Saturday, April 20, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldیوم اساتذہ

یوم اساتذہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

نورالصباح

یوم اساتذہ عالمی پیمانے پر 5اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور قومی پیمانے پر 5/ستمبر کو،یہ عالمی ہو یا قومی لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ہمارے یہاں گرو اور چیلے کی روایت اساطیری دور سے شروع ہوتی ہے ،جس کی مثال ہمیں پوری دنیا میں نہیں ملتی کہ ہمارے پاس استاذ کی تکریم کو لے کر ایک عظیم روایت ہے جس نے ایک عظیم نظریہ گرو دکشنا کے روپ میں پوری دنیا کو دیا۔ہر ایک مذہب میں،ہرایک ملک میں،ہرایک تہذیب میں اور ہر ایک ثقافت میں استاذ کے لیے کوئی نہ کوئی نظریہ موجود ہے،لیکن جدید ہندوستان میں ہند کو وہ مایہ ناز شخصیت نصیب ہوئی جس میں ایک اعلٰی استاذ کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔وہ عظیم رہنما،عظیم فلسفی،اور عظیم شخصیت ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن ہیں جن کی یوم پیدائش پر یوم اساتذہ مناکر تمام اساتذہ کو عزت بخشی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی یوم پیدائش پر یوم اساتذہ منانے کی کیا ضرورت؟اس کی ضرورت اور اہم وجہ یہ ہے کہ وہ نائب صدر اور ہند کے دوسرے صدر جمہوریہ ہونے کے باوجود بھی خود کو ایک استاذ کہلوانا پسند کرتے تھے۔اس کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ وہ خود مفکر،مدبر،مجتہد،فلسفی اور ایک باشعور استاذ تھے۔انھوں نے اپنی حیات کے چالیس سال تعلیم و تعلم میں صرف کردیے تھے۔اس درمیان انھیں یہ محسوس ہوا کہ اساتذہ کئی قسم کے مسائل کے درمیان محصور ہونے کے باوجودمع صبرواستقلال کے اپنی محنت شاقہ سے طالب علموں کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے اندر ہنر پیدا کعنے میں۔لگے رہتے ہیں۔اس طرح سے ان کی زندگی کو باوقار بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کی ارتقائی راہوں کو بھی ہموار کرتے ہیں۔یہی سبب ہے صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد جب ان کے ہردلعزیز شاگرد ان کی یوم پیدائش منانے کے لیے ان سے اجازت لینے گیے تو انھوں نے ان سے اس کی جگہ یوم اساتذہ مناکر استاذوں کی عزت افزائش کے لیے کہا۔
ایک عمدہ استاذ کے بارے میں ان کا قول ہے:
“استاذ وہ ہے جو علم حاصل کرے اور دوسروں تک پہونچائے۔ ایک استاذ کو اہنے علم کے ذریعہ ضیا پاشی کرنے چاہیے کیونکہ ایک اچھا استاذ وہی ہوتا ہے جو خود تو شمع کی مانند جلے اور دوسروں کو روشنی پھیلائے۔ایک استاذ کو چاہیے کہ وہ سادہ زندگی اور اعلٰی خیالات کی گفتگو کے قالب میں خود کو ڈھال لے۔اس کو علم ایک لامتناہی سمندر کے مانند ہمیشہ رواں دواں رہنا چاہیے۔علم کے ذریعہ ان کا منشاء یہ تھا کہ طلباء کی رہنمائی کی جائے اور اس کے ذریعہ سے معاشرے میں پنپ رہی متعدد برائیوں کو دور کیا جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محض علم فراہم کردینا ہی تعلیم نہیں ہے اگرچہ علم ایک اہم چیز ہے تاہم فرد کے ذہنی میلانات اس کے جذبات و احساسات کی بھی کافی اہمیت ہے۔یہ باتیں کدی بھی فرد کو ایک ذمہ دار شہری بناتی ہیں تعلیم کا اصل مقصد ہے علم کے تئیں لگن کا احساس اور مسلسل سیکھتے رہنے کا رجحان یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو معلومات اور تجربات دونوں عطا کرتا ہے اور زندگی گزارنے کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے۔
