9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
گوپال آج بہت خوش نظر آ رہا تھا۔شام ہونے سے پہلے ہی اس کے سارے غبارے بک گئے تھے،آج کی کمائی کو سرشاری سے گنتے ہوئے اُسنے گھر کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے،…….لیکن کچھ خیال آتے ہی اس کا پورا وجود ایک دم برف کے مجسمے کی طرح جم گیا۔
بات کچھ زیادہ پرانی نہیں یہی کوئی چار پانچ مہینے پہلے کی بات ہے گھر پہنچتے ہی گوپال کا استقبال تین معصوم پھول والہانہ انداز میں کرتے تھے، اس کے علاوہ ایک جاں نثار بیوی اور بے انتہا شفقت کرنے والی ماں،ان سب کو خوش دیکھ کر ہی گوپال کی بانچھیں کھل اٹھتی تھیں۔
لیکن وہ دن گوپال کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا جس دن پانچ ہنستی مسکراتی زندگیاں ایک ناگہانی آفت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
اس دن اندر دیو اس چھوٹے سے گاؤں پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہو گئے تھے۔ بےتحاشہ پانی برسا گوپال کے گھر کی بوسیدہ (چھت جس کو تقریباً آدھے سے زیادہ دیمک چاٹ گئی تھی) نے دم توڑ دیا اور اپنے ساتھ پانچ زندگیوں کو گہری نیند سلا دیا۔
آج جیسے جیسے سورج غروب ہو رہا تھا گوپال کا دل بھی ڈوبا جا رہا تھا۔گوپال سوچ رہا تھا قدرت اتنی بے رحم کیسے ہو سکتی ہے۔ ایک جھٹکے میں اُسکی زندگی کا کل سرمایہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔اب وہ کس کے ناز اٹھائے گا،کس کے لیے مٹھائی اور کھلونے خری دے گا….گھر کیا وہ گھر جو اب کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔گوپال سڑک کے کنارے بیٹھ گیا وہاں اتنی زیادہ چہل پہل ہوتے ہوئے بھی اُسے ایک سنّاٹا سنائی دے رہا تھا اور یہ سنّاٹا اس کے دل میں اترتا جا رہا تھا۔
وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا مگر اس کے ان سوالوں کا جواب نہ تو قدرت کے پاس تھا اور نہ ہی کسی انسان کے…..