سائنس میں ڈگری حاصل کر لی اور اسکے بعد آپ نے کینڈا کی ’لایونیورسٹی ـسے ڈاکٹریت ‘ Ph.D مکمل کرلی ۔ توکّل کرمان نوبل انعام یافتہ خاتون کو حجاب کی سخت پابندیوں میں دیکھا گیاتو کچھ صحافیوں نے آپ سے تفتش کی کہ آخر حجاب کے پیچھے آپکا منطق کیا ہے؟ آپ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہا ’’ آپ بنی نوع انسان کے ارتقائی منازل سے بخوبی واقف ہونگے ہی ! جب اس میں تہذیب نا پید تھی تویہ عریاں ، بے لباس ، بے جھجک ،بے شرمی اور بے حیائی کی زندگی گذارتا رہا اور جیسے جیسے اس میں شعور آتا گیا اس میں شرم ، حیا کا احساس ہوتا گیا تب اس بنی نوع انسان نے خود کی شرم گاہوں کو پتّوں ، بیل بوٹوں سے ڈھانکنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ جب وہ مہذب کہلایا اور جب اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور سلیقہ اور اچھے بُرے کی تمیز آگئی تب اس نے شائیستہ لباس سے خود کو آراستہ کرنا شروع کیا۔آج میں نے جو پہن رکھا ہے ، حجاب و نقاب یہ بنی نوع انسان کے حصولِ فکر اور اعلیٰ تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے ۔یہ رجعت پسند ،قدامت پسند دقیانوسی ہرگز نہیں‘‘۔ آپ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ حجاب صرف خواتین کے حق میں نہیں مردوں کے لئے بھی یکساں طور پر مقرر ہے۔
توکّل کرمان نے کچھ روایتی نقاب کے عوض اسکارف اوڑھنا شرع کیا۔ ۲۰۰۴ء میں ہونے والی ایک کانفرنس میں وہ پہلی مرتبہ اسکارف اوڑھ کر شامل ہوئیں اور ایک سوال کے جواب میں صحافیوں کو بتایا کہ’’ حجاب پہننا یمن کی ثقافت ہے ۔ اسلامی تقاضوں کے مطابق اسکارف لیا جاسکتا ہے جس میں کسی خاتون کے بالوں کے بجائے صرف چہرہ نظر آئے ۔اب وقت آگیا ہے اور یہ ثابت ہو چُکا ہے کہ خواتین مردوں کے شانہ بہ شا نہ ملا کر کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں‘‘
آ پ نے سب سے پہلے آزاد پریس خصوصی طور سے خواتین صحافیوں کے حق میں تحریک شروع کی۔ نوبل انعام کے اعلان کے بعد آپ نے قطر کا سفر کیا اور شیخ تحیم بن حامد الثانی سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ ملکہ شیبہ کے اعزاز میں دوبئی میں ‘‘بلقیس ‘‘ نامی ٹیلی وژن اور ریڈیو صحافی مرکز قائم کیاجائے ۔شیخ تحیم بن حامد الثانی نے آپکی اس درخواست کو تسلیم کرلیا۔’بلقیس‘ اس مرکز میں خواتین صحافیوں کی حمایت میں اور یمن کے صحافیوں کو وسیع پیمانے پر تعلیمی و تربیتی مرکز کا قیام ہوا۔ اس کے علاوہ ایم بی آئی الجابر میڈیاانسٹی ٹیوٹ کے بین ا لاقوامی مشاورتی بورڈ لندن میں آپ خود شامل رہیں جہاں صحافت کے تمام پہلوؤں پر مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے وہاں اپنی قوم کے نوجوانوں اور خواتین کے لئے پُر خلوص خدمات انجام دئے۔ آپ پیشہ سے ایک صحافی اور فطرت کے لیحاط سے انسانی حقوق کے محافظ ہیں ۔ آپ نے یمن میں سیاسی عدم استحکام اور انسانی حقوق کی پامالیوں ،ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے خلاف مظلوموں میں بیداری کی روح پھونک دی اور انکے حوصلے بلند رکھے ۔آپ نے ۲۰۰۵ء میں خواتین کی فلاح واصلاح کے لئے خواتین صحافیوں کی تنظیم کی بنیاد رکھی جہاں آپ خود حقوق اور آزادی کی وکالت کرتیں رہیں اور صحافیوںکو میڈیا کی مہارت مہیا کرواتیں رہیں ، مزید برآں یہ تنظیم یمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ساری تٖفصیلات کی خبر وں کو اخباروں کی سُرخیوں میں پیش کیا جاتا اور پھر اسی مناسبت سے تنظیم کے اگلے انقلابی مرحلے طئے ہوتے۔۲۰۰۷ء میں آپ نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ہفتہ وار مظاہروں کا انعقاکیا جس میں یمن کے حکمران کی بد نظامی، سینہ زوری ،سخت گری اور ظلم ستم اور بد عنوانی اور دیگر معاشرتی اور قانونی ،نا انصافیوں کی تفتیش کا مطالبہ کیاجاتا ۔آپ کا یہ ہفتہ وار احتجاج ۲۰۱۱ء تک جاری رہا ۔جب آپ نے مظاہرین کو کو عرب بہار کی انقلابی تحریک کی حمایت اور اس تحریک عمل آوری کی حدایات دئے لیکن آپ وہیں رُکی نہیں یمن کی آزادی کے انقلابی نعرے نیو یارک میں بلند کئے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری ’جنرل بان کی مون ‘سے ملاقات کی اور اپنے مطالبات کی ساری تفصیل براہ راست ان سے گفتگومیں واضح کردیااو ر اس کے بعد ا قوام متحدہ کے صدر دفتر میں بھی آزادی کا عدم تشدد جلوس نکالا اور اپنا احتجاج جاری رکھا۔جرأت مندانہ اور واضح طور پر توکّل کرمان کو اس جمہوریت نواز ،انسانی حقوق کے حامی مظاہروں کے لئے متعدد مواقع پر قید بھی کیا گیالیکن اس سے آپ کے حوصلے پست نہیں ہوئے ’’ مادرِ انقلاب ‘‘ اور ’’آہنی خاتون ‘‘ کے آہنی انقلابی تحریک ِآ ٓ زادی کے جذبے اور مضبوط و محکم ہو گئے اور اپنی حکمت عملی ، مستحکم اور مستقیل مزاجی ، اپنے ذہنوں میں جمہوری ریاستوں کا قیام اور ظلم و ستم کے خلاف جنگ، شہریت اور ادارہ ٔسالمیت پر قائم قانونی ریاستوں کی آزادی کے لئے اپنا غیر مسلح کارواں ،عدم تشدد و امن و سکون سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں ر کھا ۔ آپ نے اپنی فتح کو محسوس کیا اور امیدِ واثق اور پورے یقین کے ساتھ نعرہ بلند کیا کہ ’’ آزادی کے انقلابی سپاہیوں نے چوکوں میں ڈیرے ڈال چُکے ہیںاور ہماری نگاہوں کے سامنے اب ہمارے ملک کی آزادی کا پرچم لہرا رہا ہے ! ‘‘
توکّل کرمان جب نوبل انعام سے نوزیں گئیںاس تاریخی فتح کے بعد صحافیوں سے اپنا ردِ عمل یوں بیان کیا ’’ اس نوبل انعام کے اعزاز کا میں نے تصوّر بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی مجھے اسکی کوئی توقع تھی۔ لیکن ایک دن جب ٹی وی پر امن کے نوبل انعام کا اعلان ہوا اورجب میں نے میرا نام سُنا تو بے انتہا خوش ہوئی اور مسرّت کی آغوش میں جھوُمتی ر ہی لیکن کسی کے سامنے اسکا اظہار نہیں کیا۔ اللہ کا شکر یہ ادا کیا سجدے میں خوشی کے چند آنسو کے قطرے بہادئے‘‘ میں کافی مطمئن اور کافی سنجیدگی سے ان صحافیوں کو واضح کیا کہ یہ عظیم فتح مُجھ اکیلی کی ہرگز نہیں ہے، مجموعی طور سے ان سارے عالمی عرب برادری ، مصر ، تیونس، لیبیا ، شام اور یمن کے انقلابی نوجوانوں کی فتح ہے۔ خصوصی طور سے ان بہادر ، بے باک اور دلیر عربی خواتین کی فتح ہے جنہوں نے شہریت اور حقوقِ کے مطالبے کے لئے پُر امن احتجا ج و انقلاب کی جدو جہد میںخود کو شامل رکھا ۔ میں ان تمام کو صدہا مبارکباد ! اور مجھے یقین ہے اور میں دعویٰ کے ساتھ یہ کہتی ہوں کہ زندگی کی آخری سانس تک یمن کی جمہورییت کی بقاء کے لئے اور بے قصور یمنیوں پر ہوتی نا انصافی ،ظلم و بربریت، کے خلاف ہماری یہ جنگ جاری رہے گی۔ خصوصی طور سے ان تمام بہادر سپاہیوں کو میں سلام کرتی ہوں،انکا بے حد ا حترام کرتی ہوں کہ جنہوں نے اپنے سینوں پر دشمن کی گولیوں کو برداشت کیا انکے اپنے سینے چھلنی ہو گئے مگر شکست نہیں مانی اور دشمنوں کا ڈٹ کرمقابلہ کرتے ہوئے جنگِ آزادی میں شہید ہوئے۔ ان بہادر مجاہدین آزادی ، ان جنگجو سپاہیوں کے نام میں اس بین الاقوامی فخر یہ ’’ نوبل انعام‘‘ کو وقف کرتی ہوں ان کی نظر کرتی ہوں‘‘ آپ نے بین الاقوامی وفاقی جماعت (فڈریش) برائے انسانی حقوق (FIDH اور محافظ ِعالمی اداراۂ برائے انسانی حقوق (اوبی ایس) کے لئے ایک مشترکہ آبزر ویٹری سالانہ دستاویز ۱۴ ویں سالانہ وضاحت کے اجرا کے موقعہ پر ۲۵ ؍اکتوبر کوواشنگٹن ڈی سی میں ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ پیش کیاجس میں آپ نے ’ (OMCT) تشدد کے خلاف عالمی تنظیم‘میں دی گئی تحقیقی دستاویز جس میں یمن اور اور خود آپکی جدو جہد اور ساری انقلابی تفصیلات شامل تھے۔۲۰۱۱ ء میں خارجہ حکمتِ عملی کی جانب سے جن ۱۰۰ مفکروں کو منتخب کیا گیا ان میں ’ توکّل کرمان سرِ فہرست‘ رہیں۔آپ نے ’’ ایم بی آئی الجابر ۔لندن ‘‘ اس تنظیم کے تعاون سے یمن کے قابل اور ہونہار انڈر گریجویٹ ، پوسٹ گریجویٹ سطح پر استنبول ریڈیون یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف مہیا کر وائے تاکہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کر لیں۔ آپ کی بے انتہا مقبولیت کی بنا پر آپ کو عالمی تمام مشہور شہروں میں اپنے خیالات کے اظہار اور نوجوانوں کی ہمت افزائی کے لئے مدعو کیا جاتا ہے ۔یمن میں خواتین اور لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو زیادہ حقوق اور ترقی ،تعلیم کے مواقعہ فراہم کئے جانے کے خلاف بھی آپکی آواز سُنی گئی اور اس پر عمل بھی ہوا۔آپ نے ۱۷ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی پر سخت پابندی اور آئین میںتبدیلی کا مطالبہ کیا اور اس پر باقائدہ متوجہ و سرگرم رہیں ۔
یمن کے فلمساز خدیجہ ا لسلامی نے یمن کی بغاوت پر ایک دستاویزی فلم ’’ دی اسکری‘‘ بنائی جس میں انہوں نے توکّل کرمان سے ملاقات کی جسے براہ راست اس فلم میں بتایا گیا ہے اس میں السلامی نے ایک صحافی ، ایک کارکن اور ایک شاعرہ کو انفرادی طور سے انکی اپنی بہادری، انقلابی تحریکیں اور انقلابی شاعری ، کی مناسبت سے تینوں خواتین کے جذبات کی عکاسی کو بہترین انداز میں فلمایا اور پیش کیا ۔یہ وہ خواتین ہیں جو روایتی آداب ، معاشرے کے ردِعمل میں مردوں کے مقابلہ اپنی حیثیت کو بہ آواز بلند بیان کرتی ہیں اسکا اظہار کرتی ہیں اور اپنی ثقافتی و تہذیبی میراث کو برقرار رکھنے کا عزم اور یقین رکھتی ہیں۔ ۲۰۱۲ء میںاس دستاویزی فلم کی پہلی نمائیش دُوبئی میں منعقدہ انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں کی گئی۔ مادرِ انقلاب اور آہنی خاتوں کے بلند انقلابی نعروں اور ان کے جنگِ آزادی کے آہنی ارادوں ، ان دہکتے انقلابی شعلوں اور انقلابی آندھی اور اس طوفان کو دُنیا کی کو ئی طاقت روک نہیں سکتی ! تاریخ گواہ ہو اسکی !٭٭
پونے رابطہ : 9822031031

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here