نسترن احسن فتیحی کا ناول ”نوحہ گر”

0
716

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


تبصرہ نگار: پروفیسر غضنفرعلی

خامۂ خواتین اردو شاعری کے مقابلے میں صفحۂ فکشن پر ہمیشہ ہی کچھ زیادہ رواں رہا ہے۔اور اس کی روانی کی موجیں طرح طرح کی ترنگیں اٹھاتی رہی ہیں ۔آج بھی اس نسائی قلم کی روانی اور تیز گامی برقرار ہے۔ موجیں آج بھی ترنگیں اٹھا رہی ہیں اور دریاۓ فسانہ میں ہلچل مچا رہی ہیں مگر یہاں اس کے اسباب سے بحث نہیں بلکہ اس افسانوی گرداب کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو ایک نسائی خامے کی جنبش‌ سے اردو فکشن کے آب میں”نوحہ گر“ کے عنوان سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ”نوحہ گر“ سے پہلے نسترن نے لفٹ ‘ لکھاجو اردو کے کیمپس ناولوں میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی گھناؤنی سیاسی چالبازیوں مکروہ بد عنوانیوں اور درس وتدریس و انتظامیہ سے وابستہ افراد کی نفسیاتی الجھنوں کو دلچسپ افسانوی رنگ و آہنگ کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے مگر اہل نظر نے اس ناول پر وہ توجہ نہیں فرمائی جس کا وہ متقاضی تھا ۔

یہ بھی پڑھیں

خود کشی کی ہار

‘ نوحہ گر نسترن احسن فتیحی کی نوکِ قلم سے نکلا ہوا ان کا دوسرا ناول ہے جو ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا نوحہ ہے جو اپنے سینے میں ان لوگوں کا سوز رکھتا ہے جو ایک بھرے پورے ملک کی ہری بھری وادی میں بھی ایک طبقے کو اندر باہر دونوں طرف سے جھلساتا رہتا ہے۔ ان کے دلوں کو زرد اور جسم کو سیاہ کرتا جاتا ہے۔ان کی سانسوں میں دھواں اور رگ و ریشے میں زہر بھرتا جاتا ہے ۔ اس صدی میں بھی انھیں آدی باسی بنائے رکھتا ہے مگر ان کی حالت زار کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی گھٹن کسی کو دکھائی نہیں دیتی ۔ ان کی چبھن کسی کے احساس میں نہیں چبھتی ۔ ان کی اینٹھن کسی کےادراک میں بل نہیں ڈالتی۔بلکہ الٹے ان کی تڑپ اور چھٹپٹاہٹ پر انھیں معتوب، مغلوب اور مصلوب بھی کیا جاتا ہے۔ نسترن فتیحی لائق, تعظیم اور قابل,داد ہیں کہ انھوں نے اس طبقے کی حالت زار اور ان کے سینے کے سوز کو محسوس کیا۔ یہ بیڑا اٹھایا کہ ایک پیڑا جو سینے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے اسے سماعتوں تک پہنچائیں ۔ایک کراہ جو چیخ رہی ہے اسے چپ کرائیں۔ اس انسان کو جسے آج بھی جنگلی سمجھا جاتا ہے اسے انسان کا درجہ دلائیں۔ ساتھ ہی اس نوحہ گر نے ایک اور مظلوم کے سینے میں دہکنے والی آگ کی لپٹوں کو بھی اپنے بیان میں لپیٹ کر ہماری بصارتوں اور سماعتوں تک لانے کی کوشش کی ہے ‌۔ نیز نسترن نے اپنی اس تخلیق میں اس قوت کو بھی دکھانے کی سعی کی ہے کہ اگر ادھر توجہ نہیں دی گئی تو ایک آگ جو ابھی سلگ رہی ہے کہیں بھڑک گئی سب کو جلا کر خاک نہ کر دے ۔

ناول کے اختتام تک آتے آتے انہوں نے بہت خوبصورتی سے اس حقیقت کی طرف ذہن کو مبذول کرایا ہے کہ خاموشی اور کنارہ کشی کسی مسئلے کا حل نہیں بن سکتی بلکہ مشکلات کے آگے سینہ سپر ہو کر ہی ہم ظلم کو سرنگوں کر سکتے ہیں ۔ ورنہ طبقاتی نسلی اور مذہبی تفرقات کو ہوا دے کر ظلم کا رواج عام ہو جائیگا۔

نسترن فتیحی ان خواتین قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کا قلم ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اپنی جنگ لڑتا رہتا ہے ۔ لفٹ کےبعد انھوں نے معاشرے کے ایک اور اہم مسئلے کو نہایت ہی پر زور آواز میں اٹھایا ہے اور ایسا پر سوز لہجہ اختیار کیا ہے کہ پڑھتے وقت ناول ایک نوحے میں بدل جاتا ہے اور قاری پر رقت طاری کر دیتا ہے۔اس کیفیت کو پیدا کرنے میں نسترن کے حساس اور درد مند دل کا ہاتھ تو ہے ہی ان کی قوت بیان نے بھی اہم کردارنبھایا ہے ۔ نسترن فتیحی کی اس افسانوی تخلیق میںموجزن اثریت کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس ناول کو ڈرائنگ روم میں یا اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر نہیں لکھا ہے بلکہ اس کے لیے وہ اپنے آرام دہ خواب گاہ سے نکل کر پرخار راستوں پر چلی ہیں ۔ بدبو دار گلیوں میں گھومی ہیں ۔تنگ و تاریک علاقوں میں پہنچی ہیں ۔ طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائیں ہیں۔ مصیبتیں جھیلی ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ نوحہ گر کا نوحہ ضرور اپنا اثر دکھائےگا اور معاشرے کے جمود کو پگھلائے گا۔ پتھر دلوں کو موم کرے گا اور نگاہوں کو اس جانب بھی مرکوز کر ے گاجدھر آہیں اور کراہیں کب سے راہ دکھ رہی ہیں ۔

اس اچھے،بامعنی اور اثر دار ناول کی تخلیق کے لیے نسترن فتیحی کو ڈھیروں مبارکباد

علی گڑھ7678436704

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here