فلسطین کی حالیہ صورت حال سے مسلمان مایوس بالکل نہ ہوں-Muslims should not be disappointed with the current situation in Palestine

1
180

Muslims should not be disappointed with the current situation in Palestine2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ تو ہم لوگ بہت رنجیدہ تھے۔ اس بات کو لیکر ہم کچھ دوست اپنے ایک استاد کے پاس جاکر اس کا تذکرہ کیا۔ تو انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں عام لوگوں کی ہلاکت کے پیش نظر طالبان بظاہر پسپا ہوئے ہیں۔ جب افغانستان کے حالات درست ہو جائیں گے اور لوگوں کی بازآبادکاری ہوجائے گی تو ان شاءاللہ طالبان پھر پلٹ وار کریں گے۔ وہ لوگ کبھی کسی کی غلامی تسلیم نہیں کریں گے۔ اور نہ ہی دنیا کی کسی طاقت کے دباؤ کے آگے جھکیں گے۔ آپ لوگ وہاں کے لئے بس دعائیں کیجئے۔ اور کچھ سالوں بعد اس کا نتیجہ دیکھنا۔اپنے استاد کی یہ بات ہم لوگوں کو اس وقت سمجھ میں بالکل نہیں آرہی تھی۔ لیکن آج بیس سالوں بعد پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دنیا کا پاور فل اور ایٹمی ہتھیاروں کا حامل امریکہ کیسے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر طالبان کی ہر شرط کو منظور کرکے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوا ہے۔ اسی طرح فلسطین میں پچھلے تیس/ چالیس سالوں سے وہاں کی عوام پر اسی قسم کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جو کبھی افغانستان ، عراق ، برما ، بوسنیا ، لیبیا ، چیچنیا اور سیریا جیسے ملکوں میں ظالم درندوں صیہونیوں ، صلیبیوں اور بدھشٹوں کے ذریعے مسلمانوں پر مظالم ڈھاکر ایک سیاہ تاریخ رقم کی گئی تھی۔ پھر بھی فلسطین کے مسلمانوں میں جذبۂ حریت اور القدس کو یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے عزائم ابھی دھومل اور مدھم نہیں ہوئے ہیں۔ ابھی فلسطین کی ماؤں کی کوکھیں مجاہدین پیدا کرنے میں بنجر نہیں ہوئی ہیں۔ ابھی بھی وہاں حریت پسند عوام موجود ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہاں کی خواتین ، مرد ، بچے اور بوڑھے سب مل کر مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی غرض سے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر روزانہ پانچ وقت القدس میں حاضری دیتے ہیں۔ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ، و جدید آلات حرب بالکل نہیں ہیں۔ ان کے پاس باقاعدہ کوئی ٹریننگ یافتہ فوج نہیں ہے۔ ان کے پاس کوئی ذرائع ابلاغ اور میڈیا بھی نہیں ہے۔ وہ نہتھے ہیں۔ مظلوم ہیں۔ مغصوب ہیں۔ لیکن اللہ کی رحمت اور اس کی مدد سے محروم بالکل نہیں ہیں۔ اللہ نے ان کے اندر جذبۂ حریت پیدا کر رکھا ہے۔ اور یہ جذبہ ان کے اندر اس وقت تک رہے گا جب تک القدس کو آزاد کروانے کے لیے دنیا میں کوئی بڑی طاقت رونما نہیں ہو جاتی۔ اگر اس دور میں یہ ممکن نہیں تو حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہا السلام کے نزول و ظہور کے بعد تو ان ظالموں کا خاتمہ اور بیت المقدس کا آزاد ہونا بالکل یقینی ہی ہے۔ اور اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ جس کو چودہ سو سال قبل ہمارے رسول ﷺ نے پیشین گوئی کے طور پر پوری امت کو بتلا دیا تھا۔ کیوں کہ یہود ایک مبغوض و ملعون قوم ہے۔ جس نے اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرکے ان کو جھوٹا ثابت کرنے کی تمام تر سازشیں کرکے ، ان پر انتہائی درجے کے مظالم ڈھاکر اور آخر میں انہیں سولی پر چڑھانے کی ناپاک سازشیں اور کوششیں کیں۔ لیکن تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ اور انہیں قرب قیامت پھر دنیا میں مبعوث کریں گے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس مبغوض قوم کا اجتماعی خاتمہ اور سزا تو عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہی دلوائیں گے۔ اس بات پر ہمیں پورا یقین ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا حشر افعانستان میں ہوئے امریکیوں اور روسیوں سے بھی برا ہوگا (ان شاءاللہ)۔ بس وقت کا انتظار کریں۔ اور اپنی خصوصی دعاؤں میں القدس اور فلسطینوں کو ہرگز نہ بھولیں۔
فرمان مظاہری بارہ بنکوی،مقیم حال سعودی عرب

Also read

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here