آخری کرن کبھی گم نہ ہو

0
82

نرجس بتول علوی

ماجد نے مجھ سے کہا کاشف سدھر جا ایل ایل بی کا سٹوڈنٹ ہے .اپنی پڑھائ کا خیال رکھ نہ کے خوبصورت لوگوں کا .میں نے اس پھر بھی اس کی بات کو سنجیدہ نہ لیا اور یہ کہا کے تم تو مجھ سے جلتے ہو .کیونکہ تم ہو کالے میں ہوں چٹا تم ہو موٹے میں سمارٹ میں ہوں لمبا تو ہے چھوٹا سا .اس بات پر ماھد کو بہت غصہ آ گیا کیونکہ وہ بہت سنجیدہ لڑکا تھا .میں نے دوبارہ یہ ہی الفاظ دہراۓ کالا, موٹو, چھوٹو ماجد نے چپل اتاری اتاری اور مجھے مارنے والا ہی تھا کہ بھاگ کر دروازے سے باہر گیا . آگے تو جیسے منزل میرا انتظار کر رہی تھی .میری ٹکر اسی لڑکی سے ہوئ کمرہ نمبر سولہ والی سے میں نے سوری کہا اس نے بھی منظور کر لیا.اس سے ہمارا تعارف ہوا.اس نے مجھے اپنا نام ثمرین بتایا اور ایف اے کی سٹوڈنٹ میں نے بتایا میں کاشف خان ایل ایل بی کا سٹوڈنٹ اس سے ہماری بات چیت ہوئ.وہ عادت کی بھی بہت اچھی تھی

ملکہ کوہسار میں آسمان کو بادلوں نے چاروں جانب گھیر رکھا تھا- ٹھنڈی ہواءیں بدن میں لرزش پیدا کر رہیں تھیں -مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ملکہ کوہسار مجھے اپنی آغوش میں کے کر لوریاں دی رہی ہو .میں خوبصورت نظارے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا .یونیورسٹی جواءن کرتے ہی میرا دل میں لگ گیا .ابھی قدرت کے یہ نظارے دیکھ ہی رہا تھا کے میرے سامنے ایک پری نمودار ہوئ.وہ لال جوڑے میں بلکل دلہن لگ رہی تھی .پھول کے کٹورے جیسی آنکھیں ناگن جیسی زلفیں سیاہ گھٹا کی طرح چہرے پر پہرہ دی رہیں تھیں .یاقوت کی طرح خوبصورت ہونٹ زمرد کی طرح چمکتے خوبصورت دانت .وہ اپنی سہلیوں کے ساتھ قہقے لگائے میرے پاس سے گزری .اس نے مجھے آنکھ بھر لے دیکھا اور نظریں چرا کر چلی گئ .لیکن میں اسے دیکھتا ہی رہا.اس کی آنکھوں میں شوخی اور شرارت صاف نظر آئ لیکن چہرے سے معصومیت چھلک رہی تھی .میرے دل میں اس کے لیے محبت کی اک ایسی لہر اٹھی کی میں اس کے پیچھے دبے پاؤں چل پڑا .اس کی چوڑیاں کلاءیوں میں رقص کر رہیں تھیں .اور اس کی پاءل طرح طرح کے گیت گا رہی تھی اور اس کو سن کر میں مہزوز ہو رہا تھا .اس کے لیے میری محبت اور بھی بڑھتی جارہی تھی .آخر کا وہ بھی اسی ہوسٹل میں داخل ہوئ جہاں میری رہاہش تھی .وہ کمرہ نمبر سولہ میں انٹر ہوئ. اس نے مجھے دیکھا تو وہ زیر لب مسکرائ اور دروازہ بند کر دیا .میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ اٹھی اور دل میں بہت خوشی سے واہ میرے اللہ تیرے کرشمے منزل صرف دو چار کمرے کی مسافت پر میں گنگناتے ہوۓ اپنے کمرے نمبر بیس میں داخل ہوا.وہاں میرا دوست ماجد نوٹس بنا رہا تھا.میں نے کمرے میں انٹر ہوتے ہی ماجد کو تکیہ اٹھا کر دے مارا.ماجد غصے سے اندھا بدتمیزکہیں کانوٹس بنا رہا ہوں .میں نے کرسی اٹھائ اور اس کے پاس جا بیٹھا اور شرارت سے کہا تیرا جگر بدتمیز کہیں کا نہیں بلکہ یہی کا ہے .اس وقت ماجد کا قہقہ بلند ہوا .میں نے اس کے ہاتھ سے کاغذ اٹھا کر ہوا میں اڑا دیے .میں نے ماجد سے کہا یار باہر تو نکل دیکھ اتنا پیارا موسم ہے .اور ہمارے ہوسٹل میں بہت ہی خوبصورت لوگ بھی آ رہے ہیں .ماجد نے مجھ سے کہا کاشف سدھر جا ایل ایل بی کا سٹوڈنٹ ہے .اپنی پڑھائ کا خیال رکھ نہ کے خوبصورت لوگوں کا .میں نے اس پھر بھی اس کی بات کو سنجیدہ نہ لیا اور یہ کہا کے تم تو مجھ سے جلتے ہو .کیونکہ تم ہو کالے میں ہوں چٹا تم ہو موٹے میں سمارٹ میں ہوں لمبا تو ہے چھوٹا سا .اس بات پر ماھد کو بہت غصہ آ گیا کیونکہ وہ بہت سنجیدہ لڑکا تھا .میں نے دوبارہ یہ ہی الفاظ دہراۓ کالا, موٹو, چھوٹو ماجد نے چپل اتاری اتاری اور مجھے مارنے والا ہی تھا کہ بھاگ کر دروازے سے باہر گیا . آگے تو جیسے منزل میرا انتظار کر رہی تھی .میری ٹکر اسی لڑکی سے ہوئ کمرہ نمبر سولہ والی سے میں نے سوری کہا اس نے بھی منظور کر لیا.اس سے ہمارا تعارف ہوا.اس نے مجھے اپنا نام ثمرین بتایا اور ایف اے کی سٹوڈنٹ میں نے بتایا میں کاشف خان ایل ایل بی کا سٹوڈنٹ اس سے ہماری بات چیت ہوئ.وہ عادت کی بھی بہت اچھی تھی .میں نے اسے کافی کی دعوت دی .اس نے قبول کی اور ہم دونوں نے بہت سی باتوں کے سات اس کافی کو انجواۓ کیا .اس طرح ہمارے درمیان محبت کا رشتہ قاءم ہو گیا اور ہم روز یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اسی کیفے پر وقت گزارتے .اپنے سارے دن کی باتیں ڈسکس کرتے اور کافی باتیں کرنے کے بعد ہوسٹل آ جاتے .وقت گزرتا گیا .ہمارے محبت عروج پر تھی .ثمرین ہمیشہ مجھے کہتی تھی وہ دن کبھی نہ آۓ جس دن مجھے کاشف تمھارے بنا اک دن بھی گزرانے پڑے اور اس کی آنکھیں برس پڑتی تو میں اس کے آنسو صاف کرتا اور کہتا یہ موتی بہت قیمتی ہیں .ان کو ضایع نہیں کرتے اور اگر یہ آنکھ سے باہر آ جاءیں تو بکھر جاتے ہیں .میں اس کو محبت کی باتوں سے تسلی دیتا .جب وہ اپنے گھر چھٹی پر جاتی تو مجھے اس کی یاد کھا جاتی اور اس کا بھی وہاں دل نہ لگتا اور جب میں گھر جاتا تو وہ بہت پریشان ہو جاتی یہاں تک کے کھانا تک نہ کھاتی تھی.اس لیے ہم مہینوں بعد صرف دو دن کے لیے گھر جاتے اور جلدی واپس آ جاتے .آخر جدائ کی اک شام آگئ میری تعلیم مکمل ہو گی .اسی شام مجھے یونیورسٹی چھوڑ کر جانا تھا.ناجانے وہ وقت ہم نے کیسے گزرا اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا .وہ جدائ پر بلک بلک کر رو رہی تھی .اور محبت کے وعدے کر رہی تھی اعر کہہ رہی تھہ جلدی آنا میں تمھارا انتظار کروں گی .وہ بہت رو رہی تھی .میں نے ٹشوپیپر جیب سے نکالا اور اس کے آنسو اس میں سمیٹ لیے اور اس کو اپنے جیب میں رکھ لیااور ثمرین سے کہا کے تمھاری یاد آنے پر ان آنسو کی مہک میرے دل جو روشن کرتی رہے گی .بہت مشکل سے میں وہاں سے روانہ ہوا.میں گھر آیا .وکالت جو اپنا پیشہ بنا لیا .خوب کامیابی پائ .میرا اور ثمرین کا رابطہ لمحہ با لمحہ رہااور ملاقات بھی کبھی کبھار ہوتی رہی .اک شام میں نے اس کا نمبر ملایا تو نمبر بند جارہا تھا اور میرا دل بیھٹا جا رہا تھا.کیونکہ اس سارے عرصے میں اس کا نمبر کبھی بند نہ تھا .ایک سے دوسرا دوسرے سے تیسرا اسی طرح دو سال بیت گے .میں اس کے قرب میں آج بھی تڑپتا ہوں . اس کو بے حد یاد کرتا ہوں.مجھے اس کے بنا زندگی سنسان لگتی ہے.میں صرف جی رہا ہوں سانس چل رہی ہے لیکن زندوں میں نہیں ہوں .وہ لڑکی جو کہ میرے بنا اک لمحہ نہ گزرتی .وہ دو سال سے کہاں ؟؟؟کل شام میں اپنی لیب لاءیبری میں کتاب پڑھ رہا تھا .سامنے اک Dairy آ گی جس پر ثمرین کی سہیلی شگفتہ کا نمبر تھا .اس سے ثمرین کا پتہ کرنے کے لیے اس کو کال کی تو وہاں سے معلوم ہوا کے ثمرین کی دو سال پہلے شادی ہو چکی ہے .کچھ مہینے پہلے اس کو اللہ پاک نے بیٹے سے نوازہ ہے .بس اس وقت نہ تو میں زمین پر تھا نہ ہی آسمان پر .میری دنیا اجڑ آگی میں نے مایوس ہو کر فون بند کیا .میری آنکھیں ایسی برس رہیں تھی .جیسے بوڑھا باپ جوان بیٹے کی موت پر رو رہا ہو . روتے روتے میرے منہ سے نکلا آخری کرن کبھی گم نہ ہو

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here