Wednesday, April 24, 2024
spot_img
HomeNationalایک ہمہ جہت ادیب: نیر مسعود

ایک ہمہ جہت ادیب: نیر مسعود

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

شارب ردولوی

نیر مسعود اردو کے اہم محققوں ، افسانہ نگاروں اور ناقدوں میں ہیں انھوں نے اگر ایک طرف اپنی افسانہ نگاری سے تاریخ افسانہ میں اپنے نقش قدم چھوڑے ہیں تو دوسری طرف اپنی تحقیق سے اردو مرثیے سے رجب علی بیگ سرور تک انھوں نے ایسے کام کئے ہیں جو جدید اردو تحقیق میں مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور سے اردومرثیہ ، انیس سوانح اور مرثیہ خوانی کافن اردو کی ادبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مرثیہ اردو شاعری میںجس طرح دوسری اصناف سخن سے اپنی اندرونی ہیئت میں مختلف ہے اسی طرح اس کی خوانندگی بھی ایک الگ فن ہے جس کے کچھ آداب ہیں خواہ وہ سوز خوانی کی شکل میں ہو یا تحت خوانی کی صورت میں۔
مرثئے عام طور سے محرم کی مجالس میںپڑھنے کے لئے لکھے جاتے تھے لیکن ان کی خوانندگی کا کوئی طریقہ طے نہیں تھا شبلیؔ کے بیان کے مطابق پہلی بار تحت اللفاظ میں مرثیہ میر ضمیر نے پڑھا۔ اور وہی ان کی مرثیہ گوئی کی ابتدا بنا(۱؎ موازنہ انیس ودبیر ص 13) اور یہ بھی ان کانظم کیا ہوا مرثیہ نہیںتھا اپنے ہم سایہ غلام احمد کے زبردست اصرار پر بدرجہ مجبوری انھوں نے گداؔ کا مرثیہ پڑھا تھا اس لئے کہ اس وقت تک وہ خود مرثئے نہیں کہتے تھے غزلیں ضرور اپنے مخصوص انداز میں احباب کی محفلوں میں سناتے تھے اور اپنے انداز قرأت کے لئے مشہور تھے۔ اس وقت مرثیہ خوانی کا کیا طریقہ تھا اس کی واقفیت سے انھوں نے خود انکار کیا ہے نیرّمسعود کہتے ہیں۔
’’۔۔۔لیکن ان کی یہ ناواقفیت شعر خوانی میں ان کی مہارت کے ساتھ ملکر مرثیہ خوانی کے ایک طرز نو کی ایجاد کا سبب ہوئی اور اسی کی بدولت مرثیہ خوانی ایک نیافن بن گیا‘‘ (مرثیہ خوانی کا فن ص 23)
نیرمسعود کی یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے جس موضوع پر تحقیق کی حتی الامکان اس میں کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی مرثیہ خوانی ہی کو دیکھئے، اردو میں غزل خوانی اور قصیدہ خوانی کی روائت بھی رہی ہے ایک کا تعلق مشاعروں اور محفلوں سے تھا اور دوسرے کا درباروں سے تھا لیکن دونوں کا تعلق سنانے کے فن یا Vocal Art سے تھا اس لئے کہ اسی کے انعام و اکرام پر گزر اوقات تھی لیکن مرثئے کی پیش کش ایک الگ چیز ہے، یہاں تاریخ سے وابستہ ایک موضوع کو بار بار نظم کرنا تھا اور سینکڑوں لوگوں کو بہت دیر تک اپنی طرف متوجہ رکھنا تھا، اس زمانے میں عام طور پر مرثئے ڈیڑھ سو بند سے زائد ہوتے تھے۔اس لئے شاعر کا سارا زور بندش الفاظ اور خوانندگی پر صرف ہوتا تھا۔ اور دھیرے دھیرے مرثیہ خوانی نے ایک فن کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس موضوع پر اکثر لوگوںنے اظہار تو کیا کہ انیس ؔ یا دبیرؔ مرثیہ کس طرح پڑھتے تھے لیکن اس سلسلے میں پوری تحقیق کے ساتھ پہلی بار نیرمسعود نے قلم اٹھایااور اس کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ انھوں نے اس جگہ سے اسے شروع کیا جہاں مرثئے نے موجودہ ہیئت اختیار کی یعنی میر ضمیر اور ان کی مثنوی مظہر العجائب (تصنیف 1244ھ) سے جس میں خود ضمیر ؔ نے اس کا اظہار کیا ہے کہ وہ مرثیہ خوانی سے قطعاََ واقف نہیں تھے اور نہ خود مرثیے کہتے تھے انھیں مجبوراََ ایک اپنے ہمسائے غلام علی کے یہاں گدؔا کا مرثیہ پڑھنا پڑا اور اس طرح پڑھا کہ ان کے بعد