ہمدردی کا جذبہ، محبت،شفقت اور عمدہ روایات کو فروغ دینا بھی تعلیم کا مقصد ہے۔
5/ستمبر ہمارے دوسرے صدر جمہوریہ کے اوصاف ان کی خوبیاں اور ان کے مداحوں کی اعدادوشمار کا مقصد نہیں کیوں کہ کسی بھی مفکر اور دانشور سے متعلق باتیں کتاب ابیض میں جلوہ سامانیاں کرتی ہوئی نظر آجائیں گی یا بزرگوں اور اساتذہ کی زبانی سننے کے مواقع میسر ہوتے رہیں گے۔کیوں کہ زندگی ایک بہترین کتاب اور زمانہ ایک بہترین استاذ کے مانند ہوتا ہے۔
دراصل ہمیں ان اقوال کی روشنی میں دیکھنا یہ ہے کہ ایک متعلم کیسا ہونا چاہیے اور اس کی عزت و تکریم کے کیا مراحل ہونے چاہیئیں؟
اگر ہم صدر جمہوریہ کے اقوال مد نظر رکھتے ہیں تو کیا ہمارے اندر ایسے اساتذہ کی خوبیاں موجود ہیں؟ کیا ہمارے اندر ایثاروقربانی کا جذبہ ہے؟کیا ہم قوم کی خدمت کے لیے متجسس ہیں؟یا کیا ہمارے اندر اپنے محترم اساتذہ کرام کے تئیں ادب واحترام کے جذبات موجزن ہیں؟جو ہمیں معرفت الٰہی تک پہونچانے کا ذریعہ ہیں۔
ایک استاذ کی عزت واحترام کے ضمن میں حضرت علی نے کہا تھا کہ:
“اگر مجھے کسی نے ایک علم بھی دے دیا تومیں اس کا غلام۔ہوں چاہے وہ مجھے رکھے یا فروخت کردے”
سکندر اعظم نے کہا تھا کہ:
“میرے والدین مجھے فرش تک لائے مگر میرے اساتذہ نے مجھے عرش تک پہونچا دیا”
کبیر داس جی نے اپنے دوہوں میں اساتذہ کی تکریم کے سلسلے میں کہا کہ:
“اگر بھگوان اور میرے استاد ایک ساتھ دھرتی پر آجائیں تو میں کشمکش میں مبتلا ہوجاؤں گا کہ پہلے کس کا پیر چھوؤں؟ تو پہلے میں اپنے استاد کو فوقیت دوں گا وہ معرفت الٰہی تک پہونچانے کا ذریعہ بنے۔”
اساتذہ کی عزت واحترام کے سلسلے میں انتہا تک باتیں کہ دی گئی ہیں مگر عصر حاضر کے حالات روبہ زوال ہیں۔صرف علم حاصل کرلینا ہی تعلیم نہیں بلکہ اس کے ذریعہ اخلاق کو بلند کرنا ہے اور اخلاق اسی وقت معراج کمال کو پہونچ سکتا ہے جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے بصورت دیگر انسان،انسان نہ ہوکر حیوان کی شکل میں متشکل ہوجاتا ہے۔اس کے اندر بے شمار بیماریاں بدکاری،رندبلانوشی،چغلی،حرصو طمع اور حسد کی شکل میں داخل ہوجاتی ہیں۔
ظاہری طور پر مغربی تقلید سے انسان مہذب نہیں ہوجاتا جب تک کہ باطنی طور پر خود کے اندر اور معاشرتی سوچ ،اخلاقی قدر،اور شخصیت و کردار کے اندر تبدیلی نہ لائے۔یہ تمام چیزیں اسی وقت ہمارے اندر داخل ہوسکتی ہیں جب تک ہم اپنے اساتذہ کی عزت نہ کریں۔کیوں کہ ہمارے اساتذہ ملک وقوم۔کے معمار ہیں اور ہماری شخصیت کو پروقار اور بلند بنانے کے لیے کوشاں بھی۔ اگر ہم ان کی عزت واحترام کا لحاظ نہیں کرتے تو ہماری تعلیم تعلیم نہ ہو کر نیم حکیم خطرے جاں اور نیم ملا خطرے ایماں کی صورت اختیار کرجائے گی۔
درج بالا اقوال کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ
دور حاضر کا انسان اپنی تعلیم اور اساتذہ کی تکریم، اور ایک عمدہ استاذ بننے میں کتنا درآمد ہے؟
دور حاضر میں ہونے والےحوادث جو اکثر ہماری بچیوں اور عورتوں کے ساتھ پیش آرہے ہیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ آخر ہماری تعلیم کا رخ کس طرف جا رہا ہے؟ کیا ہم اسی تعلیم سے بہرہ ور ہورہے ہیں جو ہمارے اسلاف کی مرہون منت ہے؟ کیا نسل نو تعلیم کے اسی خزینہ سے موجزن ہورہی ہے جو تعلیم کا اور ہمارے اساتذہ کا مقصد ہے؟؟؟
‌یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے!!!
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،۔شاخ بھوپال

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular