کو ّا کان لے گیا، کو ّا کان لے گیا

0
166

کو ّا کان لے گیا، کو ّا کان لے گیا

وقار رضوی
کو ّا کان لے گیا، کو ّا کان لے گیا کو ّے کے پیچھے سب بھاگے لیکن اپنا کان کوئی دیکھنے کو تیار نہیں۔ ابھی دو دن پہلے ایک فتویٰ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ فتوے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تو بحث خوب چلی کہ مخالفت کرنے سے پہلے تحقیق کرلینی چاہئے تھی، اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے تھی، دیوبند تو رمضان کے ایک مہینے بند رہتا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن فتویٰ آیا کہاں سے، اتنے بڑے بڑے اخباروں نے بغیر تحقیق کے اسے اتنے جلی حرفوں میں شائع کیسے کیا اس پر سبھی کی زبانوں پر تالا لگا ہوا ہے کسی نے ان اخباروں سے نہیں پوچھا کہ اتنی شرانگیز خبر آپ نے کس بنیاد پر شائع کی، ارے ہندی والوں سے نہیں پوچھ سکتے تھے تو اُن اُردو اخباروں سے ہی پوچھتے کہ آپ کے ہی آفس میں آپ کے ہی ہندی ایڈیشن میں اتنی شرانگیز فرضی خبر کیسے شائع ہوئی۔
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے۔ ہم پر دہشت گردی کا الزام اس لئے نہیں ہے کہ ہم دہشت گرد ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی واردات سنی اور ہم مذمت کرنے کے بجائے تحقیق کرتے رہ گئے کہ اصل واقعہ کیا ہے اور سمجھنے والوں نے ہماری خاموشی کو ہماری رضامندی سمجھا۔ پاکستان میں سپاہِ صحابہ جیسی تمام تنظیموں کے نام سے اکثر اور بیشتر خبریں آتی رہتی ہیں کہ آج وہاں مسجد میں بم پھٹا اور نمازی شہید ہوگئے، آج وہاں جلوس میں بم پھٹا، اتنے لوگ شہید ہوگئے، آج داعش نے اتنے لوگوں کے سر کاٹ لئے آج ابوبکر بغدادی نے خلافت کا اعلان کردیا، وغیرہ وغیرہ۔ ہم سنتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں، کیونکہ ہماری تحقیق کبھی مکمل ہی نہیں ہوتی۔
ہوسکتا ہے یہ سب سرے سے جھوٹ ہو، نہ ابوبکر بغدادی نام کا کوئی شخص ہو اور نہ ملا ّ عمر، نہ پاکستان میں مسجدوں میں بم داغے جاتے ہوں نہ جلوسوں پر گولیاں چلتی ہوں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خبریں آتی کہاں سے ہیں؟ کون ہے جو اتنے افسانے ہر روز گڑھ کر اخبار اور چینلوں کی سرخیاں بنا دیتا ہے؟ آخر اتنی محنت کس لئے اور کس کے لئے؟ اس کا شاید ایک ہی جواب ہو کہ مخالف طاقتیں نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں میں اتحاد ہو۔ ٹھیک ہے مخالف نہیں چاہتا کہ اتحاد ہو لیکن ہم تو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں اتحاد ہو، اس لئے ہم نے بغیر تاخیر کئے مخالفت کرکے یہ بتا دیا کہ یہ فتویٰ اگر فرضی نہ بھی قرار پاتا تو بھی ہم ایسے ہی اس کی مخالفت کرتے۔
اس فرضی فتوے سے مسلمانوں کے دو فرقوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش اس لئے ناکام ہوگئی کیونکہ جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ فتویٰ آیا ویسے ہی حق پسندوں نے اس کی دھجیاں اُڑادیں۔ اس فتوے کے خلاف اپنی تمام مصروفیت ہونے کے باوجود انہوں نے احتجاجاً شیعوں کے یہاں جاکر روزہ افطار کرکے بتادیا کہ اب مولویوں کے بہکاوے میں قوم نہیں آنے والی۔
یہ فتویٰ اتنی جلدی فرضی اس لئے قرار پاگیا کیونکہ اس کی فوری طور سے شدید مخالفت ہوئی اور مخالفت اس فرقے سے ہوئی جس فرقے سے یہ فتویٰ آیا تھا۔ مخالفت کرنے والوں نے اس بات میں وقت ضائع نہیں کیا کہ اس بات کی تصدیق کرلی جائے کہ یہ فتویٰ واقعی میں دارالعلوم دیوبند سے جاری ہوا ہے یا نہیں، اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ بیشتر کو یہ معلوم تھا کہ دیوبند اتنے بچکانے اور غیرذمہ داری کا ثبوت نہیں دے سکتا پھر بھی اس کی مخالفت اس لئے ضروری تھی کہ جس نے جس مقصد سے اس فتوے کو ملک کے بڑے اخباروں میں شائع کرایا اس کے منصوبوں پر پانی پھر جائے، اور ایسا ہی ہوا بھی۔ میری درخواست اُن لوگوں سے ہے کہ جو کہہ رہے ہیں کہ اس فتوے کی مخالفت کرنے میں بہت جلدی کی گئی ان سے گذارش ہے کہ وہ اُن اخباروں کے خلاف آواز اٹھانے میں کتنا وقت لیں گے جنہوں نے اس فتوے کی بغیر تحقیق کئے اسے شائع کیا۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here