گو کہ باقی کئی تھے مرثیہ خواں
پھر کسی نے کیا نہ واجزواں
مرثیہ پڑھا تو اس سے پہلے بھی جاتا تھا قلی قطب شاہ نے بھی مرثئے لکھے ہیں اور یہ مجالس میں پڑھے ہی جاتے تھے لیکن چونکہ اس وقت تک مرثئے کی کوئی مستقل ہیئت نہیں تھی اس لئے رثائیت کی وجہ سے پڑھنے میں لہجے سے تاثر پیدا کیاجاتا رہا ہوگا لیکن ضمیرؔ و خلیقؔ کے عہد سے جب مرثیہ کو زیادہ فروغ ہوا اور مجالس میں ذاکرین کی ضرورت بڑھی تو سامعین کو زیادہ سے یزادہ متاثر کرنے اور مجالس کو رقت آمیز بنانے کے لئے شعرا نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کی طرف بھی توجہ دی۔نیر مسعودنے ضمیر، خلیق ، دبیر اور انیس کی مرثیہ خوانی اور منبر پر ان کے انداز پیشکش کے اصولوں کو ان کے عہد کے راویوں ان کے زمانے کی مجلسوں کے قصوں اور ان کے عہد کے لوگوں کے بیانات سے مرتب کیا انھوں نے خاص طور پر بعض لوگوں کے مضامین کے اقتباس بھی دئے ہیں کہ لہجے کے فرق سے تاثر میں کیا فرق پڑتا ہے اس کا اندازہ ہو سکے۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال صرف لفظ ’کیا‘ کے استعمال سے انہوں نے یوسف حسین شا ئقی کی تحریر سے دی ہے جس میں انہوں نے خاندان انیس کی مرثیہ خوانی پر روشنی ڈالی ہے
اس کے بعد 8مصرعے دئے ہیں جن میں لفظ ’کیا‘ نظم کیا گیا ہے آپ یہاں پر صرف چند مصرعے دیکھئے
زینبؑ کے بھی کیا صاحب اقبال پسر تھے
کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا
کی عرض کیا رہیں گے اس دشت میں امامؑ
کیا کیا نہ دے گا اور نہ کیاکیا دیا ہمیں
تم کیا یہ فوج ظلم ہے کیا یہ ہجوم کیا
کیا خوب نہر چھوڑ کے ریتی پہ ہم رہیں
اس طرح لہجے سے کسی لفظ کے اثر میں اضافہ یا معنی و مفہوم میں تبدیلی کے علاوہ نیر مسعود نے عناصر مرثیہ خوانی میںزبان، الفاظ کا دربست، ادائے الفاظ ، چشم و ابرو کا عمل، ہاتھ یا اعضا کی جنبش سے ’ بتانے‘ کے عمل کو مرثیہ خوانی کے عناصر میں بیان کیا ہے۔ قدیم اساتذہ میں دبیر وانیس عام طورپر ہاتھوں کے اشاروں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔انیسؔ بھی زیادہ تر لہجے کے اتار چڑھائو اور چشم و ابرو کے اشارے سے کام لیتے تھے۔ دبیرؔ نے تو اپنے ایک مصرع میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ
بھولے سے بتادوں تو رہے یاد ہمیشہ
اس کے علاوہ انیس سوانح صرف انیس کی Biography نہیں ،بلکہ لکھنؤ کی تہذیبی تاریخ ہے جس میں انیس کے ساتھ اس عہد کے سارے اہم کردار اور واقعات موجود ہیں اس طرح انیس سوانح اردو تحقیق میں ایک مثالی نمونہ اور انیسیات میں ایک اہم اضافہ ہے۔نیر مسعودنے خاکساری میں بسر کی انھوں نے اپنے کام کے آگے نہ شہرت سے غرض رکھی اور نہ اعزاز سے، لیکن انھوں نے جو کام کیا وہ خواہ افسانے کی دنیا میں ہو یا تحقیق وتنقید کی دنیا میں وہ ہمیشہ ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیاجائے گا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular